ستر سالہ ”نوائے وقت“ آج بھی تندرست و توانا ہے۔ پاکستان نوائے وقت کی محبت ہے مجید نظامی کے بارے میں مشہور ہے کسی سے کتنے ہی ناراض کیوں نہ ہوں وہ اِ ن کے سامنے پاکستان کے بارے میں اچھے کلمات کہہ دے تو فوراََ راضی ہو جاتے ہیں۔ پاکستان اور نوائے وقت لازم وملزوم ہیں۔ نوائے وقت کے دشمن نوائے وقت کو کبھی نہ توڑ سکیں گے۔نوائے وقت آج بھی پورے قد کے ساتھ کھڑا ہے اور پاکستان کیلئے آج بھی اُتنا ہی طاقتور ہے جتنا اُس کی پیدائش کے وقت تھا !دشمنوں نے پاکستان کے خلاف جب بھی کوئی سازش کی نوائے وقت ایک انتہائی طاقتور ہتھیار بن کر سامنے آیا۔اس ہتھیار کے سامنے کوئی نہیں ٹھہرسکا۔اقتدار پسند جرنیل نہ وہ سیاستدان جنہوں نے پاکستان کو محض ایک”تجارتی مرکز“سمجھا۔ نوائے وقت اقتدار پسند جرنیلوں اور سیاست دانوں کے راہ کی دیوار نہ بنتا تو بچا کچھا پاکستان بھی وہ ہضم کر جاتے۔پاکستان کے دشمن آج بھی اِس تاک میں ہیں کب نوائے وقت کو ذرا اُونگھ آئے اور وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو جائیں ۔پاکستان کے دشمنوں کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں سکتی۔نوائے وقت گذشتہ ستر برسوں سے جاگ رہا ہے اور جاگتا رہے گا۔سو جاتا تو پاکستان کے تخلیق کار کی جدوجہد بھی اتنی جلدی شاید رنگ نہ لاتی ۔پاکستان کی تخلیق میں نوائے وقت کے کردار کو فراموش کیا جا سکا نہ کیا جاسکے گا۔ اِس کا ماتھا آج بھی اِسی تاریخی جملے کے ساتھ سجا ہے کہ” جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا جہاد ہے“۔یہ جہاد نوائے وقت نے ہر دور میں کیا ہر جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہا اور ویسے ہی کہا جیسے کہنے کا حق ہوتا ہے۔کوئی لالچ کوئی خوف نوائے وقت کو توڑ سکا نہ جھکاسکا !حمید نظامی نے پاکستان بنانے میں کردار ادا کیا اور مجید نظامی نے بچانے میں ۔سو پاکستان کو” نظامی برادران“ سے الگ دیکھا جاسکتا ہے نہ سوچا جا سکتا ہے۔یہ ایک ندی کے دو کنارے ہیں۔ایسی” ندی“جو دشمنوں کی تمام تر خواہشوں اور کوششوں کے باوجود خشک ہوئی نہ ہو گی ۔یہ ممکن ہی نہیں پاکستان کے ساتھ کوئی محبت کرے اور نوائے وقت سے نہ کرے یا نوائے وقت سے کرے اور پاکستان سے نہ کرے ۔جیسے یہ ممکن نہیں کوئی قائد اعظم سے محبت کرے اور پاکستان سے نہ کرے یا پاکستان سے کرے اور قائد اعظم سے نہ کرے۔پاکستان ،قائد اعظم اور نوائے وقت ایک ہی شجر کی شاخیں ہیں۔یہ شجر آج بھی ہرا بھرا ہے اور اللہ پاک کے فضل سے ہرا بھرا ہی رہے گا !اِس میں کوئی شک نہیں نوائے وقت نے اپنی ساکھ ہر دور میں برقرار رکھی پاکستان میں کچھ ایسے اخبارات بھی میدان میں اُترے جن کا”عزم“تھا نوائے وقت کا مقابلہ کریں گے۔نوائے وقت کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟جب مقصد صحافت کے بجائے ”دکانداری“ہو تو نوائے وقت کے ساتھ مقابلے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔کچھ اخبارات نے اپنی طرف سے بڑے ”جدیدرجحانات“ متعارف کروائے۔”آزادی صحافت“ کے نام پر شرفا ءکی پگڑیا ں اُچھالی گئیں۔رزق کی تلاش میں نکلے ہوئے خود ساختہ صحافیوں نے صحافت کو ایسے مقام پر لا کھڑا کیا کہ صحافی کو بھی اُنہی نظروں سے دیکھا جانے گا جن نظروں سے پولیس والوں یا لٹیروں کو دیکھا جاتا ہے۔کہاں حمید نظامی مرحوم کا زمانہ بڑے سے بڑے مفاد کوٹھکرا کر صرف اور صرف ملک و قوم کا مفاد پیشِ نظر رکھا جاتا تھا۔کہاں وہ زمانہ بھی ہمیں دیکھنا پڑا کہ سارا ”قومی مفاد“ جو چند سینٹی میٹر کے اشتہاروں پر قربان کر دیا جانے لگا !نوائے وقت نے اپنے معیار اور مقام کو کبھی متا ثر نہیں ہونے دیا یہ شاید واحد اخبار ہے جس سے وابستہ قلم کاروں پر کسی قسم کی بلیک میلنگ کا الزام لگاتے ہوئے ہزار بار سوچا جاتا ہے پاکستان سے محبت کرنے والوں کو نوائے وقت کا نشہ ہے۔ایسے”محبانِ نوائے وقت“بھی ہم نے دیکھے جنہیں کھانے کو ملے نہ ملے، پینے کو ملے نہ ملے نوائے وقت مل جائے تو یہی اُن کے لئے کافی ہوتا ہے۔نوائے وقت کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ملک کے ٹاپ کے قلم کاروں کی یہ تربیت گاہ رہی۔ نوائے وقت سے تربیت حاصل کرنے والے قلم کار کوئی بھی ادارہ جوائن کر لیں ملک و قوم کے مفاد کو اُس انداز میں نظر انداز کر ہی نہیں سکتے جس انداز میں بعض ایسے قلم کار کر دیتے ہیں جن کی تربیت میں نوائے وقت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔نوائے وقت میں لکھنا اعزاز کی بات ہے مگر یہ اعزاز صرف اُنہی کو ملتا ہے ملک و قوم کے ساتھ جن کی محبت شک و شبہ سے بالا تر ہوتی ہے۔نوائے وقت سے وابستگی اصل میں حُب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ ہے دُعا ہے اللہ پاک اِس ادارے کو قائم و دائم رکھے کہ اس کا قائم و دائم رہنا مضبوط اور توانا پاکستان کیلئے بے حد ضروری ہے !
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38