عوام نے امپورٹڈ حکومت کو مسترد کردیا۔۔۔؟

موجودہ حکومت کی پالیسیاں عوام دشمن ہیں لہٰذا عوام نے امپورٹڈ حکومت کو مستردکردیاہے۔ آج غریب عوام کہہ رہے ہیں کہ جب موجودہ حکومت اقتدار سنبھالنے کے باوجود معاملات درست نہیں کرسکتے ہیں توانہوں نے عمران خان کی حکومت کوکیوں ختم کیا۔؟جب اقتدار میں آکر مسائل حل نہیں کرسکتے تو اقتدار حاصل کرنے کیلئے بیرونی مداخلت کیوں کروائی گئی؟موجودہ حکومت کاایجنڈاصاف دکھائی دے رہاہے وہ عوام کو مزید مہنگائی کے بوجھ تلے دباناچاہتے ہیں۔یہ بات درست ہے کہ معیشت پر سیاست نہیں ہونی چاہئے ورنہ یہ مزید تباہی کا موجب بنے گا۔ پاکستان میں اشرافیہ قربانی دینے کیلئے تیار نہیں اس لئے ہر مرتبہ عوام کوہی قربانی کا بکرا بنادیا جاتا ہے، آئی ایم ایف نے پٹرول، ڈیزل، بجلی، اور گیس سمیت ہر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ بڑی کارپوریشنز کو سیلز ٹیکس میں حاصل استثنیٰ میں دو تہائی کمی کرنے کیلئے بھی کہا ہے۔ موجودہ حکومت نے سابقہ حکومت کے احساس پروگرام کو ختم کرکے غریبوں کو دو ہزار روپے دینا کااعلان کیاہے جو حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے کے مترادف ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بندربانٹ ہو رہی ہے۔ موجودہ حکومت کب تک عوام کوباتوں سے مطمئن کرنے کی کوشش کرتی رہے گی۔موجودہ حکومت کاکہناہے کہ عمران خان کی حکومت نہ ہٹاتے تو ملک برباد ہوتا نظر آرہا تھا، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرتے تو ملکی خزانے پر 120ارب روپے ماہانہ بوجھ پڑتا، پٹرول پر سالانہ 1200سے 1500ارب روپے سبسڈی دینا پڑتی جو تقریباً دفاعی بجٹ کے برابر ہے، یوکرین جنگ ختم ہوتی ہے تو پٹرول کی قیمتیں کم ہوں گی، بین الاقوامی سطح پر پٹرول کی قیمتیں نہیں بڑھیں تو ہم بھی قیمتیں نہیں بڑھائیں
گے۔ ہم مشکل فیصلے نہ کرتے تو ملک ایک دو مہینے بعد ڈیفالٹ ہوسکتا تھا۔ موجودہ حکومت نے ایک بار پھر عوام کو لالی پاپ دے دیا ہے کہ دو تین مہینے سختی کے بعد حالات بہتر ہوجائیں گے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد سی این جی کی قیمت بھی بڑھا دی گئی ہے۔ موجودہ امپورٹڈ حکومت نے دعویٰ کیاتھا کہ ہم مہنگائی اور بے روزگاری ختم کرنے کیلئے اقتدار حاصل کرناچاہتے ہیں اور ہمارا مقصد عوام کو ریلیف دینا ہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے مہنگائی اور بے روزگاری کو انتہا تک پہنچادیاہے،ڈالرنے ڈبل سنچری مکمل کرلی ہے۔ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہیں ،ابھی اسی پر اکتفانہیں ہے بلکہ حکومت مزید عوام پرمہنگائی کے بم گرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔موجودہ حکومت نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین(ای وی ایم) کے بعد رجعت پسندانہ نوعیت کا بل قومی احتساب (ترمیمی) 2022 پارلیمنٹ سے منظور کرواکے صدر کو بھجوادیا، یہ بل کرپشن کی نئی راہیں کھول دے گا۔ اس بل سے احتساب کا عمل مزید کمزور ہوگا۔دنیا بھر کے ممالک وائٹ کالر کرائم پر قابو پانے کی کوششیں کررہے ہیں سیاسی عناصر کا کالا دھن جوکہ ٹیکس چوری، جرائم اور بدعنوانی کے دیگر ذرائع سے حاصل کیاجاتاہے کوئی ایسا نشان نہیں چھوڑتا کہ جس کاکھوج لگایاجاسکے۔ عوام کااستحصال کیاجارہاہے اس بل کے ذریعے احتساب کو مکمل طور پر ختم کرنے کوشش کی جارہی ہے اور احتساب کو بے اثر کیاجارہاہے۔تاکہ موجودہ امپورٹڈ حکومت کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کرسکے۔موجودہ حکومت اپنے دعو?ں کے برعکس کام کررہی ہے۔ اب تک موجودہ حکومت نے عوام سے کیا گیاایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا بلکہ مزید عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری کی دلدل میں پھنسادیا گیاہے۔یہی وجہ ہے کہ عوام نے نہ صرف ضمنی الیکشن کے دوران امپورٹڈ حکومت کے اتحادیوں کو مسترد کیا بلکہ امپورٹڈ حکومت کو بھی مسترد کر دیا ہے۔موجودہ حکومت کے اقدامات عوام دشمن ہیں۔ یہ عوام دشمن حکومت عوام کو منظور نہیں ہے۔ موجودہ حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں اور ان کے رہنما کرپشن کے بادشاہ ہیں، ایسا لگتا ہے کہ چوروں کو چوکیدار بنادیا گیاہے۔ اس وقت موجودہ کابینہ میں آدھے سے زیادہ لوگ ضمانتوں پر ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کے پاس مینڈیٹ نہیں ہے، جوڑ توڑ کر کے عوام پرعارضی حکومت مسلط کی گئی ہے‘ پیپلز پارٹی اور( ن) لیگ زیادہ دیر نہیں چل سکتےپچھلی ادوار سے یہ بات ثابت ہے۔ حکومت کا دیگر سیاسی جماعتوں کیساتھ غیر فطری اتحاد بہت جلد بکھرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ قوم امپورٹڈ حکومت کو تسلیم نہیں کرتی جن لوگوں کو معاشی ماہرین کہا جارہاتھا انہوں نے اقتدار میں آ کر ملک میں پے درپے مہنگائی کے بم گرائے ہیں جبکہ سابقہ حکومت نے آئی ایم ایف کے دبا? پر سبسڈی ختم نہیں کی تھی مگر امپورٹڈ حکومت آئی ایم ایف کے مطالبات سے بھی آگے نکل کر سب مطالبات تسلیم کر چکی ہے۔جس سے مزید مہنگائی کا سیلاب آنے کی توقع ہے۔ یہ حکومت عوام کو ریلیف دینے کیلئے نہیں بلکہ عوام کے مصائب میں مزید اضافہ کرنے کیلئے اقتدار میں آئی ہے۔ انہیں اپنے مقدمات ختم کرانے تھے جو انہوں نے کرالئے ہیں۔ موجودہ حکومت کو عوام کا ذرا برابر بھی احساس نہیں ہے۔ کراچی کے علاقے NA240 کے ضمنی انتخاب کے دوران دن بھر ہنگامے ہوتے رہے، الیکشن کمیشن صاف شفاف الیکشن کرانے میں ناکام رہا، عمران خان نے موجودہ امپورٹڈ حکومت کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے اس حلقے میں حکومتی اتحادی جماعت ایم کیو ایم (پاکستان) کو پہلے کے مقابلے میں بہت کم ووٹ پڑے۔الیکشن کمیشن کے مطابق حلقے میں پولنگ کا ٹرن آ?ٹ 8.38 فیصد رہا جبکہ اس حلقے میں کل ووٹرزکی تعداد 5 لاکھ 29 ہزار 855 ہے۔مجموعی طور پر 92 فیصد عوام نے الیکشن کو مسترد کردیا۔ الیکشن کمیشن کو کم ووٹنگ پر اس حلقے کاانتخاب کالعدم قرار دیناچاہیے۔ضمنی الیکشن کے دوران درجنوں پولنگ اسٹیشنز ویران نظر آئے۔ٹرن آ ?ٹ 8فیصد ہونے کا مقصد ہوا کہ اس حلقے کی 92فیصد اب بھی ان کے خلاف ہے، اتنی بڑی تعداد میں عوام نے ان کی مخالفت کی ہے لیکن بدقسمتی سے 5لاکھ سے زائد ووٹوں پرمشتمل حلقے میں10ہزار ووٹ لیکر کامیاب ہونے والا شخص اب 5لاکھ افراد کی نمائندگی کرے گا؟یہ کیسا نظام ہے۔کہاں کا انصاف ہے۔ اسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے پرحملوں کے الزامات بھی لگائے ہیں۔ ہنگاموں اور فائرنگ کے مختلف واقعات بھی رونما ہوئے۔ علاقے میں کشیدگی رہی اور کاروبار بند ہوگیا۔ جب ایک حلقے میں ضمنی الیکشن کے دوران یہ حالات ہیں تو پھر جب عام انتخابات جو گلی گلی میں ہونے ہیں تواس وقت کیا حالات ہوں گے؟ یہ بڑی تشویشناک بات ہے اور ہمارے اداروں کے لیے سوالیہ نشان بھی تمام پولنگ اسٹیشن کو حساس قرار دئیے جانے کے باوجود پولنگ اسٹیشن پر سیکورٹی اہلکاروں کی نفری کم تھی۔اس ضمنی انتخابات کا پاکستان تحریک انصاف نے بائیکاٹ کیا تھا۔یہی وجہ تھی کہ پولنگ اسٹیشنز خالی نظر آئے ٹرن آ?ٹ بہت کم رہا۔دوسری جانب موجودہ امپورٹڈ حکومت نے مبینہ طور پر (ای سی ایل)سے بڑے پیمانے پر ایسے لوگوں کے نام بھی خارج کرادیئے ہیں جن پر سنگین الزامات عائد تھے۔ دراصل ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر کنٹرول کی ذمہ داری پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے پاس تھی لیکن اب یہ ذمہ داری وزارت داخلہ کے سپرد کر دی گئی ہے۔حکومتی اقدامات پر عوام میں تشویش پائی جاتی ہے۔اگر فوری طور پر نئے انتخابات کااعلان نہ کیا گیا تو حالات مزید خراب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس حکومت نے عوام کو دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا ہے۔اور اقتدار حاصل کرنے کے بعد سب سے پہلے اپنے مقدمات ختم کرائے جارہے ہیں۔موجودہ حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کے بجائے پہلا والا ریلیف بھی ختم کردیاہے جو ظلم کے مترادف ہے۔آخر آزاد پاکستان کا آزاد شہری جائے تو جائے کہاں ؟