غلامی کا سفر

ہمارے ملکی معاشی سفر کی داستان بلاشبہ اور بلامبالغہ کسی گھنائونے اور ڈرائونے خواب سے کم نہیں۔ مانگ تانگ کر کھانے اور ملک چلانے کی یہ ریت اُس وقت پڑی کہ جب سال 1958 میں پاکستان نے پہلی مرتبہ آئی ایم ایف کے دربار پر ایک سوالی بن کر انتہائی مئودب ہو کر دستک دی۔ ف جنرل ایوب خان نے 25ملین ڈالر کے (Special Drawing Rights ( کا باضابطہ طور پر تحریری معاہدہ کیا تاہم وہ رقم اُس وقت وصول نہ کی گئی۔ اس طرح پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان دائمی اور ناقابل انفساخ بیعت باقاعدہ کا آغاز ہوا۔ 1965 اور 1968میں باقائدہ دو پروگرامز کے ذریعے 12 ملین ڈالر حاصل کیئے گئے۔ ذولفقار علی بھٹو دور میں سال 72، 74 اور 1977 میں آئی ایم ایف سے ۴۳ ملین ڈالر حاصل کیئے گئے۔ جنرل ضیاء الحق دورمیں 1980-81 میں 2.187 بلین ڈالر قرضہ حاصل کیا گیا۔ بینظیر بھٹو اور نوازشریف دور 1997 سے1988 کے ادوار میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے 1.64بلین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا ۔ پرویز مشرف دور میں 1.33بلین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا گیا۔ پرویز مشرف کے دور کے بعد پی پی پی دور میں تاریخ کے سب سے بڑے بیل آئوٹ پیکج کے ذریعے4.94 بلین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا گیا۔ اسکے بعد کے پی ایم ایل این کے دور حکومت میں9 4.39بلین ڈالر کا قرضہ لیا گیا۔ عمران خان کے دوراقتدار میں بھی یہ سلسلہ رک نہ سکا اور پاکستان نے 57 بلین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا۔ قرضے لے کر ملک چلانے کا یہ سلسلہ، رسم، رواج اوہ ریت آج بھی پوری آب و تاب سے جاری و ساری ہے۔ حالات اس نہج پر آن پہنچے ہیں کہ بیرونی قرضے لینے کو کامیابی وکامرانی تصور کیا جانے لگا ہے۔ ہماری حکومتیں قرضہ مل جانے کو اپنی کامیابی قرار دینے لگی ہیں۔ آج ہماری معاشی حالت یہ ہے کہ ہم کم وبیش 55ٹریلین روپے کے مقروض ہیں۔ پہاڑکی مانند یہ قرضے کس طرح ادا ہوں گے؟ ہمالیہ، کے ٹو اور ماونٹ ایورسٹ کو تو باآسانی سر کیا جاسکتا ہے مگر قرضوں کے اس پہاڑ کو سر کرنا نا ممکن نظر آرہاہے۔ صدافسوس کہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ کوئی ایسا کوہ پیما موجود نہیں کو جو ـ "کوہ قرضہ" کو فتح کر کے اس پر اپنا فاتحانہ جھنڈا لہرا سکے۔ یہ قرضے کیوں لیئے گئے اور کہاں خرچ کیے گئے ۔ قوم اس سے مکمل طور پر لا علم اور بے خبر ہے۔ جن مقاصد کے حصول کی خاطر یہ قرضے لیے گئے وہ پورے ہوئے یا نہیں، ا سکا جواب خاموشی کے سوا ء کچھ نہیں، اسکا جواب شرمندگی کہ سواء کچھ نہیں۔ قوم کے ہر فرد کے ذھن میں اور لبوں پر یہ سوال ہونا چاہیئے کہ آخر پہاڑوں سے بڑے ان قرضوں کی رقم کہاں چلی گئی۔ ہم نے آخر ان قرضوں سے کیا حاصل کیاہے؟ یہ قرضے کیوں ناگزیرتھے؟ کب اور کس موقع پر عوام کو ان قرضوں کے حصول کی خاطر اعتماد میں لیا گیا؟ کاش کوئی ان سوالات کا جواب قوم کو دے سکے۔ کیا ان قرضوں سے ملک کا کوئی نظام ٹھیک ہواہے؟ کیا کوئی ادارہ ٹھیک ہوا ہے یا اس جانب کوئی قدم اٹھایا جا سکا؟ بلاشبہ اسکا جواب نفی میں ہے۔ ا س قدر بھاری بھرکم قرضہ جات سے تو ہمارے تمام ادارے ٹھیک ہو سکتے تھے۔ ہماری تعلیم کی شرح سو فیصد ہو سکتی تھی ۔ صحت کے شعبہ میں دنیا کا بہترین نظام وضع ہو سکتا تھا۔ ادارہ جاتی اصلاحات کر کے اداروں کی کارگردگی کو بہتر سے بہتر بنایا جا سکتا تھا۔ لوکل صنعتوں کا پہیہ
گھمایا جا سکتا تھا۔ امپورٹ کادروازہ بند کر کے ا یکسپورٹ کی بلند ترین منازل کو چھوا جا سکتا تھا۔ قانون کے نظام کو بہترین بنایا جا سکتا تھا ۔ مگر اس میں سے کچھ بھی نہیں ہو سکا بلکہ ہر طرف ابتری، بے حالی بدحالی تنزلی اور تباہی ہوئی ہے۔ کیا یہ قرضے صرف روزمرہ کے اخراجات کو پورا کرنے پر صرف ہو رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر کیوں نہ اخراجات کو کم سے کم تر کر دینے کی نیت اور عہد کر لیا جائے۔ یہ بات تو طے شدہ ہے کہ قرضے لیتے وقت بد قسمتی سے یہ نہیں سوچاگیا کہ یہ قرضے کیونکر اُتریں گے اور یہ سہرا کس کے سر پر ہو گا؟ فی الوقتی اور غیردانشمندانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہم قرضے کے بوجھ تلے چت ہو چکے ہیں۔ قرض خواہ کو علم اور اندازہ ہے کہ قرض دار قرضہ واپس نہیں کر پائے گا اس لئے اب قرض خواہ نے اپنی پالیسی ، اصول اور قواعدو ضوابط بنا کر ایک فہرست قرض دار کے ہاتھ میں تھما دی ہے۔ قرض دار اب مجبور ہے، بے بس ہے اور لاچار ہے، شرائط اور تجویز نما احکامات پر عملدرآمد کیئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس صورتحال میں اپنی مرضی ، آزادی ، اختیارات اور فیصلے ، سب کچھ سلب ہو رہا ہے۔ اگر آج قائداعظم محمد علی جناح اور قلندرلاہوری علامہ اقبال زندہ ہوتے اور یہ دیکھتے کہ ہم نے اُن کے اس دطن کے ساتھ کیا کچھ کر دیا ہے تو بلاشبہ وہ تڑپ کر رہ جاتے۔ اُن کا دل بُجھ جاتا ، اُن کے خواب چکنا چور ہو جاتے۔ ان کی آنکھوں میں آنسوئوں کا سیلاب ہوتا۔ ہم ان کے سامنے سر جھکائے مجرموں کی طرح کھڑے ہوتے۔ وہ ہمیں کچھ نہ کہتے مگر اُن کی خاموشی ہمیں مار کے رکھ دیتی، ہمیں کہیں کا نہ چھوڑتی۔ بلا شبہ ہم اُن کے مجرم ہیں ہم اُن کے لگائے ہوئے پودے کی آبیاری نہیں کر سکے۔ ہم اُن کے ارمانوں کا پاس نہیںرکھ سکے ۔ ہمیں اقبالِ جرم ہے اپنی کوتاہیوں اور نا لائقیوں کا۔ ہمیں اپنے قائدین سے معافی کیسے ملے گی ہم یہ شرمندگی اور ندامت کیسے دھوپائیں گے ہم یہ خفت کس طرح مٹا پائیں گے۔ آج حالت یہ ہے کہ پاکستان سارک ممالک میں ماسوائے سری لنکا کے، سب سے کمزور کرنسی کا حامل ملک ہے۔ بنگلہ دیش کا ایک ٹکہ ہمارے 2.26روپے کے برابر ہے۔ انڈین ایک روپیہ ہمارے 2.70روپے کے برابر ہے۔ افغانستان کا ایک افغانی ہماے 2.35روپے کے برابر ہے۔ بھوٹان کا ایک روپیہ ہمارے 2.70 روپے کے برابر ہے۔ نیپال کا ایک روپیہ ہمارے1.68روپے کے برابر ہے۔ مالدیپ کا ایک روپیہ ہمارے 13.65روپے کے برابر ہے۔ سری لنکا کا ایک روپیہ ہمارے 0.59 روپے کے برابر ہے۔ مِن حیث القوم اپنی کوتاہیوں اور نالائقیوں کے داغ دھبے مٹانے کا ایک راستہ ہے کہ جو ہو گیا سو ہو گیامگر اب ملکی معیشت کے ساتھ کھلواڑ کھیلنے کا سلسلہ بند کرنا ہو گا۔ اب اپنی جیبیں بھرنے نہیں بلکہ خالی کرنے کا وقت آگیا ہے۔ اب قربانی دینے کا وقت آگیا ہے۔ اب جائیدادیں بنانے کی نہیں بلکہ سرکار کو دینے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ چھوٹے موٹے اقدامات اب کام نہیں آنے والے۔ اس مرض کی کیفیت اب ایسی ہو چکی ہے کہ کوئی ٹیبلٹ کام نہیں کرے گی کیونکہ مرض کا علاج سب صرف اور صرف ایک بڑی سرجری ہی کی صورت میں ممکن ہے۔ اور سرجری کی صرف ایک ہی صورت اور شکل ہے کہ صدر، وزیراعظم ، گورنرز، وزراء ، مشیران، وزرائے اعلیٰ ، اراکین پارلیمنٹ ، صوبائی حکومتی عہدیداران اور تمام سرکاری ملازمین اپنی سرکاری گاڑیاں چھوڑکر اپنی اپنی ذاتی گاڑیوں میں سفر شروع کر دیں ۔ سرکاری محلات اور ایوانوں کو فوراََ خالی کر کے اپنے ذاتی مکانات میں منتقل ہو جائیں ۔ تمام سیاسی نمائیندے اپنی تنخواہوں اور ہر طرح کی مراعات سے دستبردار ہو جائیں ۔ ہر طرح کے بیرون ملک اور اندرون ملک دوروں پر فی الفور پابندی لگا دی جائے۔
سرکاری دفاترسے ائیرکنڈیشنرز اتار کر باہر پھینک دئیے جائیں ۔ سرکاری و سیاسی ضیافتوں اور کھانوں پر مکمل پابندی لگادی جائے ۔ اور ہاں اگر اس ملک کے صرف ایک سو افراد اپنے آدھے اثاثے سرکار کو دے دیں تو خدا کی قسم ہمارے سارے قرضے چند دنوں میں اُتر سکتے ہیں ۔ اپنے اثاثے بحق سرکاردے دینے پر اِن افراد کو قومی ہیرو کا درجہ دیا جائے۔ اِن افراد کو پوری قوم کا ایڈوانس سلام۔ پوری قوم سنگین معاشی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو جائے اب عوام کو ہر صورت ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ ایک فنڈ قائم کرے کہ جس میں عوام اپنی ڈونیشن دے سکیں تاکہ ایک زندہ قوم ہونے کا نعرہ عملی شکل میں نظر آسکے۔ہر طرح کی امپورٹ پر پابندی لگا دی جائے۔ یہی حالات پیٹ پر پتھر باندھنے کے ہیں اور یہی حالات گھاس کھا کر گزارہ کرنے کے ہیں ۔ ہم آزاد اور خودمختار قوم ہیں ہم پر پابندیاںلگانے کا کسی کو کوئی حق نہیں۔
ا یسے حالات کو خدارا بدل دیجیئے کیونکہ اغیار کے ہاتھوں غلامی کا یہ سفر قوم کو قبول نہیں۔