نیا مجوزہ بجٹ ؟

10جون کو وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے 2022-23کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے جس پر بحث جاری ہے اور 30جون سے پہلے پہلے یہ بجٹ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس ہو کر نئے مالی سال کیلئے لاگو ہو جائے گا ۔رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے حوالے سے اس مجوزہ بجٹ میںجو تجاویز سامنے آئی ہیں ان سے نہ صرف رئیل اسٹیٹ او ر کنسٹرکشن کا شعبہ (جو ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے) متاثر ہوگا بلکہ بے روزگاری بھی پھیلے گی۔نئے بجٹ میں غیر منقولہ پراپرٹی جس میں پلاٹ،مکان،دکان اور فلیٹ وغیر ہ کی خرید و فروخت پر فائلرکیلئے ٹیکسز کو ڈبل کر دیا گیا ہے حالانکہ یہ ٹیکسز (Adjustable)ہوتے ہے اور ریٹرن فائل کرتے ہوئے ریفنڈ بھی ہو سکتے ہیں۔ انکم ٹیکس آرڈینس 2001کی شق 236Kکے تحت خرید کنندہ ڈیکلیئر قیمت کا ایک فیصد ایڈوانس ٹیکس ایف بی آر کو جمع کرواتا تھا جس کو اب بڑھا کر دو فیصد کر دیا گیا ہے اسی طرح شق 236Cکے تحت فروخت کنندہ ڈیکلیئر قیمت کا ایک فیصد ایڈوانس ٹیکس ادا کرتا تھا اس کو بھی اب 2فیصد کر دیا گیا ہے ۔نان فائلر کیلئے پراپرٹی کی خرید و فروخت پر 5فیصد ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔اسی طرح کیپیٹل گین ٹیکس جو کہ ڈیکلیئر منافع کا دس فیصدتھا سے بڑھا کر 15فیصد کرنے کی تجویز ہے۔اس کے علاوہ غیر منقولہ پراپرٹی کا ہولڈنگ پریڈ کیپیٹل گین ٹیکس کیلئے جو پہلے چار سال تھا اس کو پلاٹس کیلئے چھ سال،مکان کیلئے چار سال جبکہ فلیٹ کیلئے دو سال کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک سے زائد پراپرٹی رکھنے والوں کیلئے(اڑھائی کروڑ کے استثنیٰ کے ساتھ) مارکیٹ ویلیو کا ایک فیصد فرضی کرایہ بھی لگایا گیا ہے ۔ان سب اقدامات کے نتیجے میں بجائے اس کے کہ حکومت کو پہلے سے زیاد ہ ریونیو حاصل ہو ہمیں خدشہ ہے کہ رئیل اسٹیٹ اور کنسٹرکشن کا کاروبار
بہت زیادہ متاثر ہوگا۔
اصل میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو سمجھنے کی ضرورت ہے عام طور پر اس کو غیر پیداواری شعبہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ صرف ایک شعبہ نہیں بلکہ یہ (Mother of Industries)ہے جب ایک پلاٹ فروخت ہوتا ہے تو اس پررہائشی یا کمرشل جو بھی عمارت بنتی ہے تو تقریبا چالیس قسم کی انڈسٹریز چلتی ہیں اس طرح تقریبا تیس طرح کے پیشہ وارانہ لوگ کام کرتے ہیں لہذا اس سے 70سے زائد انڈسٹریز اور پیشے وابستہ ہیں لاکھوں لوگوں کو روزگار میسر آتا ہے سرمائے کی گردش ہوتی ہے حکومت کو کئی طرح کے ان ڈائریکٹ ٹیکسز حاصل ہوتے ہیں بار بار ٹرانزیکشن ہونے سے ٹرانسفر کرنے والے اداروں/اتھارٹیز کو بہت زیادہ ریونیو حاصل ہوتا ہے۔اسی طرح اوورسیز پاکستانی جو کہ ملک میں قیمتی زرمبادلہ لانے کا بہت بڑا سبب بنتے ہیں ان کیلئے بھی سب سے محفوظ سرمایہ کاری رئیل اسٹیٹ میں ہی ہے اگر رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں کوئی بحران آتا ہے تو باہر سے آنے والی یہ سرمایہ کاری بھی رک جائے گی۔ٹیکسز کی بھرمار کی وجہ سے اگر ان پاکستانیوں کو یہاں کو ئی خاص فائدہ نظر نہ آیا تو وہ انہی ملکوں میں اپنا سرمایہ لگائیں گے۔ہماری تنظیم فیڈریشن آف رئیلٹرز پاکستان کا مطالبہ ہے کہ حکومت نئے تجویز کردہ ٹیکسز کو فی الفور واپس لے اور ہماری مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کرے توانشاء اللہ حکومت کو بھی بہت فائدہ ہوگا اور یہ سیکٹر بھی ترقی کریگا۔
(1)کوئی بھی ٹیکس لگانا ہویا رئیل اسٹیٹ کے بارے میں کوئی پالیسی سازی کرنی ہو تو فیڈریشن آف رئیلٹرز پاکستان سے اسٹیک ہولڈرز کے طور پر مشاورت کی جائے۔
(2)فائلر کیلئے خریدو فروخت پر 2فیصد ایڈوانس ٹیکس کو واپس1فیصد کیا جائے۔
(3)کیپیٹل گین ٹیکس کی مدت کو دوبارہ 4سال کیا جائے۔
(4)کیپیٹل گین ٹیکس کی شرح کو دوبارہ پہلے کی طرح پہلے سال 10فیصد،دوسرے سال 7.5فیصد
،تیسرے سال5فیصد جبکہ چوتھے سال اڑھائی فیصد کیا جائے۔
(5)حکومت بے شک نان فائلر پر 5فیصد ایڈوانس ٹیکس لگائے لیکن اوورسیز پاکستانیوں کو نان فائلر کے سیکشن سے نکال کر فائلر کے سیکشن میں رکھے۔
(6)پراپرٹی کی قیمتیں(ویلیو ایشن ٹیبل)سال میں ایک بار فیڈریشن آف رئیلٹرز پاکستان کے نمائندوں کے ساتھ مل بیٹھ کر فکس کیا جائے۔
(7)چاروں صوبوں اور مرکز میں پراپرٹی کی خرید و فروخت پر آنے والے اخراجات کو برابر ہونا چاہیے ،چاہے وہ رجسٹری کی مد میں ہوں یا کسی اتھارٹی اور ہائوسنگ سوسائٹی یا کنٹوٹمنٹ بورڈ کی ٹرانسفر ہی کیوں نہ ہو۔
(8)سابق حکومت کی رئیل اسٹیٹ سیکٹر کیلئے جاری ایمنسٹی سکیموں کو بحال رکھا جائے۔
(9)تعمیراتی سامان سیمنٹ ،سریا،کریش وغیرہ کی قیمتوں کو کنٹرول کیا جائے۔
(10)رئیل اسٹیٹ کے شعبے کو ریگولائز کیا جائے ،رئیل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے تحت پاکستان بھر کے تمام رئیل اسٹیٹ ایجنٹس کو رجسٹرڈ کیا جائے ۔ مناسب فیس مقرر کی جائے اور انہیں ملکی لیول کا لائسنس جاری کیا جائے جس کے تحت وہ پاکستان بھر میں جہاں بھی چاہیں پراپرٹی ٹرانسفر کروا سکیں۔انہیں کسی اتھارٹی میں نئے سرے سے رجسٹریشن کی ضرورت نہ ہو اس طرح ٹرانسفر کے وقت رئیل اسٹیٹ ایجنٹ کے سروسز چارجز (کمیشن)کا بنک وائوچر بنا ہوا ہو اس آمدن پر5فیصد سروسز ٹیکس لیا جائے۔اس طرح رئیل اسٹیٹ ایجنٹس کی آمدن محفوظ ہو جائے گی۔حکومت کو لاکھوں نئے ٹیکس دہندگان مل جائیں گے یہ وہ گزارشات اور تجاویز ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ملک میںرئیل اسٹیٹ اور کنسٹرکشن سیکٹر میں کاروباری ترقی بلخصوص حکومت کو ریونیو کی صورت میں اربوں روپے حاصل ہو سکتے ہیں۔بے روزگاری کے خاتمے سمیت بڑے معاشی مسائل حل ہونگے اور وطن عزیز تعمیر و ترقی کی ایک نئی راہ پر گامز ن ہوگا۔