حقیقت سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں

جمہوری حکومت چاہے پارلیمانی طرز کی ہو یا صدارتی طرز کی ہو ،اس میں قومی اسمبلی کا بڑا رول ہو تا ہے ،رول کو واضح کرنا اہم ہو تا ہے ۔پارلیمانی نظام حکومت میں پوری حکومت اسمبلی کو جواب دہ ہو تی ہے ،لیکن صدارتی طرز حکومت کے اپنے اسلوب ہو تے ہیں ،جو کہ بعض اوقات پارلیمانی جمہوریت سے متصادم ہو جاتے ہیں ۔لیکن ہم چو نکہ پارلیمانی طرز حکومت سے بہت دور ہو چکے ہیں اور شاید کسی حد تک ہمیں اس نظام سے بدل بھی کیا گیا ہے ۔ہمارے ملک میں آمریت آتی رہی ہے جس میں کہ صدر اختیارات کا مرکز ہو تا ہے اور یہ نظام صدارتی نظام سے بہت قریب ہو تا ہے اس لیے کسی حد تک ہمیں اس نظام سے انسیت موجود ہے ۔ہمارے چند ہی حکمران ہیں جو کہ جمہوری طریقے سے بر سر اقتدار آئے ہیں ۔لیکن انھوں نے بھی قومی اسمبلی کو کمزور کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی ہے ۔یہ بہت بد قسمتی کی بات ہے لیکن حقیقت ہے اور اس سے نظریں نہیں چرائی جا سکتی ہیں ۔کسی بھی حکومت نے اسمبلی کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کیا ہے ۔پا رلیمانی نظام میں پبلک اکا ونٹس کمیٹی کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہو ا کرتا ہے ،بلکہ کہا جائے کہ بنیاد ہو تا ہے تو غلط نہیں ہو گا ۔لیکن ہمارے ملک میں پبلک اکا ونٹس کمیٹی کا نظام بھی درست طریقے سے نہیں چلا یا گیا ہے ،اور اس کو عملا ً غیر فعال رکھا گیا ہے ۔ہمارے ہاں پبلک اکا ونٹس کمیٹی موجودہ معاملات کو چھوڑ کر 10سال پرانے معاملات کو دیکھ رہی ہو تی ہے جو کہ بد قسمتی کی بات ہے ،مجھے اس بات سے بہت مایوسی ہو ئی ہے کہ جب رانا تنویر نے پبلک اکا ونٹس کمیٹی چھوڑ کر تعلیم کی وزارت لینے کو ترجیح دی ،یعنی کہ ان کے نز دیک پبلک اکا ونٹس کمیٹی
کی اہمیت بہت کم ہے جو کہ افسوس ناک بات ہے ۔ہمارے ملک کے حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں ہمیں اس حوالے سے سنجیدہ سوچ بچار کی ضرورت ہے ۔ہمیں خود احتسابی کے عمل کو اپنانے کی ضرورت ہے اسی طرح سے بہتری ممکن ہے ورنہ ہم بطور قوم جس گرداب میں پھنس چکے ہیں ،اس سے نکلنا دن بدن مشکل ہو تا چلا جائے گا ۔ہمارے ملک میں ادارے اپنا کام نہیں کرتے ہیں جس کے باعث ملک مشکلا ت کا شکار ہو چکا ہے ،اگر ادارے اپنا کام کرتے اور مضبوط ہو تے تو آج ہم اس صورتحال سے دوچار نہیں ہو تے ۔پبلک اکا ونٹس کمیٹی نے بھی آج تک وہ کامم نہیں کیا ہے جو کہ ان کو کرنا چاہیے تھا جس کے باعث ملک کو نقصان پہنچا ہے ۔اور یہی وجہ ہے کہ ملک کے عوام کسی اور جانب دیکھتے ہیں ،اس وقت ملک کے حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں ان سے نکلنے کے لیے ،تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر بیٹھنے کی ضرورت ہے ۔اس کے بغیر ملک کا آگے چلنا مشکل دیکھائی دے رہا ہے ۔میرا ان حالات میں یہی مشورہ ہے کہ ایک آل پارٹیز کا نفرنس بلانے کی ضرورت ہے ۔اور ملک کو اس بد حالی سے نکالنے کے لیے ایک قابل عمل اور جا مع حل تلاش کیا جانا چاہیے ۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ عوام حکومت سے نالا ں ہے اور ان کی نظر میں حکومت اور اپوزیشن کا کو ئی مقام نہیں ہے ۔آج ملک میں 9جماعتوں کی حکومت ہے جو کہ بہت کمزور ہے ۔لیکن اس کمزور حکومت کو بڑے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے ۔تمام جماعتوں کو مل کر ملک کو معاشی گرداب سے نکا لنے کی ضرورت ہے ۔ساری بات اقتصادیات کی ہے جب تک کہ ملک کی اقتصادیات قابو میں نہیں آئیں گی تب تک کوئی بھی چیز بہتر نہیں کی جاسکتی ہے ۔لیکن اقتصا دیات کو بہتر کرنے کے لیے بہت سے کام کرنے پڑیں گے ۔ہمیں بہت بڑا خطرہ بڑھتی ہوئی آبادی سے ہے اور اس خطرے کو کم کرنے کی ضرورت ہے ۔آبادی کو کنٹرول کرنے سے ہی ملک کے حالات بہتر کیے جاسکتے ہیں ۔اسی وجہ سے مہنگائی بڑھ رہی ہے کیونکہ ملک کے وسائل کم ہیں ،اور ملک کی ضروریات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔اس تمام صورتحال میں صوبائی حکومتوں کا بھی کلیدی کردار ہے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے ان کو ذمہ داری لینے کی ضرورت ہے ۔لیکن صوبائی حکومتوں کی کارکردگی اس حوالے سے قابل زکر نہیں ہے ۔صوبائی حکومتیں مخمصے کا شکار ہیں اور اپنے آپ کو بچانے میں لگی ہو ئی ہیں ۔یہ صورتحال اچھی نہیں ہے اور اس صورتحال کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔18ویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کے پاس بہت سے اختیارات ہیں مالی لحاذ سے بھی صوبوں کو بہت استحکام ملا ہے اب ضرورت اس بات ہے کہ صوبے اپنی ذمہ داری کا احسا کرتے ہوئے ،اس حوالے سے کام کریں ،اور عوام کی نچلی سطح پر زندگیاں بہتر کرنے کے لیے اقدامات کیے جا ئیں ۔ہمیں ملک کو معاشی طو ر پر آگے لے جانے کے لیے بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے ۔ہمیں اپنی برآمدات میں فوری اضافے کی ضرورت ہے ،اگر ہر سال پاکستان کی برآمدات میں 8سے 10ارب ڈالر کا اضافہ ہو تو پاکستان کی معیشت کو استحکام دیا جاسکتا ہے ۔اس کے بغیر مالی مسائل کا حل ممکن نہیں ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ اپنے خسارے بھی کم کرنے کی ضرورت ہے ،حکومت پر بوجھ بنے ہوئے سرکاری اداروں کی نجکاری کرنے کی ضرور ہے تاکہ سالا نہ کئی سو ارب روپے کا بوجھ ختم کیا جاسکے ۔حکومت کو اپنی شاہ خرچیوں میں کمی کی بھی ضرورت ہے صرف عوام سے قربانی مانگتے رہنا ہی کوئی پلان نہیں ہے حکومت اعلیٰ سطح پر اپنے خرچے کم کرے تو ہی مالی صورتحال بہتر ہو سکتی ہے ہمیں اب اپنے معاشی مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اس کے بغیر بات آگے نہیں بڑھ سکتی ہے جتنی جلد یہ کام کیا جائے اتنا ہی ملک اور عوام کے لیے بہتر ہے ۔