وقت بدل گیا تم بھی بدلو
میں یہ سوچتا ہوں کیا ہم آج بھی 80 اور 90 کی دہائی میں جی رہے ہیں ایک گھنٹے کے ٹاک شو میں آکر گھنٹہ چلاکی سے گزارنے والے سیاستدان نہ جانے کس جہان میں رہتے ہیں کیا وہ عوام کو بھولا یا بے وقوف سمجھتے ہیں ان کے آقا جو لفافہ بانٹنے والے سمجھتے ہیں کہ وہ ٹی وی ٹاک شوز میں اپنے نظریات کو پروان چڑھا رہے ہیں اب ایسا نہیں ہے اب انفارمیشن کا ایک سیلاب آ چکا سوشل میڈیا نے ایک طوفان برپا کر رکھا ہے کبھی کوئی زمانہ تھا خبر ہم تک پہنچنے کا ذریعہ صرف اخبار ہوا کرتی تھی ہم اس خبر کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کے لئے اس کی فوٹو کاپیاں کرکے تقسیم کیا کرتے تھے اور خبر دوسرے تیسرے دن تک لوگوں میں پہنچتی تھی اور پھر گردش کیا کرتی تھی مگر وہ دور گزر گیا میرے پیارے لال۔اب وہ دور نہیں۔ پھر بھی میرے ملک کے سیاستدان آج بھی یہ سمجھ رہے ہیں پرانے حربے استعمال کر کے میڈیا کو کنٹرول کر کے سچی جھوٹی خبروں کو چھپا لیں گے وہ نہیں سمجھتے کہ اطلاعات کا ایک سیلاب رواں دواں ہے بچے بڑے بوڑھے گھریلوں خواتین سب یہ کہہ رہے ہیں کہ ایسا انھوں نے کبھی نہیں دیکھا کہ جس تیزی سے انفارمیشن ان لوگوں تک پہنچتی ہے خبر کو پھیلانے کے لیے تمام پرانے ذرائع بیکار ہو چکے اب اس کی جگہ نئے ذرائع نے لے لی ہے ۔سمارٹ فون نے لے لی ہے۔ ٹی وی چینلز کے بجائے یو ٹیوب اور پرسنل بلاگر اس پر
کام کر رہے ہیں۔ یوٹیوب کے کرتا دھرتا ٹی وی اینکر سے زیادہ معلومات رکھتے ہیں اور زیادہ مقبول بھی ہو گئے ہیں اب ایک سچا صحافی آزاد رہ سکتا ہے۔ اب قلم کاروں کے ہاتھ میں سمارٹ فون آگیا۔ واٹس ایپ انسٹاگرام یوٹیوب فیس بک کا استعمال کر کے عام آدمی بھی لوگوں کو شعور دینے کا سبب بن رہا ہے کبھی خبریں سینہ بہ سینہ چلتی تھیں مگر اب وہ زمانہ گزر گیا سمارٹ فون کی وجہ سے بچے بوڑھے بزرگ عورتیں سب ھی حکمرانوں کے انداز سے باخبر ہیں سب کے ہاتھ معلومات کا ایک ذخیرہ لگ گیا ہے۔ آج کل صرف ٹی وی ٹاک شو دیکھنے والوں کو لوگ بے خبر سمجھتے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذرائع استعمال کرنے والوں کو زیادہ باخبر سمجھا جاتا ہے۔ مگر خواب خرگوش میں کھوئے ہوئے میرے ملک کے سیاستدان اس انقلاب سے شاید بے خبر ہیں سیاستدان قومی مسائل کو چھوڑ کر مخالفین کے خلاف خبریں پھیلانے میں مصروف اقدارکا جنازہ نکالنے والے بھی اشرافیہ سیاستدان ہیں کبھی لوگ کہا کرتے تھے کہ آسمان کی آنکھ سب دیکھ رہی ہے لیکن اب یہ کہتے ہیں کہ 22 کروڑ عوام کی 44کروڑ آنکھیں یہ سب دیکھ رہی ہیں معلومات کا خزانہ عام آدمی تک پہنچ چکا ہے ملک کا عام شہری سیاستدانوں کے وعدوں سے باخبر ہے۔اب سوشل میڈیا کے ذریعے سیاست دانوں کو اپنے وعدے یاد دلائے جاتے ہیں کہ جب تم حکومت میں تھے تو تم کیا کہہ رہے تھے آج تم اپوزیشن میں ہو تو کیا کہہ رہے ہو اور کل جب تم اپوزیشن میں تھے تو تم کیا کہہ رہے تھے اور آج اگر اللہ نے آپ کو اقتدار دے دیا ہے تو تم کیا کہتے ہو انہونی ہو رہی ہیں جھوٹ بول کر اقتدار حاصل کرنے والوں کو عوام آئینہ دکھا رہے ہیں اور یہ آئینہ انہی کے ویڈیو کلپ ہیں جن سے حکمران انکار نہیں کر سکتے جھوٹ بولنے والوں کے لئے سیاست کرنا مشکل ہو چکا ہے وقت خود حیرت میں ہے یہ کیا ہو رہا ہے۔ بات کہاں پر جا کر ٹھہرے گی۔ عوام میں غصہ پایا جاتا ہے۔ چہرے غضبناک ہوگئے ہیں اور سیاست کے جگادری یہ سوچ رہے ہیں کہ عوام میں موجود اس اضطراب کو کیسے کم کیا جائے۔ سوشل میڈیا کے اس انقلاب سے قوم کا وقت برباد کرنے والے سیاستدان سخت پریشان ہیں۔ پہلے عوام کا غصہ اندر ہوا کرتا تھا۔ اب چہرہ بھی شعلے اور چنگاریاں اگل رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ چنگاریاں شعلہ بننے میں شاید دیر نہ لگے اب ہر بات خیبر سے کراچی تک لمحوں میں پہنچ جاتی ہے کوئی چیز بھی چھپائے نہیں چھپتی عوام میں بے قراری بڑھتی جا رہی ہے نہ جانے اس کا انجام کیا ہوگا مگر اس کا حل ضرور موجود ہے کی عوام کی فلاح کے کام کیے جائیں مہنگائی کو کسی بھی صورت میں کنٹرول کریں لوگوں کو انصاف مہیا کیا جائے۔ معاشی ناہمواریوں کو ختم کیا جائے برابری کے اصول کو اپنائیں حکمران اپنی شاہ خرچیوں کو کم کرکے سادگی اپنائیں اگر یہ بنیادی اقدامات نہ کیے گئے تو محسوس ہوتا ہے کہ انقلاب اب ہم سے زیادہ فاصلے پر نہیں ہے اس انفارمیشن کے دور میں اب حکمران عوام کو زیادہ دیر مزید دھوکے میں نہیں رکھ سکتے حکمرانوں سنبھل جاؤ تو اچھا ہے ورنہ عوام آپ کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے اور میں کسی ایک سیاسی جماعت سے مخاطب نہیں ۔ اللہ ہمارے حکمرانوں کو ہدایت دے اور اپنے ملک اور قوم کا وفادار بنائے