ایس ایم ظفر سے مکالمہ اور ہماری یادیں

سب سے پہلے تو میں اپنے گزشتہ کالم کے حوالے سے روزنامہ مشرق کے معاملہ میں اپنے عزیز دوست سید ممتاز احمد کی بھجوائی گئی وضاحت کا تذکرہ کروں گا جس میں انہوں نے باور کرایا کہ روزنامہ مشرق انہیں محترمہ بے نظیر بھٹو نے گفٹ ہرگز نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے مشرق کوئٹہ نجکاری کمیشن کے اہتمام کردہ نیلامِ عام میں خریدا تھا۔ مجھے اپنے دوست کی عزت کی خاطر اس موضوع پر بحث کا دروازہ کھولنے کی قطعاً ضرورت نہیں اس لئے میں سید ممتاز احمد کی بھجوائی اس وضاحت پر ہی صاد کرتا ہوں۔ وماعلینا الالبلاغ۔
گزشتہ دنوں میں قلم فائونڈیشن کے چیئرمین علامہ عبدالستار عاصم کی بھجوائی ڈاکٹر وقارملک کی ضخیم کتاب ’’ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر سے مکالمہ‘‘ کا مطالعہ کررہا تھا تو ایس ایم ظفر صاحب سے وابستہ میری اپنی یادوں کی بھی بہاریں لگ گئیں۔ ڈاکٹر وقار ملک پنجاب یونیورسٹی میں میڈیا سٹیڈیز کے سینئر استاد ہیں جو تدبر کے ساتھ ملکی اور قومی مسائل و معاملات پر تفکر کرتے ہیں اور مسائل کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایس ایم ظفر صاحب کے ساتھ انکی دیرینہ نیازمندی ہے چنانچہ ظفر صاحب کے ساتھ گاہے بگاہے ہونیوالی نشستوں میں زیربحث موضوعات اور ان پر ایس ایم ظفر صاحب کی ماہرانہ‘ وکیلانہ اور ملکی خودمختاری و سلامتی کے تناظر میں اظہار کردہ رائے کو ایک کتاب کی شکل میں محفوظ کرنے کا فیصلہ کیا جس کیلئے قلم فائونڈیشن کے زیراہتمام علامہ عبدالستار عاصم نے بیڑہ اٹھایا اور جب یہ ضخیم کتاب منظرعام پر آئی تو خود ایس ایم ظفر صاحب کیلئے خوشگوار حیرت کا باعث بنی۔ انکے بقول ڈاکٹر وقارملک نے انکے ساتھ مکالمہ ہی نہیں کیا بلکہ واقعات کی صحت کی جانچ پڑتال کیلئے جس طرح تحقیق و تصدیق کی وہ یقیناً قابلِ تحسین ہے چنانچہ انکی محنت ِشاقہ سے منظرعام پر آنیوالی یہ کتاب گفت و شنید سے بڑھ کر ایک علمی اور تاریخی دستاویز بن گئی ہے۔ ڈاکٹر مجاہد کامران صاحب کو تو یہ کتاب ایک انسائیکلوپیڈیا کے قالب میں ڈھلی نظر آئی ہے جس میں انکے بقول کسی بھی قسم کے موضوع پر دلچسپی رکھنے والے قاری کیلئے کچھ نہ کچھ مواد ضرور موجود ہے۔ ڈاکٹر مہدی حسن کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ ایس ایم ظفر ایک قانون دان ہی نہیں بلکہ پاکستان کی سیاسی‘ معاشرتی اور ثقافتی زندگی کے ایک اہم مبصر بھی ہیں۔ میں خود ایس ایم ظفر صاحب کیلئے اسی بنیاد پر عقیدت و احترام کے جذبات رکھتا ہوں کہ انکی شخصیت زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہے۔ وہ نامور قانون دان ہیں تو سیاست کی راہداریوں کے اسرار و رموز سے بھی بخوبی واقف ہیں اور علم و ادب کا تو گویا وہ خزانہ ہیں اور فن و ثقافت کے ساتھ بھی وہ پوری لگن کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ انسانی حقوق کی تعظیم و پاسداری تو انکی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے‘ گویا ہر شعبۂ ہائے زندگی پر انکی دسترس انہیں ایک مثالی انسان کے بلند درجے پر فائز کر چکی ہے۔ انکی زندگی بلاشبہ اس شعر کی عملی تصویر ہے کہ…؎
فرشتے سے بہتر ہے انسان ہونا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
میں نے 1974ء میں وکالت کی تعلیم کیلئے پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں داخلہ لیا تو مجھے رہائش کیلئے ظہور سٹریٹ ساندہ خورد لاہور میں اپنے دوست فرید فرخ کا چھوڑا ہوا ایک کمرہ کرائے پر مل گیا۔ اسکے محل وقوع سے کچھ مقامی لوگوں سے آگاہی حاصل کی تو مجھے یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ میرے کمرے کے بالکل سامنے والا گھر ایس ایم ظفر صاحب کا ہے جو انہوں نے اپنی وکالت کے ابتدائی دنوں میں تعمیر کراکے اس میں رہائش اختیار کی تھی۔ وکالت و سیاست کے شعبہ میں ایس ایم ظفر صاحب یقیناً رول ماڈل ہیں جنہوں نے سیاست میں اپنے بھرپور کردار کے باوجود دوسرے سیاست دانوں کی طرح پیشۂ وکالت کو کبھی خیرباد نہیں کیا بلکہ سیاست میں ہوتے ہوئے بھی پیشۂ وکالت کو ہی فوقیت دی اور اپنے علاوہ اپنے بچوں کا رزق بھی اسی پیشے کے ساتھ وابستہ کیا۔ وہ ساندے والے گھر سے تو نقل مکانی کرچکے تھے مگر اس علاقے کے مکینوں میں وہ بدستور عزت و احترام کے ساتھ ہی دیکھے جاتے تھے۔ میری مالک مکان اماّں حاجن بھی انکے محاسن کو اجاگر کرتے ہوئے ان کا دلپذیر انداز میں تذکرہ کیا کرتی تھیں۔
میرا انکے ساتھ سلسلۂ جنبانی اس وقت شروع ہوا جب میں لاء گریجویشن کے بعد باقاعدہ طور پر پیشۂ صحافت میں آگیا اور روزنامہ ’آزاد‘ سے بطور ہائیکورٹ رپورٹر میں نے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ اسی دوران میری معروف وکلاء اور ججز چیمبرز سے راہ و مراسم بڑھی جس کی مجھے اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی احسن طریقے سے ادائیگی کیلئے ضرورت بھی تھی۔ ان میں محمود علی قصوری، ایس ایم ظفر‘ ڈاکٹر خالد رانجھا‘ اعتزاز احسن‘ حامد خان‘ میاں آفتاب فرخ‘ اے کریم ملک‘ وسیم سجاد‘ سردار لطیف کھوسہ کے چیمبرز خاصے معروف تھے جہاں روزانہ کی بنیاد پر ہماری آمدورفت لگتی رہتی۔ ایس ایم ظفر صاحب کا شمار آئینی ماہرین میں ہوتا تھا تاہم 1978ء میں اس وقت کی معروف فلم آرٹسٹ شبنم کے گھر ڈکیتی کی واردات ہوئی تو ایس ایم ظفر صاحب نے اس کا یہ کیس ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا۔ مارشل لاء حکومت کی تشکیل کردہ خصوصی فوجی عدالت میں روزانہ کی بنیاد پر اس کیس کی سماعت ہوتی تھی جس کی کوریج کے دوران ایس ایم ظفر صاحب کی پیشۂ وکالت کے ہر شعبہ میں فنی مہارت کا اندازہ ہوا۔ یہ حقیقت انکے فن و ثقافت کے ساتھ جڑے ہونے کی بھی دلیل تھی۔ 1984ء میں آزادی کی تحریک چلانے والے کشمیری سکھوں نے بھارتی طیارہ اغوا کرکے لاہور میں اتارا تو ہائی جیکروں کیخلاف طیارہ اغواء کیس کی سماعت بھی ایوان زراعت میں قائم کردہ خصوصی عدالت میں ہوئی اور ایس ایم ظفر صاحب اس کیس میں استغاثہ کے وکیل کی حیثیت سے اپنی فنی مہارت کے جوہر دکھاتے رہے۔ مجھے اس کیس کی بھی روزانہ کی بنیاد پر کوریج کا موقع ملا اور میں انکی فنی مہارت کا مزید قائل ہو گیا۔ پھر ایک ناخوشگوار واقعہ یہ ہوا کہ 1990ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمہ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ کے فل بنچ میں زیرسماعت کیس کی سماعت کے حوالے سے تمام قومی اخبارات میں شائع ہونیوالی ایک خبر کی بنیاد پر فاضل بنچ کی جانب سے نوائے وقت سمیت متعلقہ اخباروں کے ایڈیٹرز‘ پبلشرز اور متعلقہ بیٹ رپورٹرز کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیئے گئے۔ اسی کیس کے حوالے سے ایس ایم ظفر صاحب نے خود سے منسوب ایک بیان کی بنیاد پر نوائے وقت کے میرے دوسرے ساتھی فاروق علی اعوان کیخلاف الگ سے توہین عدالت کی درخواست دائر کردی جس کے باعث کچھ بدمزگی کی فضا پیدا ہوئی۔ تاہم ایس ایم ظفر صاحب نے فاروق اعوان کے بھائی اقبال محمود اعوان کی غیرمشروط معافی کی درخواست پر صاد کرلیا اور معاملہ رفع دفع ہو گیا البتہ فاضل بنچ کی جانب سے جس کی سربراہی چیف جسٹس رفیق تارڑ صاحب خود کر رہے تھے، ہمارے خلاف شروع کی گئی توہین عدالت کی کارروائی جاری رہی اور عدالت کے روبرو جناب مجید نظامی کے پیش کردہ موقف کی بنیاد پر فاضل عدالت نے خود توہین عدالت کے نوٹس واپس لے کر کیس ختم کر دیا۔
ایس ایم ظفر صاحب کے ساتھ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران انکے مال روڈ والے چیمبر میں بے شمار نشستیں ہوئیں اور ہمیشہ انہیں ایک مشفق استاد کے بلند درجے پر فائز دیکھا۔ اعلیٰ عدلیہ کے فاضل جج بھی انکی فنی مہارت کے قائل رہے۔ انہوں نے انسانی حقوق تنظیم (ہیومن رائٹس سوسائٹی) کے پلیٹ فارم پر آئین و قانون کے تحت انسانی حقوق کی پاسداری کا جو درس دیا وہ ہمیشہ یادگار رہے گا۔ انکی تنظیم کی جانب سے ملک کی مختلف شخصیات کو دیئے گئے گولڈمیڈل حقیقی میرٹ کے عکاس ہیں۔ ایوب خان کے وزیر قانون‘ مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر اور لاہور ہائیکورٹ بار سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن تک کی صدارت کرنیوالے وکلاء کے مسلمہ لیڈر ایس ایم ظفر اگرچہ اپنی پیرانہ سالی کے باعث گوشہ نشین ہو چکے ہیں مگر ڈاکٹر وقارملک نے انکے ساتھ ’’مکالمہ‘‘ کا اہتمام کرکے انکی متحرک زندگی میں مزید تحرک پیدا کر دیا ہے۔ خدا انہیں زندہ سلامت رکھے۔