کاش کہ۔۔۔
اوّل دن سے میں اِس بات کی حامی ہوں اور مضامین بھی گواہ ہیں کہ ’’نیب‘‘ اپنی کارکردگی ثابت کرنے میں بُری طرح ناکام رہا ۔ میں 100 فیصد حکومتی موقف سے متفق ہوں کہ ’’نیب‘‘ کو ختم کر دیا جائے ۔ جب بھی پاکستان کسی ’’آمر‘‘ کی گرفت میں آیا تو ہر ایک نے تجربہ کے طور پر کوئی نہ کوئی ادارہ کھڑا ضرور کیا۔ چونکہ ہر مرتبہ کی حکومت ’’کرپشن‘‘ کی بنا پر فارغ کی گئی اس لئے نئے ادارے بنانے کا مقصد پہلے سے موجود انسداد کرپشن کی تنظیموں پر عدم اعتماد کا علانیہ اظہار ہوتا تھا ۔ ’’نیت‘‘ بابت کچھ کہنا دشوار ہے مگر عملی صورت ’’مقصد‘‘ کی نفی کرتی رہی ۔ ’’نیب‘‘ کی اولین فعالیت نظر ضرور آئی مگر ازاں بعد ہر حکومت نے اِس کو صرف سیاسی مخالفین کے خلاف بطور ’’آلہ‘‘ استعمال کیا جو کہ ہماری قومی تاریخ کا بدقسمت ترین دستور ہے۔ زیادہ تر مالی اخراجات ادارہ جاتی ڈھانچوں،آرائش و آرام کی مد میں صرف ہونے کی روایت بھی ضرورت سے زیادہ ہی تجاوز کر گئی۔دیکھا جائے تو اختیارات کے ناجائز استعمال ، کرپشن کی روک تھام ، جرائم کے سدباب واسطے نہ صرف وفاقی سطح پر بلکہ ہر صوبے میں درجنوں ادارے رُوبہ عمل ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک ہی مقصد کے تحت کام کرنے والے تمام اداروں کو ضم کر دے۔ فالتو سٹاف کو فارغ کرنے کی بجائے اُنکی ریٹائر منٹ کے بعد خالی ہونے والی جگہوں پر مزید بھرتی پر مستقل پابندی عائد کر دے ڈیپوٹیشن پر آئے لوگوں کو واپس اُن کے محکموں میں بھجوا دیں۔
یہ بھی بہت ضروری ہوچکا ہے کہ توسیع،ترقی،تبدیلی والے تمام معاملات پر ’’میثاق جمہوریت ‘‘ میں مندرج طے شدہ امور پر مکمل عمل درآمد کو ہر صورت ممکن بنایا جائے۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ ’’مزید‘‘ کی خواہش آزادی سے کام کرنے کی اہلیت نہ صرف ختم کرتی ہے بلکہ آسائشات کی طمع کی لامحدودیت کا سبب بنتی ہے مزید براں کام ، محنت میں مگن اہل ترین لوگوں میں دل شکنی الگ سے پیدا کرتی ہے محنت پر یقین رکھنے والے جب مایوس ہوتے ہیں تو بقیہ مدت روایتی انداز میں گزار کر رخصت ہو جاتے ہیں زیادہ تر تو اُسی چاپلوسی ، دو نمبری والے کاموں میں پڑتے دیکھے جو کہ عام چلن رہا ہے۔
یہ تو تھی بات انسداد کرپشن کے اداروں کی ۔ بارہا تجویز کیا کہ ایک ہی مقصد کے تحت قائم اداروں کو ختم کر دیں مثلاً وزارتِ بجلی۔ پانی ۔ صنعت وغیرہ وغیرہ ۔ ایسے محکمے صرف ’’صوبوں ‘‘ میں کام کریں ۔ وفاق میں ختم کر دیں۔ مزید ظلم یہ ہوا کہ محکموں کے اندر ہی مزید ڈویژنز اور ذیلی تنظیمیں بھی بنا دی گئیں ستم بالائے ستم ’’اوگرا ۔ نیپرا۔ لیسکو‘‘ وغیرہ وغیرہ شاہانہ اخراجات والے سُپر اتھارٹیز بنا ڈالیں ۔ بد قسمتی ’’سابقہ‘‘ سب سے زیادہ مخالف تھے پر ’’وہ‘‘ بھی ایسے اداروں کو ختم نہ کرسکے کیونکہ ’’نیت‘‘ نہیں تھی ورنہ کچھ بھی مشکل نہیں ۔ مشکل میں صرف ’’درمیانہ طبقہ ‘‘ ہے جو نہ کِسی سے مانگنے کی عادتِ بد میں مبتلا ہے اور نہ ہی دوسروں کے سامنے دستِ سوال رکھنے کی ہمت رکھتا ہے افسوس کہ مشکل ہوتے حالات مڈل کلاس کے لیے مزید تکالیف کا باعث بن رہے ہیں ۔ تنخواہ دار کلاس تو بالکل ہی چکی کے پاٹ میں پھنس چکی ہے۔
’’معاہدہ‘‘ تو کنفرم تھا ۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ حکومتی اعلان کے باوجود ’’ڈالر‘‘ نیچے نہیں آیا بلکہ چند گھنٹوں میں روپوں کے حساب سے بڑھتا گیا۔ کل کیا یہاں تو اتنی بے یقینی ہے کہ اگلے لمحے کے متعلق بھی لوگ بھروسہ کرنے کو تیار نہیں۔ اگلے دن کے ابتدائی حصہ میں چند پیسے کم ہوئے ۔ اکثریتی رائے تھی اور ہے کہ ’’ڈیل‘‘ طے تھی بس پٹرول ۔ بجلی ۔ گیس اور ڈالر کو خواہش کردہ سطح پر پہنچانا تھا اسلئیے ابہام رکھا گیا جبکہ دوسری طرف قیمتوں میں مزید اضافہ کی بات حتمی ہے۔
ہفتہ قبل کپڑے کے ایک مشہور برانڈ سٹور پر کھڑے منیجر سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ پر رائے لی کہ خریداری میں کتنا فرق پڑا ہے ۔ جواب دیا کہ 30 فیصد فروخت کم ہوچکی ہے۔ ساتھ کھڑے سیلز بوائے نے بتایا کہ گھر سے سٹور پر پٹرول ’’2000‘‘ میں پڑتا تھا اب ’’4000‘‘ میں پہنچتا ہوں موٹر سائیکل پر ۔ اب لوگ بھی سابقہ موجودہ کا تقابل کرتے سُنائی دیتے ہیں۔ چائے کے کم استعمال والا مشورہ واقعی ماننا چاہیے مگر ہماری قوم کی جو حالت ہے اُسے سامنے رکھتے ہوئے مشورے نہیں فیصلوں کے نفاذ کی اشد ضرورت ہے مثلاً لمحہ موجود کی چائے کی کھپت کو فوری طور پر کچھ عرصہ کیلئے نصف کر دیں اور بذریعہ ریاستی رٹ ممکن بنائیں کہ مطلوبہ ہدف ہی ملک میں دستیاب ہو۔ دوسرا مشورہ بجلی کم استعمال کرنے کا ۔ اِس معاملہ میںبھی ہم بطور قوم لاپرواہی کا شکار ہیں ۔ مشورہ بالکل صحیح پر اطلاق بالائی سطح سے ہونا چاہیے بڑے ایوانوں ۔ عمارتوں میں استعمال ’’70فیصد‘‘ گھٹا دیں ۔ عملی طور پر خبروں میں نہیں ۔ جن افراد ۔اداروں کے ملازمین کو مفت بجلی فراہم کی جاتی ہے وہ ختم کر دیں یہاں بڑا امتحان درپیش ہوگا کیونکہ ’’مفت والے‘‘ اِس ’’سواد‘‘ کو کبھی بھی ختم نہیں ہونے دیں گے ۔
قارئین جب سے پاکستان بنا ہمارے ساہو کار ’’آقاؤں ‘‘ نے ہزار طرز کی شرائط عائد کیں جو ہم نے ہمیشہ پُوری کر دِکھائیں ۔ ہمارا قرض کبھی نہیں رُکا کیونکہ کون پاگل غلاموں کی بادشاہت کا تاج سر سے اُتارنا پسند کریگا۔ یہ سب بیوقوف بنانے والی باتیں تھیں ۔ ڈرانے والی کہانیاں تھیں ۔ بقول حکومت ایک دن میں ’’اوورسیز پاکستانیوں ‘‘ نے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں ’’57ملین‘‘ بھجوائے ۔ قوم بیحد خود دار ہے۔ عزت پسند ہے بس رہنمائی باعزت ہو تو ایک دن کیا آدھا گھنٹہ میں کروڑوں بھجوانے کی سکت رکھتی ہے۔ کاش شرائط پُوری کروانے والے غیر ضروری محکموں کے خاتمہ کی شرط بھی رکھ دیتے ۔ کاش غیر پیداواری اخراجات ’’80فیصد‘‘ گھٹانے کی شرط بھی رکھ دیتے۔ کاش شرائط عائد کرنیوالے بے محابا پروٹوکول ختم کرنے کی شرط بھی رکھ دیتے ۔ قرض ہمیشہ ’’قوم‘‘ کے نام پر دینے والے کاش قوم کے مفاد کی بھی کبھی کوئی شرط رکھ دیتے۔