معاشی بدحالی کا قرآنی حل
اسلامی جمہوریہ پاکستان بلاشبہ مسلمانان برصغیر کیلئے کسی نعمت عظمیٰ سے کم نہیں پھر اس پر اللہ تعالیٰ کا مزید احسان یہ بھی ہے کہ اس مملکت خداداد کو ہر قسم کے وسائل سے مالا مال کیا گیا ہے۔ ذرا غور کیجئے اس پاک سرزمین کو خالق کائنات نے معدنی، و مادی، زرعی و صنعتی، آبی اور بے پناہ ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کے حامل افرادی وسائل ، کیا کچھ عطا نہیں فرمائے مگر اسکے باوجود بدنصیبی کا عالم یہ ہے کہ ہمارے حکمران کشکول گدائی لیے ملکوں ملکوں بھیک مانگتے پھر رہے ہیں مگر اپنے ہوں یا پرائے کوئی بھی اس کشکول میں چند سکے ڈالنے پر آمادہ نہیں، عالمی ساہو کار ادارے سود در سود کے علاوہ ایسی کڑی شرائط قرض دینے کیلئے عائد کر رہے ہیں کہ پوری قوم کی چیخیں نکل گئی ہیں، ان اداروں کی شرائط کی تکمیل کے سبب ملک کا ایک ایک شہری مہنگائی، گرانی اور بے روز گاری و بے کاری کے ہاتھوں ہلکان ہوا جا رہا ہے حالات کی اس سنگینی سے صرف غریب، مزدور اور تنگ دست طبقہ ہی کی زندگی اجیرن نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آج اربوں اور کھربوں روپے کی جائیدادیں اور جاگیریں، کارخانے اور کاروبار رکھنے والے بھی بے چین و پریشان ہیں۔ شاعر مشرق، مصور پاکستان، پیغمبر انقلاب علامہ اقبال مرحوم نے اسی کیفیت کی تصویر کشی کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ؎
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں
زوال بندۂ مومن کے جس سبب کی جانب علامہ اقبال نے اشارہ کیا ہے، رب کائنات کی لاریب اور آخری کتاب ہدایت قرآن حکیم میں اس سے متعلق واضح رہنمائی کی گئی ہے، سورۂ طہ میں ارشاد ربانی ہے: ’’جو میرے ذکر (درس نصیحت) سے منہ موڑے گا تو یقینا میں اسکی معیشت کو تنگ کر دوں گا۔‘‘ یہ تو دنیا کی عارضی زندگی کا معاملہ ہے آخرت کی ابدی زندگی میں اس طرز عمل کا جو نتیجہ برآمد ہو گا اس سے متعلق ان الفاظ میں سخت تنبیہ کی گئی ہے: ’’اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے، وہ کہے گا’پروردگار‘ دنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا یہاں مجھے اندھا کیوں اٹھایا؟‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ ’’ہاں، اسی طرح تو ہماری آیات کو جب کہ وہ تیرے پاس آئی تھیں، تو نے بھلا دیا تھا، اسی طرح آج تو بھلایا جا رہا ہے۔ اس طرح ہم حد سے گزرنے والے اور اپنے رب کی آیات نہ ماننے والے کو (دنیا میں) بدلہ دیتے ہیں اور آخرت کا عذاب زیادہ سخت اور زیادہ دیرپا ہے۔‘‘
علماء کرام نے اس آیت میں درج ’ذکر ‘ اور ’نصیحت‘ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے مراد قرآن حکیم، احادیث مبارکہ، دین، شریعت اور حدود الٰہی ہیں۔ مفکر اسلام، مفسر قرآن سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ میں اس آیت کی شرح میں لکھا ہے کہ دنیا میں تنگ زندگی ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے تنگ دستی لاحق ہو گی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں اسے چین نصیب نہ ہو گا، کروڑ پتی بھی ہو گا تو بے چین رہے گا۔ ہفت اقلیم کا فرمانروا بھی ہو گا تو بے کلی اور بے اطمینانی سے نجات نہ پائے گا، اس کی دنیوی کامیابیاں ہزاروں قسم کی ناجائز تدبیروں کا نتیجہ ہوں گی۔ جن کی وجہ سے اپنے ضمیر سے لے کر گرد و پیش کے پورے اجتماعی ماحول تک ہر چیز کے ساتھ اس کی پیہم کشمکش جاری رہے گی جو اسے کبھی امن و اطمینان اور سچی مسرت سے بہرہ مند نہ ہونے دے گی۔‘‘
آیئے، اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کا جائزہ لیں کیا ہر جگہ کیفیت وہی نہیں جس کی نشاندہی قرآن حکیم میں کی گئی ہے اور اسکی جو وضاحت سید مودودیؒ نے ’تفہیم القرآن‘ میں کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ رہڑی بان سے حکمران تک ہم سب خدا فراموشی کی روش پر گامزن ہیں غور کیجئے وہ کون سی برائی ہے جو ہمارے معاشرے کے تمام طبقات میں سرایت نہیں کر چکی اور تو اور ہم اللہ اور اسکے رسولؐ سے کھلے بندوں جنگ میں مصروف ہیں۔ جماعت اسلامی اور بعض دیگر دینی حلقوں کی 32 برس پر محیط طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد وفاقی شرعی عدالت نے واضح اور دو ٹوک فیصلہ سنایا ہے کہ قرآن و سنت کی رو سے ہر طرح کا سودی لین دین حرام ہے اس لیے پاکستان کے آئین کی واضح دفعات کی روشنی میں بنکوں اور دیگر اداروں اور انفرادی سطح پر سودی کاروبار مکمل طور پر بند کر دیا جائے عدالت نے اپنے حکم میں واضح اہداف کا تعین بھی کر دیا ہے مگر افسوس ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور ان کی ترجیحات میں وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے پر عملدرآمد کی کوئی کاوش بلکہ خواہش تک کسی سطح پر دکھائی نہیں دیتی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ جنگ رہے اور امن بھی ہو۔ ہم اور ہمارے حکمران اللہ تعالیٰ کے واضح احکام کی خلاف ورزی بھی کرتے رہیں۔ اللہ اور اسکے رسول کریمؐ کے خلاف جنگ بھی جاری رکھیں اور امن و سکون، مالی آسودگی اور خوش حالی کی امید بھی رکھیں۔ خالق کو ناراض کر کے، اس کی نصیحت سے منہ موڑ کر ہمیں ’’معیشت کی تنگی‘‘ ہی کا سامنا کرنا ہو گا تاہم ’’توبہ‘‘ کا دروازہ ابھی کھلا ہے اگر ہم مسائل اور مصائب سے نجات، امن و سکون، خوش حالی اور خوش بختی کے متمنی ہیں تو ہمیں اپنے رب کی ’’نصیحت‘‘ پر عمل کرنا ہو گا ورنہ…!