کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات اور قومی تقاضے
وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی سے متعلق اہم اجلاس میں شرکاء کو آگاہ کیا گیا ہے کہ افغان حکومت کی سہولت کاری سے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ بات چیت کا عمل جاری ہے جس میں حکومتی قیادت میں سول اور فوجی نمائندوں پر مشتمل کمیٹی آئین پاکستان کے دائرے میں بات چیت کر رہی ہے جس پر حتمی فیصلہ آئینِ پاکستان کی روشنی میں پارلیمنٹ کی منظوری، مستقبل کے لیے فراہم کردہ رہنمائی اور اتفاق رائے سے کیا جائے گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت بدھ کو وزیر اعظم ہائوس میں قومی سلامتی سے متعلق ہونے والے اس اجلاس میں قومی، پارلیمانی و سیاسی قیادت ، ارکان قومی اسمبلی و سینٹ اور عسکری قیادت نے شرکت کی۔ اجلاس میں قرار دیا گیا کہ پاکستانی قوم اور افواج پاکستان کی بے مثال قربانیوں کی بدولت ملک بھر میں ریاستی عمل داری ، امن کی بحالی اور معمول کی زندگی کی واپسی کو یقینی بنایا گیا ہے۔
کسی بھی جمہوری ملک میں قومی معاملات اور اہم نوعیت کے حامل امور کا فیصلہ جمہور کے منتخب نمائندے ہی کرنے کے مجاز ہوتے ہیں اور یہ فیصلے بحث و مباحثہ، غور و خوض اور باہمی مشاورت کے ساتھ کیے جاتے ہیں، جن کو مجموعی طور پر پوری قوم تسلیم کرتی اور تمام سیاسی جماعتیں اور ادارے اس پر صاد کرتے ہیں۔ پاکستان کی پون صدی پر محیط تاریخ میں کبھی سول اور کبھی عسکری قیادت برسرِاقتدار رہی۔ چنانچہ مختلف قومی ایشوز پر ہونے والے فیصلے بھی انہی ادوار میں کبھی پارلیمنٹ کے ذریعے اور کبھی فردِ واحد کے ذریعے بروئے کار آتے رہے۔ جس کی وجہ سے بعض فیصلوں پر قوم کی رائے بھی تقسیم نظر آتی ہے اور بعض پر آج بھی نقد و تبصرہ کیا جاتا ہے۔ اس وقت ملک پر درجن بھر سیاسی جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل ایک سول حکومت کے ہاتھ میں عنانِ اقتدار ہے جو ایوان کی اکثریتی رائے کے ساتھ وجود میں آئی ہے یہ حکومت 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والی تحریکِ انصاف اور اس کی چند اتحادی جماعتوں کی حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کی بنیاد پر قائم ہوئی ہے ۔جسے ایوان کی اکثریت کا اعتماد کھو جانے کی بنا پر اقتدار سے باہر کیا گیا تھا۔ یوں موجودہ حکومت کے پاس صرف سوا سال کا عرصہ ہے۔ اس سوا سال کی مختصر مدتِ اقتدار میں نئی حکومت کو بہت سے مسائل اور داخلی اور خارجی سطح پر چیلنجز کا سامنا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ معاشی بحران کا ہے جس کو حل کرنے کے لیے حکومت تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔ اس کے ساتھ سیاسی عدم استحکام، امن و امان، مہنگائی، بیروزگاری، افراطِ زر ایسے مسائل بھی جڑے ہوئے ہیں۔ ان سارے مسائل کے حل کی کلید سیاسی استحکام ہے۔ جس کا تعلق داخلی اور خارجی ہر دو طرح کے مسائل سے ہے۔ خارجی حوالے سے ہمیں ایک طرف امریکہ، بھارت کی مخاصمانہ پالیسی کی وجہ سے مشکلات درپیش ہیں تو دوسری طرف ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ بھی بعض امور پر تحفظات ہیں، کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان اور اس جیسی درجن بھر مسلح تنظیمیں پاکستان کی سلامتی کے درپے ہیں اور بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے تعاون سے ملک کے مختلف حصوں میں تخریبی کارروائیاں کرتی رہتی ہیں ، جس کی وجہ سے دہشت گردی پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ افغانستان میں ان دہشت گرد تنظیموں کو پناہ حاصل رہی ہے۔ گزشتہ برس طالبان کی حکومت کے قیام کے بعدعمران خان کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں افغانستان کی امارتِ اسلامیہ کی وساطت سے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے عمل کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں جزوی طور پر دہشت گردی کی کارروائیوں کا سلسلہ رک گیا لیکن کالعدم تنظیم کی طرف سے بعض شرائط تسلیم نہ کیے جانے کی بنا پر بعدازاں یہ سلسلہ پھر شروع ہو گیا۔ اب پھر افغانستان کی حکومت کی معاونت سے کالعدم تنظیم کے ساتھ مذاکرات شروع کئے گئے ہیں جن پر پاکستان پیپلز پارٹی (جو حکومت کی بڑی اتحادی جماعت ہے) اور عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا گیا اور اس معاملے کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا، چنانچہ بدھ کے روز ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں یہ طے کیا گیا ہے کہ کالعدم تنظیم کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے سلسلے میں ایوان کو نہ صرف اعتماد میں لیا جائے گا بلکہ حتمی فیصلہ آئین پاکستان کی روشنی میں پارلیمنٹ کی منظوری، مستقبل کے لیے فراہم کردہ رہنمائی اور اتفاق رائے سے کیا جائے گا۔ اجلاس کے بعد وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ قومی سلامتی اجلاس کے حوالے سے ارکانِ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اجلاس میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین سابق صدر آصف علی زرداری سمیت دیگر جماعتوں کی قیادت بھی موجود تھی۔ عسکری قیادت نے جنہیں بریف کیا۔ کسی چیز کی ڈیمانڈ نہیں کی گئی اور مذاکرات سے متعلق بھی کوئی اعتراض بھی نہیں آیا، انہوں نے مزید کہا کہ یہ سارا کچھ قانون کے مطابق ہی ہو گا اور قانون کے باہر کوئی معاملات نہیں ہوں گے۔ ارکانِ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کے لیے پارلیمان کا ان کیمرہ اجلاس طلب کیا جائے گا۔ پارلیمنٹ جو رہنمائی دے گی اسی تناظر میں معاملات آگے بڑھیں گے۔ ملک کی عسکری قیادت ہی کی معاونت سے گزشتہ حکومت کے دور میں ہونے والے کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے موقع پر بھی یہی موقف اپنایا گیا تھا کہ کالعدم تنظیم کو پاکستان کے قانون کے زیر اثر آنا ہو گا اور اس سے پہلے سرنڈر کرنا ہو گا۔ درحقیقت یہی وہ قومی موقف ہے جس کو پوری قوم کی حمایت حاصل ہے۔
پاکستان اس وقت دہشت گردی کی کارروائیوں اور کالعدم تنظیموں کی مبینہ مالی معاونت کے الزامات کی بنا پر ہی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی طرف سے ابھی تک گرے لسٹ میں شامل رہا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس معاملے میں احتیاط سے کام لیتے ہوئے اورزمینی حقائق کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھا جائے۔ وزیر اعظم نے سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ کالعدم تنظیم کے ساتھ مذاکرات آئین وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کیے جارہے ہیں اس ضمن میں جو بھی فیصلہ ہوگا اس کی پارلیمنٹ کی منظوری بھی حاصل کی جائے گی ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ملک میں امن وامان کے قیام اور قوم کے وسیع تر مفاد میں اگر مذاکرات سے معاملات طے پاسکتے ہیں تو انہیں خوش آمدید کہنا چاہئے ۔تاہم اس میں بنیادی شرط یہ ہے کہ کالعدم تنظیم کو قومی دھارے میں لانے سے پہلے یہ یقین دہانی حاصل کی جائے کہ وہ پاکستان کے آئین و قانون کی مکمل پاسداری کریں گے اور خود کو ریاست کے آگے سرنڈر کرکے پر امن شہری ہونے کا ثبوت پیش کریں گے ۔ اس حوالے سے حکومت کی اتھارٹی اور رٹ میں کسی بھی قسم کی کمزوری کا پہلو نظر نہیں آنا چاہیئے اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کا تاثر قائم رہنا چاہئے ۔