معاشی استحکام کے لیے صرف قرضوں پر انحصار نہ کریں
ملک ان دنوں جن معاشی مسائل کا شکار ہے حکومت ان کا حل تلاش کرنے کے لیے ایک طرف تو دوست ممالک سے رابطے کررہی ہے اور دوسری جانب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو کسی بھی طرح راضی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ وہ 2019ء میں منظور کیے جانے والے 6 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کو آگے بڑھاتے ہوئے تقریباً ایک ارب ڈالر کی نئی قسط جاری کردے۔ دوست ممالک میں سے حکومت کا سب سے زیادہ انحصار چین اور سعودی عرب پر ہے۔ چین کی طرف سے وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے خوش خبری سنادی ہے کہ اگلے ایک دو روز میں 2.3 ارب ڈالر موصول ہونے کی توقع ہے۔ سماجی رابطے کے پلیٹ فارم پر مفتاح اسماعیل نے لکھا کہ چینی بینکوںکے کنسورشیم کے ساتھ 2.3 ارب ڈالر کی فنانسنگ کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اس سہولت پر چینی حکومت کے شکرگزار ہیں۔ چین نے کئی بار مشکل حالات میں پاکستان کا ساتھ دے کر ثابت کیا ہے کہ وہ ہمارا سچا اور مخلص دوست ہے لیکن قرض آخر قرض ہی ہوتا ہے، خواہ وہ کسی دوست سے ہی کیوں نہ لیا گیا ہو۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنے معاشی ماہرین سے کہے کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں معاشی عدم استحکام سے نکلنے کے لیے قرض لینے کے علاوہ بھی کوئی راستہ سجھائیں کیونکہ قرض لینے سے معیشت کو وقتی طور پر تو سہارا مل سکتا ہے لیکن اس کی مدد سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔