کشمیر میں اسرائیلی طرز پر نسل کشی کی بھارتی پالیسی

اس وقت بھارت کی حکومت اسرائیلی مشوروں پر اور اس کے طریقے کار پر عمل پیرا ہے۔ اسرائیل جو کچھ مقبوضہ فلسطین میں کر رہا ہے بھارت نے بھی اب وہی پالیسی کشمیر میں اپنانا شروع کر دی ہے۔ اسرائیل کی طرح اب بھارت کشمیر میں عام مظاہرین پر بھی غداری اور دہشت گردی کے مقدمہ بنا رہا ہے جنہیں بھارت کی دور دراز بدنام زمانہ جیلوں میں طویل عرصے کی سزا سنا کر بھیجا جاتا ہے۔ نہتے لوگوں پر براہ راست فائرنگ کر کے انہیں موت کے گھاٹ اتار رہا ہے۔ جنگجوئوں کے نام پر سیاسی و سماجی طور پر متحرک نوجوانوں کو فوج سے تصادم کی آڑ میں شہید کیا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ صرف اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ کشمیریوں کی جاری تحریک آزادی کی کمر توڑی جا سکے اور ان کی عددی اکثریت ختم کر کے مقبوضہ کشمیر جو ایک مسلم اکثریتی ریاست کو کسی نہ کسی طرح ہندو اکثریتی ریاست قرار دے اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکے۔ صرف یہی نہیں بھارتی فوج اب اسرائیل کے فوجیوں اور انتظامیہ کی طرح ہر علاقے میں مشتبہ سرگرمیوں میں استعمال ہونے کا الزام لگا کر کشمیریوں کے گھروں کو بارود چھڑک کر تباہ کر دیتی ہے انہیں گرا کر ملیامیٹ کر دیتی ہے۔ اب تک ہزاروں گھروں کو بمباری کرکے تباہ کیا جا چکا ہے یا بارود چھڑک کر جلا کر خاکستر کیا جا چکا ہے۔ یہ سب وہی ہتھکنڈے ہیں جو اسرائیل مقبوضہ فلسطین میں استعمال کر رہا ہے۔ یہ ایک خطرناک طرز عمل ہے اس پر سخت احتجاج کرنا ہو گا۔
کیونکہ یہ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔ ممنوعہ ہتھیار اور کیمیاوی ہتھیار کشمیریوں پر استعمال کرکے بھارت جن جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ اس مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کر کے بھارتی فاشزم کو بے نقاب کرنا ہو گا۔ ورنہ بھارتی استبداد کا خونخوار بھیڑیا باڑے میں بند بکریوں کی طرح کشمیریوں کا قتل عام کرتا رہے گا اور کوئی بھی اس کا ہاتھ روک نہیں پائے گا جو ممالک کشمیر کو بھارت کا اندرونی معاملات قرار دیتے ہیں خاص کر مسلم ممالک تو ان کو جھنجوڑنے کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ یہ تساہل پسندی اور بے اعتنائی لاکھوں کشمیریوں کو مار کر پوری ریاست کو ایک قبرستان میں تبدیل کر دے گی اس لیے اس ظلم اور کشمیریوں کی نسل کشی کے خلاف بھرپور آواز اٹھائے اور عالمی سطح پر تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس وقت کشمیر کی جو صورتحال ہے اس پر حکومت پاکستان کی طرف سے وہ ایکشن نہیں لیا جا رہا جس کی توقع تھی۔ اگر بھارتی فوج اسی طرح روزانہ کبھی چار اور کبھی چھ کشمیری مجاہدین کو شہید کرتی رہی تو ان بچے کھچے مجاہدوں بھی جلد نامعلوم گمنام قبروں میں دفن کر کے بھارتی فوج ان کا نام و نشان مٹا دے گی۔ یوں اس جاری تحریک کو آہستہ آہستہ ختم کرنے میں بھارت سرکار کامیاب ہو سکتی ہے۔ اس وقت بھارتی حکمران اور بھارتی فوج کے ترجمان تواتر سے روزانہ پریس کانفرنسوں میں کشمیر میں عسکریت پسندوں کو مارنے کی کارروائیوں پر بڑے فخر سے مسرت کا اظہار کر رہے ہیں اور دعوے کر رہے ہیں کہ ان تیز رفتار کارروائیوں کی وجہ سے بڑی تعداد میں جنگجو مارے جا رہے ہیں اور جو بچ گئے ہیں انہیں بھی جلد ختم کر دیا جائے گا۔
ان حالات میں پاکستان کا فرض یہ بنتا ہے کہ وہ کشمیر میں کشمیریوں کی جاری نسل کشی پر عالمی برادری کی توجہ دلائے اس مسئلے کو دنیا کے ہر فورم پر اٹھائے۔ اگر حکومت پاکستان کے لیے ایسا کرنے میں کوئی عار ہے تو پھر حکومت آزاد کشمیر کو آگے کرے۔ آخر وہ کس مرض کی دوا ہے۔ اسے کشمیریوں کی نمائندہ حکومت قرار دے کر دنیا بھر میں آزاد کشمیر اور پاکستان کے سلجھے پڑھے لکھے کشمیریوں کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی نسل کشی کا پردہ فاش کرنے کی ذمہ داری سونپے۔ مگر اس کام کو سیاست رشوت اور اقربا پروری سے بہت دور رکھا جائے۔ من پسند نہیں کشمیر کے حقیقی ترجمانوں کو جنہیں ملک و قوم کا در ہو پاکستانی سفارتخانوں کے توسعت سے ہی ان ممالک میں جا کر عالمی رائے عامہ بیدار کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے۔
یہ وفود ہر ملک میں کشمیریوں کو ساتھ ملا کر بھارتی سفارتخانوں اور قونصل خانوں کے باہر احتجاجی مظاہروں میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم بے نقاب کرے۔ کشمیر کی آئینی حیثیت اور اس پر بھارتی جبری قبضے کے خلاف دستاویزی ثبوت وہاں کے عوام انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی و سماجی جماعتوں اور تنظیموں کے سامنے لائے کرے۔ ورنہ کہیں مقبوضہ کشمیر کی ڈیموکرافی تبدیل کر کے وہاں ہندوئوں کو آباد کر کے غیر قانونی شہریت دے کر اگر بھارت نے کشمیری مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کر دیا تو مسئلہ کشمیر ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکتا ہے۔