خوابِ سحر
خواب دیکھے ہیں کئی خوابِ سحر سے پہلے
اک سفر اور بھی ہوتا ہے سفر سے پہلے
ہم تو احسان کے بدلے میں ہیں احساں کرتے
جان دے دیتے ہیں ہم جانِ دگر سے پہلے
گریئہ حزن سے آنکھیں تو لہو رنگ ہوئیں
دل بھی خوں رنگ ہوا دیدہ تر سے پہلے
ہم نے شکوہ بھی کیا ہے تو کیا ہے خود سے
سر نِگوں ہم نہ ہوئے کاسہ سر سے پہلے
خارزاروں سے ہوئی آبلہ پائی میں بہار
پھول کھِلنے لگے ہر شاخِ شجر سے پہلے
بخدا رحمتِ حق پہ تھا یقینِ کامل
اک دعا اور بھی مانگی ہے اثر سے پہلے
منزلیں یوں ہی نہیں جعفری ہم نے پائیں
ہم تو گزرے ہیں ہر اک راہِ خطر سے پہلے
(ڈاکٹر مقصود جعفری )