طاہر جمیل نورانی کا ولایت نامہ
اب یاد تو نہیں پڑتا کہ میری ان سے پہلی ملاقات کب ہوئی تھی،لیکن ان کا کہنا ہے کہ جب میں پہلی مرتبہ ہیتھرو ایئرپورٹ پر اترا تھا تو میں نے نیلے رنگ کا لباس زیب تن کر رکھا تھا،یہ راز تو بہت برسوں بعد مجھ پر کھلا کہ طاہر جمیل نورانی ہیتھرو پر کیا ڈیوٹی انجام دیتے ہیں اور انہوں نے خود ہی بتایا کہ وہ برطانوی امیگریشن کے ملازم ہیں اور پاکستان ۔ بھارت سے آنے والے اردو دان طبقے کی انٹیروگیشن میں مدد کرتے ہیں یعنی برطانوی حکام انگریزی میں جو سوال کرتاہے اس کا اردو میں ترجمہ کرتے ہیں اور وہ جو بتاتا ہے اس کا انگریزی میں ترجمہ کرکے بتاتے ہیں ،آسان لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ ترجمانی کے فرائض سرانجام دیتے ہیں،یہ تو رہی ان کی ملازمت ،روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر ۔میں برطانیہ بار بار آتا جاتا رہا ،شاید وہ ہمیشہ مجھے دیکھتے ہوں لیکن مجھے ان کی ترجمانی سے استفادہ کرنے کا موقع نہیں ملا کیونکہ انگریز امیگریشن افسروں کے سوالوں کے جواب میں خودی براہ راست انگریزی میں دے دیتا تھا ۔
ایک مرتبہ کوئی سکھ بھائی میری جانچ پڑتال کررہے تھے ،انہوں نے میرا سامان کھولا اور پرس سے ٹریولر زچیک نکال کر ایک ایک کو چیک کیا کہ کیا ان پر میرے دستخط موجود ہیں ،میں نے لبرٹی لیتے ہوئے سکھ بھائی سے پنجابی میں پوچھاکہ تین ہفتوں کی چھٹی پر آیاہوں یہ پیسے میری ضرورت سے زیادہ ہی ہیں کچھ کیونکہ مجھے اپنے دوستوں کے یہاں قیام کرنا ہے۔ ہوٹلوں کے خرچ سے بچ جائوں گا ۔مانچسٹر کے چوہدری بڑے مشہور ہیں وہ سب کے سب آرائیں قوم سے تعلق رکھتے تھے اور وہ مجھے بار بار پوچھتے رہے کہ کیا ایئر پورٹ پر تمہاری طاہر جمیل نورانی سے ملاقات نہیں ہوئی ،میں سمجھ گیا کہ نورانی صاحب ارائیوں کی انجمن میں کافی مشہور ہیں ۔ان کا زیادہ تذکرہ مانچسٹر کے حاجی رشید نے کیا،غلام محی الدین بھی ان کا بار بار ذکر کرتے اور چوہدری منظور تو ان کے گرویدہ نکلے،گلاسگو پہنچا تو طاہر جمیل نورانی کی شہرت وہاں بھی بام عروج پر دیکھی،بابائے امن ملک غلام ربانی تو ان کے قصیدے پڑھتے تھے اور پنجاب کے موجودہ گورنر چوہدری سرور بھی بات بہ بات نورانی صاحب کا ذکر چھیڑ دیتے۔
علی صوفی کا کہنا تھا کہ ان کے نورانی صاحب کے ساتھ برادرانہ تعلقات قائم ہیں ،ہڈرز فیلڈز کے چوہدری وحید بھی نورانی صاحب کے گن گا رہے تھے،اس دوران نورانی صاحب کے گھر کوئی وفات ہوگئی ،میں نے اس بہانے ان کے ہاں جانے کی ٹھانی ،مانچسٹر سے مجھے چوہدری منظور اپنی گاڑی پر لے کر سفر پر نکلے ،لندن پہنچتے پہنچتے شام کا اندھیرا پھیل چکا تھا ،نورانی صاحب کا گھر ڈھونڈنے میں ہمیں مشکل پیش آرہی تھی،چوہدری منظور صاحب کو یاد ہی نہ رہاکہ اس علاقے میں گاڑی کی زیادہ سے زیادہ رفتار کیا ہو سکتی ہے،جب ٹریفک کیمرہ کی لائٹ ان کی گاڑی کی نمبر پلیٹ پر پڑی تو انہوں نے سر پکڑ لیا اور کہنے لگے کہ یہ تو تیز رفتاری پر چلان ہوگیا اور یہ ان کا تیسرا چالان ہے اب ان کا ڈرائیونگ لائسنس ضبط ہوجائے گا ،مجھے یہ تو پتا تھا کہ برطانیہ کے قوانین پر سختی سے عمل کرنا پڑتا ہے مگر یہ نہ پتا تھا کہ کسی قانون کے توڑنے پر بندہ ڈرائیونگ لائسنس ضبط کرا بیٹھتا ہے ،بہر حال ہم نورانی صاحب کا مکان تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے وہ ابھی ڈیوٹی سے واپس نہیں آئے تھے گھر والوں نے ہمیں انتظار کرنے کے لیے ڈرائینگ روم میں بٹھا دیا ،نورانی صاحب ڈیوٹی سے فارغ ہوکر گھر پہنچے ،ہمارے ساتھ بڑی عزت سے پیش آئے ،فاتحہ اور دعا کے بعد رسمی باتیں چلیں کہ وہ نوائے وقت ہی کے ایک اور کالم نگار بشیر ریاض کو بھی بلا لائے جو پاس ہی کے مکان میں رہتے ہیں ،بشیر ریاض وہاں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے تھے وہ آئے تو انہوں نے اپنا دکھڑا سنایا۔میں جلد ہی ارائیوں کی تنگ نائے سے نکلا اور برطانیہ سے مختلف شہروں اور قصبوں میں پھیلے ہوئے چیدہ چیدہ پاکستانیوں سے ملاقاتوں میں مصروف ہوگیا ،پاکستانی بڑی ذہین قوم ہے ،اپنے ملک میں تو کوئی ان کی عزت نہیں کرتا لیکن بیرون ملک وہ اپنی لیاقت اور صلاحیت کی بنا پر وہاں کے سرکاری اداروں میں ملازمت بھی کرتے ہیں اور منتخب ہوکر بھی خدمات ادا کرتے ہیں ،آج تو پاکستانی لندن کا میئر ہے اور وہ دوسری مرتبہ اس عہدے پر منتخب ہوا ہے،محمد سرور تین مرتبہ برطانوی پارلیمنٹ میں منتخب ہوئے اور ان کا بیٹا انس سرور بھی ان کے نقش قدم پر برطانوی پارلیمنٹ پہنچا ،پھر تو ایک قطار لگ گئی اور برطانوی پارلیمنٹ میں پاکستانی نمائندوں کی بھرمار ہوگئی ،ان میں سے بعض کو وزیر بننے کا بھی شرف حاصل ہوا ،یہ سب دعا دیں گوجرانوالہ کے لمبے ترنگے بشیر مان کو جو سب سے پہلے گلاسگو میں کونسلر منتخب ہوئے ۔ان کے انتخاب پر سکاٹش اخباروں نے سیاہ حاشیوں میں ان کے منتخب ہونے کی خبر شائع کی تھی ،ظاہر ہے برطانیہ کا زہریلا سفید فام معاشر ہ اپنے نظام میں گھس بیٹھیوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا ،مگر پاکستانی بڑے سخت جان نکلے اور وہ بریڈ فورڈ بر منگھم اور دیگر شہروں میں کونسلر بھی منتخب ہوئے اور میئر بھی بنے ۔برطانیہ میں داماد پاکستانیوں کا بھی بڑا چرچا ہے ،ان نوجوانوں کو ان کے عزیز و اقارب برطانیہ میں بیاہ کر لے گئے تھے،پاکستان میں لڑکی کو بیاہ کر گھر لایا جاتاہے اور اسے ملازمہ کا درجہ دیاجاتا ہے برطانیہ میں جانے والے داماد بھی ملازم ہی کا کردار ادا کرتے تھے ۔پنجاب کے گورنر چوہدری سرور تو فخریہ طور پر بتاتے ہیں کہ انہیں گلاسگو میں سرور آنڈے والا کہا جاتا تھا،انڈوں کا کاروبار ان کے سسرال کا تھا ،سسرالیوں نے انکے سر پر انڈوں کی پوٹلی رکھی اورمختلف گھروں اوردکانوں پر فروخت کے لیے بھیج دیا،فارسی میں کہتے ہیں سگ باش بردار خورد مباش،برطانیہ کے داماد بھی کچھ اسی قسم کا اظہار خیا ل کرتے ہیں کہ سگ باش داماد مباش۔اوور سیز پاکستانی اپنے ملک کو کبھی نہیں بھولتے وہ اپنے شہروں اور قصبوں میں نئے مکان تعمیر کرتے ہیں،پلاٹ خریدتے ہیں،مسجدیں اور مدرسے بناتے ہیں،مستحق طالب علموں کو تعلیم کے لیے وظایف بھی دیتے ہیں اور پاکستان کی معاشی اور مالی بقا کے لیے قیمتی زرمبادلہ بھی فراہم کرتے ہیں،اس سال انہوں نے دو ارب ڈالر کا ریکارڈ زر مبادلہ پاکستان بھیجا ہے اور اگر یہ شرح برقرار رہی اور اس میں اضافہ ہوتا رہا تو پاکستان کو آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی،لیکن اس کے لیے شرط ہے کہ ہم اوور سیز پاکستانیوں کو وہ عزت دیں جس کے وہ مستحق ہیں ،پہلے وہ پاکستان کے ویزے کے لیے ترستے تھے،اب نادرا نے انہیں نائی کاپ مہیا کردیا ہے جس کے بعد انہیں پاکستان کا ویزا لینے کی ضرورت نہیں رہتی،وزیر اعظم عمران خان اوور سیز پاکستانیوں کے بڑے مداح ہیں،انہوں نے شوکت خانم کے لیے بیرون ملک پاکستانیوں سے زر کثیر حاصل کیا،وزیر اعظم عمران خان جانتے ہیں کہ بیرون ملک پاکستانی ہر شعبے میںممتاز خدمات انجام دے رہے ہیں،امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹروں کی انجمن تو اپنا ثانی نہیں رکھتی ،کیلی فورنیا کی سلیکون ویلی میں پاکستانی بڑھ چڑھ کر کردار ادا کررہے ہیں ،پاکستانی انجینئرز بھی ناسا جیسے اداروں میں اپنا نام پیدا کر چکے ہیں اس پس منظر میں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دے کر ان کا ایک جائز اور دیرینہ مطالبہ پورا کردیا ،یہ بل پاکستانی پارلیمنٹ سے منظور ہوچکا ہے ،اور نادرا نے اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹنگ کے عمل میں شرکت کے لیے ایپ بھی تیار کرلی ہے ۔اوور سیز پاکستانی اس سے زیادہ عزت اور وقار کے لائق ہیں ہمیں انہیں سر آنکھوں پر بٹھانا چاہئے ،طاہر جمیل نورانی کی کتاب ولایت نامہ میںاوور سیز پاکستانیوں کی تمام پریشانیوں کی نشان دہی کی گئی ہے ان کی روشنی میں ہمیں ان مسائل کا حل بلا تاخیر نکالنا چاہئے،یہی اس کتاب کو صحیح خراج عقیدت پیش کرنے کا طریقہ ہے ۔