جمہوری آداب کیلئے تعلیم نہیں‘ تربیت درکار ہے
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رونما ہونیوالے کس کس قومی حادثے کا ذکر کیا جائے۔ یہاں تو آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے۔ ہماری قومی دانست میں حادثات محض سڑکوں‘ شاہراہوں‘ فضائوں‘ روزانہ چلتے پھرتے اور گاڑیاں دوڑاتے ہی رونما ہوتے ہیں جبکہ اس بات کا ہمیں سرے سے ادراک ہی نہیں کہ مٹی کی اس مورت کی تمام تر زندگی حادثات سے بھری پڑی ہے۔ ہم یہ بھول چکے ہیں کہ منفی رویے‘ اخلاقی گراوٹ‘ منافقانہ طرزعمل‘ خودغرضی اور ذاتی مفادات ایسے عوامل ہیں جن سے حادثات جنم لیتے ہیں۔
اگلے روز ایسا ہی ایک حادثہ ہماری قومی اسمبلی کے اس فلور پر ہوا جہاں عوام کے منتخب نمائندے اپنے ملک و قوم کی ترقی و استحکام کیلئے قراردادیںپیش کرتے ہوئے آئینی ترامیم کے فیصلے کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر جمہوری حقوق کے حصول کی یہ قومی درسگاہ ہوتی ہے مگر افسوس! جمہوریت کے بعض ٹھیکیدار بیچلرز اور ماسٹرز اراکین اسمبلی‘ معاونین اور وزراء نے انتہائی شرمناک اور قابل مذمت رویہ اپناتے ہوئے ایک دوسرے کی ’’لاپا‘‘ کرکے رکھنے کے بعد دی گئی غلیظ مغلظات میں مائوں اور بہنوں کی عزت و احترام کو جس طرح تارتار کیا‘ اس پر جس قدر ماتم کیا جائے کم ہے۔ عوام کے مسائل حل کرنے اور انکے حقوق کے تحفظ کے دعویدار ذاتی مفادات کی اس شرمناک لڑائی میں یہ معیار بھی قائم نہ رکھ سکے کہ بجٹ کی جن آئینی دستاویز کو بطور ہتھیار وہ ایک دوسرے پر استعمال کررہے ہیں‘ ان دستاویز میں تحریر کی ابتداء اللہ تعالیٰ کے متبرک نام سے کی گئی ہے۔
غالب مرحوم نے تو یہ کہا تھا کہ: ع ’’کعبہ کس منہ سے جائو گے غالب‘‘۔ مگر ان معزز اراکین نے شرم تو دورکی بات شرمساری کے تمام تر مدارج مختصر ترین وقت میں طے کرلئے اور پھر اس معرکہ کے دوسرے روز ایک مسلم لیگی دھڑے کے رکن قومی اسمبلی نے شرم جو تھوڑی بہت بچ گئی تھی یہ کہہ کر گالی نکالنا ہماری پنجابی ثقافت میں شامل ہے‘ مکمل طور پر جنازہ نکال دیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ مذکورہ رکن اسمبلی پنجابی کلچر کو اتنی بڑی غلیظ گالی سے منسوب کرنے پر بغیر وقت ضائع کئے اہل پنجاب سمیت پوری قوم سے غیرمشروط معذرت کرلیتے یا کم از کم زبان پھسلنے کا ہی اقرار کرلیتے۔ مگر افسوس صد افسوس! کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا جس سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جگ ہنسائی تو ہوئی ہے ہی‘ غیروں نے بھی طعنے دیئے ہیں۔
سچ پوچھیں تو میں ہی نہیں یہاں پروان چڑھنے والی نئی پاکستانی نسل اور پاکستان سے محبت کرنیوالے برطانوی گوروں اور گوریوں کو بھی دلی دکھ پہنچا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی روحیل اصغر کی بیان کردہ اس Methodology کا باوجود کوشش میں خود ادراک نہیں کر پایا۔
دنیا کے کسی بھی مہذب ملک کے کلچر میں گالیاں بکنا‘ گالیاں سننا‘ گالیاں لینا اور یا پھر گالیاں دینا اس ملک کے عوام کی ذہنی سوچ‘ کردار اور قول و فعل کی عکاسی ہوتی ہیں۔ اس حقیقت سے بھی بلاشبہ انکار ممکن نہیں کہ دنیا کے کئی مہذب ممالک کے مخصوص طبقات میں گالی کو آج بھی بطور تفنن گفتگو استعمال تو کیا جاتا ہے مگر وہاں کے کلچر سے اس کا قطعی تعلق نہیں ہوتا۔ تاہم اس گالی میں الفاظ ماں‘ بہن یا بیٹی کیلئے نہیں بلکہ گرل فرینڈ‘ بوائے فرینڈ اور بعض حالتوں میں پارٹنر کیلئے استعمال ضرور کئے جاتے ہیں جن پر فوری معذرت بھی کرلی جاتی ہے۔
میری 39 سالہ گوری ہمسائی جو ایک ماحولیاتی محکمے کی انچارج ہونے کے باوجود اپنے ایک کتے کے ہمراہ خوش و خرم زندگی گزار رہی ہے‘ پاکستان کی قومی اسمبلی میں اگلے روز اراکین کے مابین ہونیوالے شرمناک ہنگامے اور ایک دوسرے پر بجٹ دستاویز سے کئے اندھا دھند حملے کے بارے میں مزید تفصیلات جاننے کیلئے مجھ سے لائبریری میں ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تو میں نے اسکی خواہش کا احترام کرتے ہوئے وقت طے کرلیا۔ Face Mask اور 2 میٹر فاصلے کے اصول کو اپناتے ہوئے ہم نے ملاقات کی اور یوں اس نے پاکستانی پارلیمنٹ میں رونما ہونیوالے اس افسوسناک واقعہ کے بارے میں مجھ سے پوچھنا شروع کردیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہماری سوسائٹی میں برطانوی سرکار یا نیم سرکاری اداروں‘ راہ چلتے‘ خریدوفروخت کرتے‘ کلبوں یا میخانوں میں دوستوں سے سوشل ملاقاتوں کے دوران غلطی سے بھی لفظ ’’F‘‘ اگر منہ سے نکل جائے یاپھر ایک دوسرے کو مسکراہٹ سے ملنے کے دوران اگر ایسی ویسی حرکت سرزد ہو جائے تو تمہارے ایسے کالم نگار اسے فوراً غیرمہذبانہ حرکت قرار دیتے ہوئے انسانی اوصاف کا اچھا خاصا لیکچر ہی نہیں دینے لگ جاتے بلکہ New Testament اور Old Testament کے حوالے پر اتر آتے ہیں مگر آپکی پارلیمنٹ کے اندر اگلے روز جو کچھ ہوگیا اور اراکین پارلیمنٹ نے جو دھینگا مشتی کی اور بعدازاں ایک رکن اسمبلی نے Abusive Language استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی ایک Administrative Division میں اس گالی کو ثقافت کا ایک حصہ قرار دے دیا‘ جمہوریت اور پارلیمنٹ کی یہ کیا توہین نہیں؟ 100 فیصد توہین ہے‘ میں نے اسے جواب دیتے ہوئے کہا۔ مگر! ایک بات آپ بھول رہی ہیں‘ میں اس سے دوبارہ مخاطب ہوا۔ بھول آپ یہ رہی ہیں کہ ہماری پاکستانی اور یہاں کی برطانوی سیاست میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
برطانوی جمہوریت کو بلاشبہ دنیا بھر میں آج بھی Mother of Democracy کہا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں یہ جمہوریت ہنوز درست ٹریک پر نہیں آسکی۔ عوام کے ووٹوں سے کامیاب ہو کر یہ نمائندے جب پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں تو ان میں سے بیشتر عوامی خواہشات کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کے تابع ہو جاتے ہیں۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ انکے حلقہ کے عوام ان سے قانون سازی کے کسی بھی Act یا انکے بنیادی مسائل پر کبھی بھی جواب طلبی نہیں کرینگے۔
وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہائوس کے احترام کیخلاف انکی ہر شرمناک کوشش کو انکے حلقہ کا ایک مخصوص طبقہ کی جانب سے حمایت حاصل ہوگی کہ ووٹر کو قانون سازی سے زیادہ سیاسی چسکے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہماری سیاست شہر اور دیہی حلقوں میں چونکہ منقسم ہے جہاں ابھی تک خواندگی اور ناخواندگی کے مسائل بھی موجود ہیں اس لئے اب آپ ہی بتائیں کہ ان حالات میں برطانوی جمہوریت سے سیکھے آداب و قواعد کو فوراً کس طرح پاکستانی اسمبلیوں میں متعارف کرایا جائے؟ Marvolous اس نے ماسک منہ سے نیچے کرتے ہوئے کہا! مگر میری یاد دہانی پر دوبارہ منہ ڈھانپ لیا۔ آپ کی بات درست ہے‘ وہ بولی۔ مگر جمہوری آداب تعلیم سے نہیں جمہوری تربیت سے حاصل کئے جاتے ہیں اور مجھے قوی یقین ہے کہ عمران خان ’’جمہوری تربیت‘‘ کے مضبوط اداروں کیلئے اپنی ٹیم کو فائنل Task دے چکا ہے اس نے اجازت لیتے ہوئے کہا۔