حسب وعدہ آج کے کالم میں اس اخلاقی تنزلی کا تفصیل سے جائزہ لینا مقصود تھا جس کا سفر راقم سمیت کچھ ناقدین کے نزدیک ستر کی دہائی میں اس وقت شروع ہوا جب اس معاشرہ میں عوامی راج کا نعرہ لگا کر اس ملک میں بسنے والوں کی اکثریت نے اپنے آپ کو ان معاشرتی حدود اور قیود سے مبرا قرار دے دیا جو ایک مہذب معاشرے کا حسن ہوتی ہیں لیکن یقین جانئے آج کل جب کورونا کی اس اذیت ناک وباء کے دوران انسانی جسم خشک پتوں کی طرح خاک کا رزق بن رہے ہیں تو اس غمناک ماحول میں ایک نظر اْن تعفن زدہ عمومی اور اجتماعی رویوں پر ڈالتا ہوں جو ہماری پہچان بن چکے ہیں تو پھر مجھے لگتا ہے کہ وہ دور پھر بھی بہت بہتر تھا۔ اب تو ہم اخلاقی تنزلی، گراوٹ اور بے راہ روی کی اس انتہا کو پہنچ چکے ہیں جہاں ماتم بھی ایک رسم سے زیادہ کچھ نہیں لہذا اس پر مزید کچھ کہنا اور لکھنا اپنے آپکو ہی اذیت دینے کے برابر ہے۔
اہل فلسفہ کے نزدیک جب معاشرے ان انتہاؤں کو چھونے لگتے ہیں اور قحط الرجال اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے تو پھر ایسے میں اللہ بھی اْس سماج سے اپنے ان پسندیدہ انسانوں کو جو ان امانتوں کے امین کے طور پر اپنی مخصوص پہچان رکھتے ہیں ، ایک ایک کر اپنے پاس بْلا لیتا ہے۔ اس سباق میں جس وقت کورونا نے ہر طرف تباہی مچا رکھی ہے پاکستان میں پچھلے ہفتے کی کچھ ستم گریاں اس قول کو اس وقت تازہ کرتی نظر آئیں جب اپنے اپنے فیلڈ میں محنت،ذہانت، دیانت اور ایمانداری کی پیکر دو عظیم شخصیات ایک نیلام گھر سے شہرت پانے والا طارق عزیز جسکا دوسرا نام اگر پاکستان کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا وہ اور دوسرا پاکستان کے محکمہ کسٹم میں پروفیشنلزم اور دیانتداری کی انمول مثال محمد زاہد کھوکھر اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
طارق عزیز جس کے متعلق جتنا بولا جائے یا لکھا جائے شائد وہ پھر بھی اسکی ذات کے ساتھ انصاف نہ کر سکے۔ بلاشک جہاں کچھ کے نزدیک اسکے اندر کئی کتابیں اور کئی زمانے سِمٹے ہوئے تھے۔ کچھ کے نزدیک وہ معلومات کا انسائیکلوپیڈیا تھا جبکہ کچھ کے نزدیک شعری مجموعوں کے دیوان در دیوان اسکے حافظے میں مقید تھے لیکن میرے نزدیک اسکو جو صفت سب سے افضل کرتی تھی وہ یہ حقیقت تھی کہ وہ ایک مْبَلّغ تھا۔ دوستو! یقین جانئے یہ صفت میرے نبیؐ کی تھی جس سے بڑا مْبَلغ آج تک اس روئے زمین پر ہوا ہی نہیں اور یہ حقیقت اپنی جگہ پر موجود ہے کہ جس نے بھی نبی کریم ؐ کی اس صفت کو مستعار لیا وہ اس دنیا میں فضیلت پا گیا۔ بیشک وہ ضیا محی الدین اور طلعت حُسین کی طرح اپنی پڑھت کے لحاظ سے اپنی ایک پہچان، اپنا ایک منفرد مقام رکھتا تھا لیکن روحانیت کے شہر کے باسی جانتے ہیں کہ جس بات نے اسے آسمان کی بلندیوں پر پہنچایا یہ اسکے وہ کلمات تھے جب وہ پروگرام کی شروعات میں یہ کہتا کہ شروع کرتا ہوں رَب جلیل کے اس بابرکت نام سے جو دلوں کے بھید جانتا ہے اور جسکی گفتگو کا اختتام پاکستان زندہ باد کے نعرے پر ہوتا۔ جس کا عقیدہ خدا کی عظمت سے شروع ہو کر وطن کی محبت پر ختم ہو اس سے بڑا مسلمان مومن اور انسان کون ہو گا۔ اس شخص کی زندگی پر بہت کچھ لکھا جائے گا کہ کس طرح اس نے داتا کی اس نگری میں اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور پڑھا لکھا ہونے کے باوجود وقت کا ستم اسے رات کو فٹ پاتھ پر سونے پر مجبور کرتا رہا۔ یہ اسکا عزم تھا جو اسکو گلیوں کے تنکے سے فن کی بلندیوں کی معراج پر لے گیا۔ بڑے سے بڑے فنکار کی زندگی بھی کچھ دہائیوں پر محیط ہوتی ہے لیکن وہ ایسا خوش نصیب تھا جسکی پہچان دہائیوں پر نہیں نسلوں پر محیط ہے۔ قارئین باقی باتیں اپنی جگہ یقین جانئے میرے نزدیک اس مرد مجاہد کو جو بات قلندروں کی صف میں کھڑا کر گئی وہ عجز و انکساری میں لپٹے اسکے وہ کلمات ہیں جو اس نے ایک انٹرویو میں اس عمران خان بارے کہے ہیں جسکو اس نے الیکشن میں چونسٹھ ہزار ووٹوں سے شکست دی۔ اب یہ عمران کے ظرف پر ہے کہ وہ اسکا جواب کس طرح دیتا ہے۔
دوسرا شخص جسکی اس دنیا سے رخصتی پر یہ راقم عقیدت کے پھول نچھاور کرنا چاہے گا وہ بھی طارق عزیز کی طرح ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والا ایک سیلف میڈ آدمی تھا جو اندرون لاہور شہر کی گلیوں میں پیدا ہوا۔ جب طارق عزیز اس لاہور شہر کے اندرون بھاٹی گیٹ میں رہ کر عملی زندگی میں جدوجہد کر رہا تھا انھی دنوں یہ چراغ اپنے محلے کی مسجد میں اپنی کتابیں لیکر پڑھائی کیا کرتا تھا۔ کہتے ہیں خْدا کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا۔ اپنی محنت کے بل بوتے پر نہ صرف سی ایس ایس کرنے میں کامیاب ہوا بلکہ جس دن وہ اس کورونا کا شکار ہوا اسی دن اس نے اپنے کیرئیر کی آخری منزل جو ہر بیوروکریٹ کی خواہش ہوتی ہے گریڈ 22 حاصل کیا۔ گو کہ جس دن زاہد کھوکھر نے محکمہ کسٹم جوائن کیا وہ بھی پاکستان کے بیشتر بیوروکریٹس اور ملازمین کی طرح دنیاوی دنیا کا ایک باسی تھا لیکن جب رَب کایا پلٹتا ہے تو پھر وہ ایسے اسباب بنا دیتا ہے کہ انسان لمحوں میں ولایت کی منزلوں کے قریب پہنچ جاتا ہے یہی کچھ اس درویش صفت زاہد کھوکھر کے ساتھ ہوا کہ دیکھتے دیکھتے کلین شیو ایک باریش فرشتے کا روپ دھار گیا۔ اسے پاکستان اور محکمہ کسٹم کی بدنصیبی کہیے کہ ملک ایک ایسے پروفیشنل دیانتدار اور ایماندار شخص سے محروم ہو گیا کہ اگر اسے چیئرمین ایف بی آر کا چانس مل جاتا تو شائد وہ اس ملک کی تقدیر بدل دیتا۔ طارق عزیز کی طرح اس شخص پر بھی کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ آخر میں صرف اتنا کہنا چاہونگا کہ حکومت ان دونوں اشخاص کی خدمات کے صلے میں انھیں بعد از مرگ ملک کے اعلی سول اعزازت سے نوازے جس کے وہ یقینا حقدار ہیں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024