یہ 1970ء کی بات ہے جب روزنامہ مساوات جاری ہوا۔ محمد حنیف رامے نے اس کا اجرا کیا۔ یہ اخبار ازاں بعد پیپلز پارٹی کی ملکیت میں چلا گیا۔ ’’مساوات‘‘ کا آفس داتا دربار مارکیٹ میں قائم کیا گیا اور اسی جگہ ذوالفقار علی بھٹو نے اخبار کا افتتاح کیا۔ داتا دربار چوک میں پائیلٹ ہوٹل ہے۔ افتتاح کے بعد بھٹو صاحب کو اسی ہوٹل میں لایا گیا جہاں چائے کا اہتمام تھا۔ طارق عزیز بھی بھٹو کے ساتھ ہوٹل میں داخل ہوئے۔ ہوٹل کے باہر لوگ جمع ہو گئے۔ انھوں نے طارق عزیز کو بھی ہوٹل میں جاتے دیکھ لیا تھا۔ ہال پہلی منزل پر ہے۔ جب لوگوں نے نعرے لگائے تو بھٹو صاحب کو کھڑکی کے قریب لایا گیا۔ انھوں نے اپنا چہرہ کھڑکی سے باہر نکال کر نیچے کھڑے ہجوم سے خطاب کیا اور اس ہجوم میں خاکسار بھی کھڑا تھا۔ ابھی بھٹو چند منٹ خطاب کر پائے تھے کہ ہجوم نے ’’طارق عزیز، طارق عزیز‘‘ پکارنا شروع کر دیا۔ چند منٹ تو بھٹو صاحب نے نظر انداز کیا جب طارق عزیز کا نام زیادہ زور اور جوش سے پکارا جانے لگا تو بھٹو صاحب نے کہا۔ ’’آپ طارق عزیز کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ میں انھیں بلاتا ہوں‘‘ اور پھر بھٹو صاحب مائیک طارق عزیز کو دے کر خود ہال میں چلے گئے۔ یہ تھی، طارق عزیز کی مقبولیت اور ان سے میرا پہلا دیدار۔ مطلب ملاقات نہیں، صرف دیدار حاصل ہوا۔ طارق عزیز کچھ عرصے بعد لاہور سے کراچی شفٹ ہو گئے اور کراچی ہی میں میری ان سے پہلی باقاعدہ ملاقات ہوئی۔ 1981ء کو میں کراچی گیا۔ میرا قیام احمد سلیم کے ہاں رہا جو پنجابی زبان و ادب کے معروف شاعر، ادیب، سکالر اور محقق ہیں۔ احمد سلیم نے طارق عزیز کو فون کیا اور پھر ہم دونوں ان کی رہائش گاہ (کلفٹن) پہنچ گئے۔ ان دنوں طارق عزیز کا پنجابی مجموعہ ’’ھمزاد دا دکھ‘‘ زیور طباعت سے آراستہ نہیں ہوا تھا مگر اس آنے والے مجموعے کی شہرت بہت ہو چکی تھی۔ میں نے طارق عزیز سے پوچھا کہ آپ اردو میں بھی شعر کہتے ہیں مگر پہلا مجموعہ پنجابی شاعری کا چھپوا رہے ہیں۔ اس کی وجہ؟ طارق عزیز کا کہنا تھا ’’میری اردو شاعری گھٹیا شاعری اے۔ میں اردو شاعری چھپوانا نہیں چاہندا۔ پنجابی وچ صحیح طور تے میں Express کر پانا واں‘‘ وہاں نعیم بخاری بھی موجود تھے۔ ان دنوں وہ طاہرہ سید کے شوہر تھے، اس لیے وہاںموجود احباب نے ان سے طاہرہ سید کی خیریت دریافت کی۔ طارق عزیز نے ایک نظم سنائی:۔؎ جینا اک ہُنر سی اوہ وی آیا نہ
نظم سن کر میں نے سوچا۔ طارق کسر نفسی سے کام لے رہا ہے۔ کراچی اور لاہور قیام کے دوران انھیں جینے کا ’’چج‘‘ آ گیا ہے۔ نظمیں سننے کے بعد احمد سلیم نے طارق عزیز سے پوچھا۔ ’’تہاڈیاں نظماں وچ منیر نیازی دی شاعری دا پرچھاواں ملدا اے‘‘ طارق عزیز کا جواب تھا ’’منیر نیازی کے اثر سے نکلنا میرے لیے ممکن نہیں‘‘
1990ء میں منیر نیازی کا انٹرویو میں نے کیا۔ میرا ایک سوال یہ بھی تھا۔ ’’طارق عزیز کی شاعری میں آپ کی چھاپ دکھائی دیتی ہے۔ اس کی وجہ؟‘‘
منیر نیازی نے بھی طارق عزیز کی طرح ظرف کا مظاہرہ کرتے ہوئے جواب دیا۔ ’’اس میں کوئی برائی نہیں۔ میں نے اس کو محسوس نہیں کیا۔ انھوں نے تو مجھے اپنی کتاب تک نہیں دی۔ اگر ایک دوست کی معرفت ایک اچھا خیال پھیل رہا ہے تو یہ اچھی بات ہے کہ اس کی معرفت لوگ مجھ یعنی مرکز تک پہنچتے ہیں‘‘ بہر کیف ذکر ہو رہا تھا، کلفٹن والی ملاقات کا۔ طارق عزیز نے ایک نظم سنائی عنوان تھا ’’فرزانہ لئی اک نظم‘‘ جب طارق عزیز یہ نظم سنا رہا تھا۔ عین اس موقع پر فرزانہ کمرے میں داخل ہوئی۔ یہ حُسنِ اتفاق تھا۔ یوں ہم نے نظم کا دوہرا لطف اٹھایا۔ فرزانہ کے آنے سے کمرہ مہک اٹھا۔ ایک انٹرویو میں طارق عزیز سے پوچھا گیا کہ فرزانہ سے آپ نے اتنی محبت کی پھر شادی کسی اور سے؟ طارق کا کہنا تھا۔ فرزانہ لندن چلی گئی۔ وہاں اس کی شادی کسی نوجوان سے ہوئی۔ شادی سے قبل فرزانہ نے مجھے فون کیا اور شادی میں شرکت کی دعوت دی۔ میں لندن پہنچ گیا اور نکاح نامے پر دلھن کے وکیل کے طور پر دستخط میں نے کیے۔ طارق عزیز کے ہمراہ بیرون ملک مجھے ایک سفر کرنے کا موقع ملا۔ یہ سفر بھارت کا تھا۔ 30 نومبر 2004ء میں 80 ارکان پر مشتمل وفد پٹیالہ (بھارت) عالمی پنجابی کانفرنس میں شرکت کیلئے گیا۔ طارق اور راقم اس وفد میں شامل تھے۔ بھارت میں بھی میں نے طارق عزیز کی مقبولیت اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ کانفرنس کے بعد مہمانوں کو پٹیالہ کے قریب ایک گاؤں جلال پور کا دورہ کرایا گیا۔ گاؤں والوں نے ثقافتی پروگرام کا اہتمام کیا۔ یہاں طارق عزیز اور بعض دیگر مہمانوں کو تحائف (شال۔ تلوار وغیرہ) پیش کیے گئے اور اپنے خطاب میں وہاں بیٹھے لوگوں کا دل موہ لیا۔ اسکے علاوہ بھی ان سے لاہور میں متعدد ملاقاتیں رہیں۔ انھوں نے ’’داستان‘‘ کے ’’لوگو‘‘ سے ’’نوائے وقت‘‘ میں کالم لکھے جو ’’داستان‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024