سیدنا حضرت علی ؓ سے کسی نے پوچھا انسان کتنا مختار اور کتنا مجبور ہے۔(روایت کی سند اور صحت کے قطع نظر ، رب کریم کمی، بیشی معاف فرما دے) تو سیدنا حیدرکرارؓ نے اسے ایک پائوں اٹھانے کا کہا، جب اس نے پائوں اٹھالیا تو سیدنا علیؓ نے فرمایا اب دوسرا پائوں اٹھائو۔ لیکن کیسے ممکن تھا، بس اسی مختصر قول اور فعل میں انسان کی ’’مختاری‘‘ اور ’’مجبوری‘‘ پنہاں ہے۔ گویا انسان رب ذوالجلال کی رحمت اور اس کی عطا کردہ عقل و فہم ، طاقت او رقوت کی حدود میں رہتے ہوئے ہی ’’مختار‘‘ہے جبکہ اس سے ذرہ برابر تجاوز کرنے میں ’’مجبور و لاچار‘‘ ہے۔ ہم اپنے معمولات زندگی کا مشاہدہ کریں تو درجنوں نہیں، سینکڑوں، ہزاروں لمحات ایسے آتے ہیں جب ’’مختار‘‘ اور ’’مجبور‘‘ کا فرق ہمارے ذہنوں پر پڑے دبیز پردوں کو ہٹا دیتا ہے۔ اب کرونا کو ہی دیکھ لیں کہ پوری دنیا کے ڈاکٹر، ماہرین صحت، سائنس و طب کے محققین اور ادویہ ساز تمام تر وسائل رکھنے کے باوجود مجبور و بے بس ہیں۔ انسانیت پر خوف کے سائے ہیں، تاحال کوئی تدبیر کارگر ہورہی ہے نہ کسی دوا، دارو سے بیماری کی روک تھام ممکن ہے۔ وباء کے خوف نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، وسائل رکھنے کے باوجود انسان کچھ نہیں کرپارہا، جب بے چارگی ، بے بسی اور مجبوری اس سطح پر پہنچ جائے تو پھر ہر کسی کی زبان پر یہی ہوتا ہے کہ بس دعا کریں۔ قرآن نے انسان کی اسی بے بسی و اضطراری کیفیت کو بیان کیا ہے کہ ’’کون ہے جو بے بسی اور بے قراری کی حالت میں اپنے بندے کی پکار سنتا ہے اور اس کی تکلیف دور کرتا ہے۔‘‘ ظاہر ہے جب تمام وسائل بے فائدہ ہوجائیں، تدبیریں الٹی ہونے لگیں، دوائوں سے کام نہ چلے، اطباء بھی نبضوں پر ہاتھ رکھے ’’صم، بکم، عمی‘‘ کی عملی تصویر بن جائیں تو ایک ہی ذات ہے جس سے امید بندھتی ہے جو کسی لمحہ اپنے بندے کو تنہا چھوڑتی ہے نہ مایوس ہونے دیتی ہے، شرط یہ ہے کہ توکل علی اللہ اپنے پورے تقاضوں کے مطابق ہو، خلوص و اخلاص ہو، ریاکاری نہ ہو کیونکہ کرونا کے باعث حالات تقاضا کرتے ہیں کہ رب ذوالجلال کو اسی بے قراری سے پکارا جائے جس طرح سیدنا آدمؑ نے پکارا تھا کہ ’’اے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کئے، اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔‘‘ ہماری بے بسی ہمیں جھنجھوڑ رہی ہے کہ قادر و قدیر رب کریم کی مدد ان کلمات کے ساتھ طلب کی جائے جن کے ساتھ سیدنا نوحؑ عرض گزار ہوئے تھے۔ کرونا عذاب ہے یا آزمائش، بچائو کا ایک ہی راستہ ہے کہ سیدنا ابراہیم ؑ جیسا ایمان اور عقیدہ اپنا لیا جائے اور اسی توکل کے ساتھ اس کو پکارا جائے جس توکل کے ساتھ سیدنا ابراہیم ؑ نے پکارا تھا تو آتش نمرود گلزار بن گئی تھی ،پھر رب ذوالجلال کی برابری کا (نعوذ باللہ) دعویدار نمرود ایک معمولی مچھر کے سامنے بے بس و لاچار ہوکر ذلت کی زندگی اور ذلت کی موت سے دوچار ہوا۔ بالکل اسی طرح آج بھی کرونا نے دنیا کی رعونت کو خاک میں ملا دیا ہے، وسائل اور طاقت پر اترانے والے بھی بے بس ہیں، اللہ کے ماننے والوں کیلئے تو یہ ایک بہت بڑی آزمائش ہے جبکہ منکرین خدا پر عذاب الٰہی کا کوڑا بن کے برس رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ سیدنا یونس ؑ کے کلمات کے ساتھ رب رحیم کو پکارا جائے۔ گناہوں اور استغفار ، خطائوں پر تاسف کیا جائے، قوم یونس ؑ جیسے جذبہ عبدیت کے ساتھ آہ و گریہ زاری کی جائے۔ سیدنا اسماعیل ؑ و سیدنا اسحاق ؑ کے خلوص و تقویٰ کے ساتھ رب کریم کو پکارا جائے۔
پوری دنیا میں موت کا رقص ہے، کوئی وینٹی لیٹر پر سانسیں پوری کررہا ہے تو کسی کو ہسپتال پہنچنے کی مہلت بھی نہیں ملتی، انسانیت زندگی کی بھیک مانگ رہی ہے، اولاد آدم کو چارہ گر نہیں مل رہا۔ حالات کا تقاضا ہے سیدنا موسیٰ ؑ ، سیدنا ہارون ؑ اور سید عیسیٰ ؑ کا طرز دعا اپنایا جائے۔ آج دنیا کومصائب نے آگھیرا ہے، آزمائشوں کا تسلسل ٹوٹنے کا نام نہیں لیتا، صبح و شام مشکلات انسان کو زچ کرنے کے درپے ہیں۔ ایسی صورتحال میں آقا کریم علیہ التحیۃ و التسلیم کی سیرت طیبہ سے رہنمائی لی جائے۔ قرآن و حدیث سے استفادہ کیا جائے، توکل علی اللہ، صبر کا بھرپور مظاہرہ کیا جائے۔ قنوطیت و یاس کو قریب تک نہ پھڑکنے دیا جائے، اپنی اصلاح کیجئے۔ رجوع الی اللہ اور بندگیء الٰہی میں تاخیر کا ازالہ کرگزریئے، بندگی کو خلوص و تقویٰ سے ’’صیقل‘‘ کرکے ظاہر و باطن کو پاک کیجئے، عقیدہ، ایمان اور عمل کی کسوٹی پر خود کو پرکھیں کہ کہیں حقوق اللہ و حقوق العباد میں کوتاہی تو نہیں، صلہ رحمی کی جگہ قطع رحمی نے تو نہیں لے لی، معاشرے میں مخلوق خدا پر ظلم تو نہیں ہورہا، عدل و انصاف پر ظلم و زیادتی کا غلبہ تو نہیں، احسان و خلوص کو ریاکاری اور دکھلاوے نے تو دبوچ نہیں رکھا۔ آقاؐ نے فرمایا ’’تم میں سے ہر شخص نگران اور ذمہ دار ہے جس سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘ اس حدیث پاک کے تناظر میں تمام ذمہ داران ، حکام، عوام، تاجر، سرمایہ دار، صنعت کار، اعلیٰ افسر، سربراہ خانہ و محکمہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہیں۔ اگر ہیں تو پھر کرونا سمیت ہر چھوٹی بڑی آزمائش سے بچائو کیلئے انفرادی اور اجتماعی ہاتھ اٹھایئے، اگرنہیں تو انفرادی اور اجتماعی اصلاح میں تاخیر نہ کیجئے کیونکہ پکار سننے والا تو کہہ رہا ہے کہ ’’جب بھی مجھے میرا بندہ پکارتا ہے تو میں جواب دیتا ہوں، اس لئے مجھے ہی پکاریں او مجھ پر ایمان رکھیں‘‘ (یعنی اللہ ہی قادر، قدیر اور مختار ہے، باقی سب مجبور و لاچار ہیں)اس لئے
خدا کے سوا چھوڑ دے سب سہارے
کہ ہیں عارضی زور کمزور سارے
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38