تحریر:۔ پروفیسر (ر)ڈاکٹر احسان الرحمنٰ‘
کرونا بیماری نے پورے ملک میں کہرام برپا کر رکھا ہے۔ حکومت اور کچھ سماجی لوگ اس مشکل میں اپنی مقدور بھر کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن سرفہرست ڈاکٹرز‘ نرسز اور پیرا میڈیکل سٹاف ہیں جو صف اول میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں تقریباً 50 کے قریب ڈاکٹر اپنی جانیں کھو چکے ہیں۔ بڑے ہسپتالوں کے لگ بھگ آدھے لوگ اس بیماری سے کم یا زیادہ حد تک متاثر ہو چکے ہیں۔ اور یہ بیماری ان کو ان مریضوں سے لگتی ہے۔ جن کا وہ علاج کرتے ہیں۔ یہ ڈاکٹر حکومت کی طرف سے حفاظتی لباس استعمال تو کرتے ہیں لیکن یہ لباس عالمی معیار کا نہیں ہوتا۔ شروع میں تو وہ لباس کے بغیر بھی فرائض سرانجام دیتے رہے۔ اسطرح کے بھی کئی نئے ڈاکٹر ہیں جنہوں نے اپنی ہاؤس جاب کا پہلا دن کرونا کے مریضوں کو چیک کرنے پر گزارا اور ان میں سے کئی اس بیماری کا شکار بھی ہو گئے۔ کرونا الاؤنس کا معاملہ آیا تو ڈاکٹروں میں سے چند لوگوں کو آفر کیا گیا حالانکہ تمام ڈاکٹر کسی نہ کسی حیثیت میں کرونا میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ کئی مرتبہ ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کو ہسپتال میں داخلے کی ضرورت پڑی تو انہیں وہاں بیڈ نہ مل سکا۔ انہوں نے بھاری پیسے خرچ کر کے پرائیویٹ علاج کروایا یا اپنے گھروں میں بیماری کو بھگتے رہے۔ لیکن وہ مستقل اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ہم نے حکومت سے نہ پیسے مانگے ہیں نہ کوئی اور چیز لیکن حالیہ دنوں میں عوام نے ڈاکٹروں کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ جب کوئی مریض اپنے علاج سے مطمئن نہیں ہوتا۔ وہ اسکی تمام ذمہ داری ڈاکٹر پر ڈال دیتا ہے۔ مریض اکثر علاج کے لئے لیٹ آتے ہیں۔ اس موذی مرض سے کئی وجوہات سے موت واقع ہو چکی ہے۔ کراچی میں ایک ڈاکٹر نے ماسک پہننے کو کہا تو اسے گولی مار دی گئی۔ گوجرانوالہ میں تشدد کیا گیا اور اتوار کے روز جناح ہسپتال لاہور کے سینئر ترین پروفیسر تنویر الاسلام جب شام کو باوجود چھٹی کے دن کے چیک کرنے آئے تو مریض کے لواحقین نے تشدد کانشانہ بنایا۔ ڈیوٹی پر موجود گارڈ ڈر کر بھاگ گئے۔ نرسز اور جونیئر ڈاکٹروں نے مل کر پروفیسر تنویر الاسلام صاحب کو وہاں سے نکالا۔ بعد میں یہ لوگ اسلحہ لے کر آئے اور زبردستی کوشش کرتے رہے کہ اس پر ذمہ دار پروفیسر صاحب کو ٹھہرایا جائے۔ اگر انسان کی جان ڈاکٹروں کے قبضے میں ہوتی تو وہ خود نہ مرتے اور خود اس موذی مرض کا شکار نہ ہوتے۔ ایک اور بہتان عام مشہور ہے۔ کہ اگر کرونا سے مریض مر جائے تو ڈاکٹروں کو W.H.O بھاری رقم فراہم کرتا ہے۔ اس لئے ڈاکٹر زہر کا ٹیکہ لگا کر مریضوں کو مار ڈالتے ہیں۔ ہمارا حکومت سے صرف یہ مطالبہ ہے کہ ڈاکٹروں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔ ہم نہ تو جلوس نکالیں گے نہ کام کرنا چھوڑیں گے نہ ڈیوٹی سے غیر حاضر ہوں گے لیکن مکمل تحفظ کا انتظام کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جو لوگ اسطرح کا تشدد کرتے ہیں ان کو 10 سال جیل اور 50 لاکھ روپیہ جرمانہ کیا جائے۔ اگر کوئی مریض علاج سے مطمئن نہیں ہے تو شکایت کرنے کے کئی طریقے ہیں نہ کہ ڈاکٹروں پر تشدد شروع کر دیا جائے۔ میں خود 29 مئی سے اس مرض میں مبتلا ہوں اور ابھی مکمل طور پر شفا یاب نہیں ہوا۔ میری حکومت وقت سے گزارش ہے ہم اس مشکل گھڑی میں قوم اور ملک کی خدمات میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے لیکن ہمیں مکمل تحفظ فراہم کیا جائے اور جن لوگوں نے یہ ظلم کیا ہے ان کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر سزا دی جائے ورنہ ڈاکٹر اپنی ڈیوٹی کیسے سرانجام دیں گے۔ میں حال ہی میں سرکاری نوکری سے پروفیسر آف سرجری علامہ اقبال میڈیکل کالج سے ریٹائر ہوا ہوں۔ میں اس میں کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے۔ یہ ملک اور قوم کی خدمت کی غرض سے کر رہا ہوں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024