ہماری زندگی کا مقصد اللہ کی رضا ہے ۔ ہمارے لیڈر حضرت محمدؐ ہیں ۔ ہمارا آئین قرآن مجید ہے ۔ جہاد فی سبیل اللہ ہمارا راستہ ہے اور اللہ کی خاطر جان دینا ہماری سب سے عزیز خواہش ہے ۔ یہ ایمان افروز الفاظ ہیں ۔ فرعونوں کی سرزمین مصر کے اس غیرت مند جذبہ ایمانی سے سرشار سپوت جس نے موسوی سنت ادا کرتے ہوئے فرعون وقت کو للکارا ۔ ڈاکٹرانجینئر حافظ محمد مرسی جو مصر کے واحد اور پہلے جمہوری صدر ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں ۔ ان کا تعلق احیائے اسلام کی سب سے بڑی تحریک اخوان المسلمین سے ہے جس کے پرچم تلے ہزاروں مجاہدین اسلام نے قانون قرآنی اور اللہ کی حکمرانی کی خاطر بڑی بڑی اذیتیں تکلیفیں برداشت کیں ۔ اخوان المسلمین کی قربانیوں کی کہکشاں کی طرح درخشان داستانیں آج بھی اخوان المسلمین کے جوانوں کے جذبوں کو جلا بخشتی ہیں اور نئے ولولوں اور حوصلوں سے سرشار کرتی ہیں ۔ حضرت حسن البناء شہید کی اولعزم شخصیت علم و حکمت اسلام دوستی اور خدا پرستی کا آج بھی پورا عرب معترف ہے ۔ آپ نے اسلام کی نشاط ثانیہ کی احیاء کے لئے مسلم ملت کو ایک بار پھر ایک پلیٹ فارم پر متفق و متحد کرنے کیلئے اخوان المسلمین کے نام سے تحریک کا آغاز کیا جو آج عرب مصر بلکہ پورے مشرقی وسطیٰ میں احیائے اسلام کی سب سے موثر اور بڑی تحریک مانی جاتی ہے ۔فلسطین میں یہود یوں کی آباد کاری کے اولین ایام میں اس مکروہ حرکت کے خلاف حسن البنا ء سب سے قوی آواز تو تھے ہی بلکہ برصغیر میں چلنے والی تحریک پاکستان کو بھی کامیاب دیکھنا چاہتے تھے۔ قائد اعظم اور دیگر مسلم رہنما حسن البنا ء کے جذبوں اور حکمت عملی کے قدر دان تھے ۔ سید نا موسیٰ علیہ السلام کے دور کا فرعون جو اپنے لائو لشکر سمیت دریا میں ڈوب مرا مگر مصر ی اشرافیہ کی ذہنیت کبھی فرعونی عمل سے پاک نہ ہ وسکی ۔ حسن البنا ء جیسے عظیم المرتبت مجاہد ملت کے لئے عرصہ حیات کو اس قدر محدود کر دیا کہ فرعون وقت کے خوف سے ان کے اردگرد کے لوگ بھی ملنے سے کتراتے رہے ۔ حد تو یہ ہے کہ آپ کی وفات پر تدفین کا عمل بھی ان کی بیٹیوں کو کرنا پڑا ۔ اس دوران اخوان المسلمین کے ہزاروں مجاہدین کو تہ تیغ کیا گیا مگر یہ تحریک ختم نہ ہ وسکی اور سید قطب شہید جیسی ایک اور مینار نور قیادت میسر آگئی جو اپنے دور کے سب سے بڑے اسلامی سکالراور مفسر قرآن ہونے کیساتھ ساتھ احیائے اسلام کے سب سے بڑے داعی اور علمبردار تھے ۔ سید قطب شہید کو کسی دشمن نے نہیں ان کے اپنے حکمرانوں نے تختہ دار پر لٹکا کر تاریخ میں اپنے چہرے مسخ کئے جس پر پور ے خطے کے مسلمانوں نے غم و غصے کا اظہار کیا مگر حکمرانوں کے ظلم و ستم کسی طور کم نہ ہو سکا بالآخر مصری عوام 2011ء میں ایک بار پھر حکمرانوں کے ظلم و بربریت کے خلاف سراپا احتجاج دکھائی دیے۔ 11فروری 2011کو صدر حسنی مبارک کے مستعفی ہونے کی خبر ملی۔ دو روز بعد 13فروری 2011کو آئین معطل اور پارلیمان تحلیل کر دی گئی ۔ چھ مہینے میں نئے الیکشن کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے سابقہ کابینہ اور وزیر اعظم کو نگرانی کی ذمہ داری سونپی گئی ۔انتخابات کے نتیجے میں مصری عوام نے ایک بار پھر اخوان المسلمین کے حق میں بھرپور فیصلہ دیا ۔ جون 2012ء میں حافظ ڈاکٹر محمد مرسی نے مصر کے صدر کا عہدہ سنبھالتے ہی مملکت کے قوانین کو اسلامی رنگ ڈھنگ میں تبدیل کرنے کا سلسلہ انقلابی انداز میں شروع کر دیا۔ یہ طرز عمل مصری اشرافیہ کو برداشت ہوا نہ امریکہ اور اسرائیل ایسا ہوتا دیکھ سکے ۔ حد تو یہ ہے کہ گردو نواح کے مسلم ممالک بھی اس تبدیلی کو اپنے لئے خطرہ محسوس کر رہے تھے لہذا تمام اسلام گریز قوتیں متحد ہو کر ایک بار پھر اخوان المسلمین اور اس کی حکومت کو مٹا دینے کا تہیہ کیا ۔ صدر مرسی کی صدارت کے آغاز میں ہی انہیں منتخب کرنے والی پارلیمنٹ کو اعلیٰ عدالت کے حکم پر تحلیل کر دیا کیونکہ اس میں اسلام پسندوں کا غلبہ تھا اور صدر مرسی کیخلاف ایک جانب مظاہرے کرائے گئے اور دوسری طرف مقدمات درج ہوئے جس میں عوام کی شمولیت نہ تھی مگر ایک سال کے اندر ہی 3جولائی کو مصری افواج نے صدر مرسی کو معزول کرکے پس دیوار زندہ ڈال دیااور فوجی سربراہ نے حکومت کی باگ دوڑ سنبھال لی۔عدالت نے صدر مرسی اور ان کے سینکڑوں ساتھیوں سمیت سزائے موت کا فیصلہ سنایا اور چھ سال تک سخت با مشقت قید تنہائی کی سزا کاٹی جس میں سونے کے لئے کوئی بستر تھا اور نہ بیماری کی صورت میں علاج ۔حکمرانوں کی فرعونیت کا یہ عالم ہے کہ سابقہ صدر کو ایک سائونڈ پروف پنجرے میں عدالت لایا جاتا تھا ۔ 17جون 2019پیر کے دن عدالت کی کاروائی کے دوران صدر مرسی گرے اور دوبارہ نہ اٹھ سکے ۔عدالت بیس منٹ تک ان کے تڑپنے کا تماشا دیکھتی رہی ۔ حکمرانوں پر عوامی غیض کا اس قدر خوف طاری تھا کہ جیل میں ہی غسل کفن اور نمازجنازہ ادا کی گئی ۔ ان کی بیوہ کو بھی مرحوم کی شکل دکھائے بغیر دفنا دیا گیا۔
قارئین کرام ۔ المیہ یہ ہے کہ اسلام کے اس بطن جلیل کے وحشیانہ قتل پر کسی انسانی حقوق کی تنظیم یا 56اسلامی ممالک میں شدید ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا ماسوائے ترک صدر طیب اردگان کے ۔ انہوں نے استنبول میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صدر مرسی طبی موت نہیں مرے انہیں قتل کیا گیا ہے ۔ عالمی عدالت سے مصری حکومت کے خلاف رجوع کریں گے اورجو بن پڑا کر گزریں گے ۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024