عہد یوسفی اور بیاد یوسفی
21 جون2018 ء کا طویل دن مشتاق احمد یوسفی کے چاہنے والوں کیلئے دکھ اور سوگواری کے لمحات کو بھی طویل کر گیا۔ اردو ادب میں مزاح کو ایک خاص کیفیت اور دلچسپ پیرائے میں ڈھالنے کی وجہ سے مشتاق احمد یوسفی دیگر مزاح نگاروں سے ہمیشہ الگ تھلک نظر آئے ہیں۔ مشاہدے کی آنکھ سے منظر نگاری نے ان کے فن پاروں کو یادگار بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح بعض شاعروں کے شعر بہت سوں کو ازبر ہو جاتے ہیں اسی طرح مشتاق احمد یوسفی کے بہت سے جملے زبان زد عام کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی ایک مزاح نگار کے ساتھ ساتھ ایک بنکار بھی تھے۔ بنک میں صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ ان کی کتاب زرگزشت ان کے بنکاری کے تجربات کی بھی عکاسی کرتی ہے جس میں ان کا فن مزاح پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتا اور دمکتا دکھائی دیتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی ایک ایسے مزاح نگار کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں جو مردہ دلوں کو تازگی بخشنے‘ منہ بسورتے چہروں پر مسکراہٹ لانے اور روتے ہوؤں کو ہنسانے کا ہنر جانتے تھے۔ مشتاق احمد یوسفی مزاح کے بعض مشکل اور کٹھن مراحل سے باآسانی گزرتے بھی دکھائی دیتے ہیں اور ان کے بعض مزاحیہ جملے اتنے سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں کہ پڑھنے والے کو رونے پر بھی مجبور کر دیتے ہیں۔ سخنور فورم کے مشتاق احمد یوسفی کے تعزیتی ریفرنس میں مزاحیہ شاعری کے ہردلعزیز شاعر خالد مسعود نے بجا کہا ہے کہ مزاح لکھنا ایک مشکل کام ہے جسے تادیر قائم رکھنے تک سانس پھولنے کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے لیکن مشتاق احمد یوسفی نے یہ تمام مراحل بخوبی طے کئے یہی وجہ ہے کہ عہد یوسفی میں جینے والے غمگسار ان کی دائمی جدائی سے دل گرفتہ اور غمزدہ تو ضرور ہیں لیکن وہ ابھی بھی عہد یوسفی میں جینے کے خواہش مند ہیں۔
خاکم بدہن‘ چراغ تلے‘ زرگزشت‘ آب گم اور شام شعریاراں کے قارئین مشتاق احمد یوسفی کے طرز تحریر اور خوبصورت جملوں کے سحر اور اثر سے نکلنے نہیں پاتے۔ کاش ہماری نئی نسل بھی مشتاق یوسفی جیسے صاحبِ طرز ادیب کے ان فن پاروں سے مستفید ہو تو ہماری زندگی کے بہت سے رویوں پرپڑی ہوئی گرد کو دور کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے اور ہم عہد یوسفی کی اسیری کے اسیر رہ سکتے ہیں۔ اگرچہ مشتاق احمد یوسفی سے اسلام آباد میں ہونے والی اہل قلم کانفرنسوں میں ملاقات کا موقع ملتا رہا لیکن ملتان میں ہونے والی ایک ملاقات خاصی یادگار ٹھہری یہ غالباً 1990 ء کی بات ہے جب جمشید خان رضوانی اور راقم نے سرائیکی زبان کے معروف ادیب اور شاعر صدیق طاہر کی یاد میں ایک تعزیتی تقریب آرٹس کونسل ملتان میں منعقد کی جس کی صدارت وزیراعلیٰ پنجاب کی مشیر محترمہ بشریٰ رحمٰن نے کی۔ مشتاق احمد یوسفی بہاول پور کی کسی تقریب میں شرکت کیلئے سرکٹ ہاؤس ملتان میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ انہیں بھی اس تقریب میں شرکت کیلئے اصرار کیا اور وہ اس شرط پر تقریب میں جانے کیلئے تیار ہوئے کہ نہ تو سٹیج پر بیٹھیں گے اور نہ ہی تقریر کریں گے۔ بہرحال وعدے کے مطابق انہیں سامعین میں ہی بٹھا دیا گیا لیکن ان کی ہردلعزیز شخصیت نے زیادہ دیر اس وعدے کو وفا نہ کرنے دیا اور مجھے تالیوں کی گونج میں انہیں سٹیج پر بلانا پڑا اور پھر سامعین کو ان کی تقریر دلپذیر سے بھی لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔ غالباً ملتان کی کسی ادبی تقریب میں یہ ان کی پہلی اور آخری شرکت تھی۔
راقم کیلئے یہ بات بھی باعث اعزاز ہے کہ میری کتاب شامت اعمال کیلئے انہوں نے اپنے تحریری تاثرات اور خیالات سے بھی نوازا۔ وہ طنز و مزاح لکھنے والوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ میرے اس سوال کے جواب میں کہ بنک میں رہ کر لکھنا اور خاص کر مزاح لکھنا خاصا مشکل کام ہے۔ انہوں نے کہا یہ تو اور زیادہ آسان ہو جاتا ہے کہ یہاں زیادہ سے زیادہ مشاہدے اور میل جول کا موقع ملتا ہے اور خشک ماحول میں مزاح پیدا کرنے کے اسباب زیادہ میسر ہو سکتے ہیں۔ یوسفی صاحب سے فون پر بھی اکثر بات کرنے کا موقع ملا لیکن مزید ملاقات کی کوئی سبیل پیدا نہ ہوئی پھر پتہ چلا کہ وہ خاصے علیل ہیں اور 20 جون کو ان کی وفات کی خبر علمی و ادبی حلقوں کو سوگوار کر گئی۔ اپنے خوبصورت جملوں اور تحریر کے ذریعے ہونٹوں پر مسکان اور مسکراہٹ بکھیرنے والا اب منوں مٹی تلے جا سویا ہے لیکن ان کے خوبصورت جملے آج بھی غم زدہ اور سوگوار چہروں اور دلوں کو شگفتگی اور مسکراہٹ دینے کا باعث بن رہے ہیں۔ ان کی زندہ نثر کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں۔
مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔
پاکستان کی افواہوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ سچ نکلتی ہیں۔
بڑھاپے کی شادی اور بنک کی چوکیداری میں ذرا فرق نہیں‘ سوتے میں بھی ایک آنکھ کھلی رکھنی پڑتی ہے۔
غرض اس طرح کے جملوں کی چاشنی مشتاق احمد یوسفی کی تحریروں کا خاصا ہے اور ہم بلاشبہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی وفات اردو ادب اور مزاحیہ ادب کے سنجیدہ قارئین کیلئے ایک بہت بڑا سانحہ ہے لیکن ان کی وفات سے عہد یوسفی ختم نہیں ہوا بلکہ ان کی یادوں کے چراغ اسی طرح جلتے رہیں گے اور ان کے فن پاروں کے قدردان بھی عہد یوسفی میں جیتے اور مسکراتے رہیں گے۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا