کیوں اداس پھرتے ہو
گزشتہ اکہتر سال سے قوم نیک خواہشوں کے صحرا میں ، سراب دیکھتے اور عذاب سہتے ، سہتے لگتا ہے بالکل بے بس ہو گئی ہے کیونکہ نہ تو کوئی منزل ہے اور نہ ہی کوئی ٹھکانہ ۔ باریاں بدلنے والے ، باریاں لینے والے ، یاریاں بدلنے والے اور یاریاں نبھانے والے اور اب باریاں لگانے والے کس ، کس کی مہربانیوں کو یاد کریں ۔ قوم کے مسیحائوں سے اتنا بھی نہیں ہو سکا کہ
باغباں بھی خوش رہے
راضی رہے صیاد بھی
معاملہ یہاں تک آن پہنچا ہے کہ آخر جائیں تو جائیں کہاں کیونکہ آگے کھائی اور پیچھے کنواں ہے ۔ چاہ یوسف سے یوسف کی صدا سننے والا کوئی نہیں جملہ برادران یوسف نے اپنی اپنی پسند کی تاریخ لکھوا کو مورخین پر احسان کیا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ مزید توقع رکھتے ہیں کہ انہیں ایک اور"ّّسنہری موقع "ضرور دیا جائے تاکہ قوم کی ڈولتی نیاکو ہمیشہ کیلئے ۔۔۔۔۔۔اور مسلسل تسلی دیتے رہیں کہ
بادباں کھلنے سے پہلے کا نظارہ دیکھنا
میں سمندر دیکھتا ہوں تم کنارہ دیکھنا
ناخدا جب کھلے سمندروں کا سفر کرتے ہیں کنارے پر نظر ان کی پہلی ترجیح ہوتی ہے اب جبکہ انہوں نے ٹھان لی ہے کہ محض سمندر دیکھنا ہے تو پھر نیا آر لگے یا پار اس کی پرواہ نہیں ۔ پہلے مہربانوں نے ہندوستان سے سندھ طاس کا تاریخی معاہدہ کرکے ستلج ، راوی اور بیاس کے پانی کا سودا کر دیا بدلے میں کروڑ وں کے قرضے لے کر منگلا ، تربیلا ڈیم بنائے جو وقت کے ساتھ ساتھ اس قدر سلٹ اپ ہو چکے ہیں کہ اپنی نصف گنجائش کا پانی بھی محفوظ کرنے کے قابل نہیں رہے اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں جیسا مخلص و معتبر شخص اگر مشورہ دے کہ تم ان ڈ یمز کی بیرونی فصیلیں بلند کروا دو تو پانی کا مسئلہ حل ہو جائے گا ۔( کیسے؟ اس پر کسی دن بات کریں گے) تو مشرف جیسا شخص اسے شٹ اپ کال دے ،یہی نہیں مجرم کے طو ر پر دنیا کے سامنے پیش کرے ۔ہم کس قسم کے احسان فراموش لوگ ہیںکہ اپنے محسنوں کو تو پابند سلاسل کر دیتے ہیں اور دشمنوں کے گلے میں گلوں کے گجرے ڈالتے ہیں
گزشتہ 35سالوں سے پانی کا مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہاہے لیکن کیا مجال ہے کہ قوم کے کسی مسیحا کے کان پر جوں تک رینگی ہو ۔ کروڑوں پاکستانی زہریلا پانی پینے سے کینسر ، ہیپاٹائٹس اور گردے فیل اور بینائی کا خاتمہ جیسے موذی امراض کا شکار ہو رہے ہیں مگر جان جان کی ایک ہی رٹ ہے کہ انہوں نے سینکڑوں ہسپتال بنا دیئے ہیں ۔ ہسپتالوں کا قیام کو ئی صحت کا عالمی یا آفاقی اعزاز ہے ؟ یہ تو ظاہر کرتا ہے کہ بدنصیب قوم کی اکثریت بیماریوں میں گھر چکی ہے کیونکہ یہ نصیب جلے تو صاف پانی سے بھی محروم ہیں ، خوراک کی تو بات ہی نہ کریں ، سبزیاں سیوریج کے چشموں سے سیراب ہوتی ہیں ہر قسم کے اناج پر کھاد اور زہر کے سپرے ہوتے ہیں ، پھل بھی محفوظ نہیں ۔ اب آپ ہی بتائیے کہ جائیں تو جائیں کہاں ، ہمسایہ ملکوں کے بارڈر بند ہیں وہاں سے صرف کلبھوشن جیسے آ سکتے ہیں ، یہاں سے چڑیا کا بچہ بھی نہیں جا سکتا
جینے کی تاکید ہمیں زہر پلا کر
ظالم یہ سمجھتا ہے ، وہی جیسے خدا ہے
ان سے خیر کی توقع عبث ہے کہ ان میں اکثریت میر جعفر و میر صادق کے جانشین ہیں جو معمولی سے ذاتی مفاد کی خاطر اپنی قوم اور اپنے وطن کا سودا کرنے میں دیر نہیں کرتے ۔
جس طرح دجلہ و فرات کے ہوتے ہوئے قافلہ حسین علیہ السلام پیاسا رہا بلکہ شہید کردیاگیا ، ویسے ہی حالات ہر دور میں اہل ایمان کے رہے ہیںلیکن یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ اہل ایمان نے ہر بار آزمائے ہوئے مسیحائوں کو پھر سے آزمایا ہے ، سمجھ سے بالا ہے کہ ان عطار کے لونڈوں میں ایسا کون ساوصف ہے کہ بیمار دور ، دور سے کھچے چلے آتے ہیں اگر
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
تو پھر بھگتو ، پھر
کیوں اداس پھرتے ہو،سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے ، اس طرح کے کاموں میں
یہاں سردیوں کی شامیں اور گرمیوں کی "شکردوپہرے"ایک جیسے ہو چکے ہیں ۔ یہ یکتائی ہے یا ہرجائی پن ۔ اب تو فیصلہ کر لیں کہ پھر اس بار بھی وہی نہ ہو جائے جس کا ڈر ہے ۔