محکمہ پولیس و بیور کریسی کی اعلیٰ سطح پر اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ شروع ہے۔ سوال یہ نہیں کہ آئندہ ہونے والے انتخابات میں شفافیت کے عمل کو یقینی بنانے کیلئے اعلیٰ افسران کو تبدیل کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا تبدیلیاں ہی انتخابی عمل کی شفافیت کا پیش خیمہ بنیں گی؟ وگرنہ اس سے قبل بھی انتخابات کیلئے پہلے سرکاری افسران کی ٹرانسفرز و پوسٹنگز ہوتی رہی ہیں اور امیدواران پر اپنے اراکین اسمبلی کا مال‘ برادری و وڈیرہ پن انتخابی نتائج کے منصفانہ و شفافانہ بلکہ شریفانہ توازن کے قائم کرنے کا راستہ روکتا رہا ہے۔ صادق و امین محض زبان سے ادا کئے جانے والے الفاظ نہیں۔ قوم کا مطالبہ ہے کہ الیکشن کمشن اپنے چارٹر آف ایتھکس پر عملدرآمد کروائے۔ انتخابات کے شفاف انعقاد کیلئے کسی کے سب وار صرف سرکاری افسران ہی پہ کیوں؟ حالانکہ سرکار جیسی بھی ہے اور جو بھی ہے‘ سرکاری افسر کو تو اپنے امور سرکار ہی انجام دینے ہیں۔ یہ درست ہے کہ سرکاری افسران بھی آلۂ کار کے طورپر استعمال ہو جاتے ہیں‘ لیکن یہ بھی دیکھیں کہ تمام سرکاری افسران بحیثیت مجموعی آلہ کار بننا بھی نہیں چاہتے اور سب آلہ کار ہوتے بھی نہیں۔ اداروں اور شعبوں کے ماحول کو سیاسی خلفشارکا شکار بنانے اور سرکاری امور کی بجائے سیاسی امور انجام دینے میں اعلیٰ سیاسی بھرتی والے ملازمین موجود ہوتے ہیں جنہیں ہاتھ نہیں ڈالا جاتا۔ صفائی کہاں تک چاہئے اور کہاں تک کی جاتی ہے یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔ اعلیٰ افسران کی ٹرانسفر ناکافی اقدام ہیں۔ شعبوں میں سیاست ہوتی رہتی ہے اور اہم سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ موجودہ اعلیٰ سرکاری افسران کی اکھاڑ پچھاڑ کے بعد نئے پوسٹ ہونے والے افسران کیا اس متوقع تبدیلی و شفافیت کے ٹارگٹ کے حصول میں ممدومعاون ثابت ہونگے؟ سرکاری عہدے بدلتے رہتے ہیں۔ جن افسران کو ہم تبدیل کر دیتے ہیں‘ انہیں انتظامیہ کی ہی مشینری میں کام کرتے رہنا ہوتا ہے۔ تو ایک حکومت کے ملازم ہیں‘ وہی ملازم دوسری حکومت کے بھی ہونگے تو ایسے میں کیا ہم تبدیلی لا سکیں گے؟ اصل میں سرکاری ملازموں کی کارکردگی و صلاحیتوں کافائدہ اٹھانے کیلئے ان افسرا ن کو ان کی پرفارمنس کی بنیاد پر ٹارگٹڈ ٹاسک دینا ہونگے۔ بلاشبہ اچھے افسران جو محنت سے نہیں گھبراتے اور پُرخلوص ہوکر فرائض سے بڑھ کر بھی کام کرتے ہیں‘ وہ قابل تکریم و تعریف ہیں۔ شعبہ تعلیم میں کئی ایک بہترین افسران موجود ہیں جوکہ شعبے کی ترقی کیلئے دن رات مصروف عمل ہیں۔ ان میں سپیشل سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ہیں جن کا پرنسپل صاحبان کی ٹریننگز کیلئے اقدام کرنا اور ان کا بہترین ماڈدریٹر پریذنٹر ہونا ایک علیحدہ خوبی ہے۔ ڈی پی کالجز کھرے اور سچے افسر کے طورپر جانے جاتے ہیں۔ کم گو ہیں‘ لیکن جب بات کرتے ہیں تو پھر کوئی اور بات کر نہیں سکتا۔
پروفیسر مسز فرزانہ شاہین جوکہ اسلامیہ کالج برائے خواتین کوپر روڈ لاہور کی پرنسپل ہیں‘ جن کی ورکنگ کوالٹی کے ہم سب معترف ہیں۔ میڈم کی شعبہ تعلیم کیلئے طویل المدت خدمات ہیں۔ ان کا تجربہ‘ محنت سے لگن‘ وقت کی قدر سب کیلئے رول ماڈل ہے۔ آپ ایک شفیق استاد رہی ہیں۔ میں نے خود پرفیسر فرزانہ شاہین سے بہت کچھ سیکھا۔ ان کی شفقت ہے کہ وہ مجھے اپنے بچوں کی طرح رہنمائی دیتی ہیں۔ چونکہ میں خود بھی بغیر بل و پیچ کے سیدھی سیدھی رہنے کی عادی ہوں اور محنت سے لگن رکھتی ہوں۔ اس لئے پروفیسر صاحبہ مجھے اپنے قریب سمجھتی ہیں۔ پروفیسر صاحبہ سے ملالاقاتوں کے بعد مجھے احساس ہوا کہ محنتی و جفاکشی صرف ان لوگوں کو ناپسند ہے جو دوسروں کے ساتھ تو کیا‘ خود اپنے ساتھ بھی دھوکہ دہی کر رہے ہوتے ہیں۔پروفیسر صاحبہ کی صحبت نے مجھے مزید مشکل پسند بنا دیا ہے۔ ابھی گزشتہ روز شعبہ تعلیم کی جانب سے سی ٹی آئیز کی 2019 کی ریکروٹمنٹس کیلئے تجزیاتی اجلاس ہوا اور بی ایس کلاسز لانچ کرانے والے کالجز کی رہنمائی کرنے کیلئے پروفیسر صاحبہ ہمارے ساتھ رہیں۔ صبح دس سے رات سحری تک پروفیسر صاحبہ نے کام کیا اور ماتھے پہ بل نہ آیا اوردوسرے روز بھی علی الصبح تروتازہ ساڑھے سات اپنی ڈیوٹی پہ تھیں۔ ہر کالج سے پانچ چھ اساتذہ و کلرکس کی ٹیمیں سرکاری امور انجام دینے کیلئے گورنمنٹ ایم اے او کالج مں موجود تھیں‘ تاہم میں نے ہمیشہ کی طرح ون مین ٹیم کے طورپر کام کیا جسے پروفیسر صاحبہ نے یہ کہہ کر سراہا اور حوصلہ بڑھایا کہ ’’آپ جیسے باصلاحیت و محنتی لوگوں کو کسی کی محتاجی نہیں۔‘‘ میں نے بھی اور دیگر کالجز کی طرح رات ایک بجے تک پروفیسر کی سرپرستی میں اپنی ورکنگ مکمل کی اور صبح ساڑھے سات بجے ڈائریکٹوریٹ میں ڈاکومنٹس جمع کروانے بھی گئی۔ رائے ونڈ کالج کو معیار ادارہ بنانے کی تگ و دو میں بھلے ہی میں نے اپنے کالج کا سٹاف شامل نہ ہو‘ لیکن میں اپنے کالج کی بڑھتی سٹوڈنٹس انرولمنٹ دیکھتے ہوئے اسے دوسروںکی تنگ نظری سے متاثر نہ ہونے دوںگی۔ غیر ذمہ دار بھاری تنخواہ دار سیاسی مزاج رکھنے والے سرکاری ملازموں کے خلاف کارروائی عمل میں لانا مجاز اتھارٹی کا کام ہے۔ ایم اے او کالج میں جس وقت سی ٹی آئی ریکروٹنٹس تجزیئے کا کام ہو رہا تھا‘ اس وقت پروفیسر فرزانہ شاہین کے حوالے سے چند لوگ کی رائے یہ تھی کہ پروفیسر صاحبہ کام کو مشکل بنا دیتی ہیں مگر میرا خیال ہے کہ وہ Perfectionist ہیں اور شارٹ کٹ مارنے والوں یا کام سے جان چھڑانے والوں کو وہ مشکل لگتی ہیں اور ہم میں سے ہر وہ شخص جو دیانتدار ہے‘ کاررروائیاں ڈالنے والا نہیں ہے‘ ان لوگوں کو مشکل بلکہ مصیبت معلوم ہوگا جو کام کرنے سے گھبراتے ہیں۔ پروفیسر اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں کیڈمک نہج پر اعلیٰ ذوق‘ فرائض کی ادائیگی کا شوق رکھنے والا ٹرینڈ سٹاف میسرآیا۔ ایک شخص استاد ہو اور اسے اس کے فرائض سمجھائے جائیں‘ یہ بات استاد ہونے کے خلاف منصب ہے۔ اسلامیہ کالج کوپر روڈ لاہور میں اساتذہ کی ایک ایسی کھیپ موجود ہے‘ جو اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کیلئے ہر وقت موجود ہوتی ہے اور پروفیسر صاحبہ اپنے کالج کا بے شمار کام اپنے محترم اساتذہ کے ساتھ پورے اعتماد سے شیئر کرکے محکمہ تعلیم کے کئی پراجیکٹس میں ہاتھ بٹا دیتی ہیں۔ اس طرح پروفیسر فرزانہ شاہین کی صلاحیتوں سے محکمہ بھی بھرپور فائدہ بھی حاصل کرتا ہے۔
ان جیسی محنت سے لگن اور ہر وقت موجود ایسی سرکاری افسر والی اہم خوبی ہے جو بہترین لیڈرشپ کی آئینہ دار ہے۔ دیانتداری‘ فرض شناسی پہ سکھائے سے نہیں پیدا ہوتے یہ اوصاف ذاتی اور صاف ہیں جو افراد اپنے خاندانی پس منظر سے لیکر اردگرد ے ماحول سے اپنی طبیعت کے مطابق قبول کرتا ہے۔ پالیسیاں‘ اصول‘ ضابطے‘ ایکٹس اور قوانین سب مل کر بھی قوموں کو فرض شناس (Efficient) اور دیانتدار (Honest) نہیں بنا سکے۔
بات یہ نہیں کہ ہمارے ہاں صادق و امین نہیں رہے‘ ہم میں صادق و امین ہیں‘ لیکن قابل قدر و نایاب ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024