مکرمی!شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ ہم وہ مسلمان ہیں جن کو دیکھ کر یہود بھی شرما جائیں،لیکن معذرت کے ساتھ (کیونکہ حضرت اقبال جیسی ہستی سے اختلاف کے لیے خاص ہمت چاہیے ) یہود بھلاکیوں شرمائیں گے؟ وہ تو اپنے مشن کی کامیابی پر نازاں ہوں گے۔ نماز ہم نہیں پڑھتے، زکوٰة ہم نہیں دیتے، ملاوٹ میں ہم اپنا ثانی نہیں رکھتے، حلال روزی پر ایمان ہمارا نہیں، لباس ہمارے یہودیوں جیسے، کھانے پینے کے انداز ہمارے یہودیوں جیسے۔ یہ اللہ کی ناراضگی والی باتیں نہیں تو اور کیا ہیں۔ اب یہودیوں کو شرمانے کی کیا ضرورت ہے۔ اب تو وہ خوش ہیں کہ ہماری تہذیب بدل کر رکھی دی ہے۔ انہوں نے۔ یہی ان کی فتح ہے۔مسلم ممالک میںمسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتا دیکھ کر تو یوں لگتا ہے کہ جیسے اب انہیںمکمل اندازہ ہے کہ اس طرف سے کوئی ردعمل نہیں آنے والا۔ ایک آواز اٹھتی ہے کہ یہودیوں کی بنائی گئی مصنوعات کا بائیکاٹ کرو اور دیکھو انہیں روزانہ کتنے ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔لیکن یہ آواز ترقی کے ان کے کھوکھلے نعروں کے شور میں دب جاتی ہے کہ جب پتہ چلتا ہے کہ بائیکاٹ تو کر دیں لیکن پھرمتبادل کے طور پر استعمال کیا کریں؟کیونکہ خود تو ہم نے کچھ بنانے کی زحمت کبھی گوارا نہیں کی۔اپنے پاﺅں پہ خود کھڑے ہونے کا ہنر ہمارے قانون کی کتاب کے جن اوراق پر لکھا تھا ان پر مفاد پرستی کی ایسی گرد پڑ چکی ہے کہ اک حرف بھی نظر نہیں آتا اور نہ کوئی پڑھنے کا روادار ہے۔ حدیث میں آتا ہے، جس کا مفہوم ہے کہ جب اہل ِ شام تباہی کا شکار ہو جائیں تو پھر تم میں کوئی خیر باقی نہ رہے گی۔ (بحوالہ سنن ترمذی،2192) ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ کسی "سیانے" سے اس حدیث مبارکہ کا مطلب سمجھیں۔ عقل پر ڈالروں کے پردے پڑے ہیں۔اس لئے مسلمانوں کا اب کوئی پرسان حال نہیں۔ جب تک کوئی مسیحا آکر انہیں غفلت سے نہ جگا دے۔ (چودھری محمد طارق گڑھی شاہو لاہور)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024