پاکستان کی زبوں حال معیشت
چند روز قبل اسٹیٹ بنک نے بیرونی ادائیگیوں کے توازن کے اعداد و شمار پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی ہے، جو اس مالی سال کے گیارہ ماہ کا جائزہ ہے۔ یہ رپورٹ ہماری معیشت کی زبوں حالی کی المناک تصویر پیش کر رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بیرونی خسارہ 16 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جو ملکیGDPکا 5.5% بنتا ہے۔
گذشتہ ایک دہائی میں یہ سب سے بڑا خسارہ ہے، جبکہ ابھی مالی سال کا ایک ماہ باقی ہے۔ جس رفتار سے خسارہ بڑھ رہا ہے، اور جس رفتار سے پچھلے دو ماہ میں اس میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، اس سے لگتا ہے کہ سال کے اختتام پر یہ خسارہ 18 ارب ڈالر تک پہنچ جائیگا، جو مجموعی آمدنی کا 6% ہوگا۔ یہ صورتحال کیونکر معیشت کی زبوں حالی کی تصویر پیش کر رہی ہے اس کو سمجھنے کیلئے ہمیں اس کو وسیع تناظر میں دیکھنا پڑیگا۔
ایک ایسی معیشت جو بیرونی دنیا سے اشیا اور خدمات کی درآمدات اور برآمدات اور مالی وسائل آمد و رفت سے جڑی ہو، اسکے استحکام کا اندازہ اسکے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر سے لگایا جاتا ہے۔ یہ ذخائر کس مقدار میں درکار ہیں اس کا اندازہ درآمدات کے تناسب سے لگایا جاتا ہے۔ کم از کم تین ماہ کی درآمدات کے مساوی ذخائر محفوظ تصور کئے جاتے ہیں۔
اس سال ہماری درآمدات کا اندازہ 55 ارب ڈالر ہے (جبکہ ہماری برآمدات جو 23 ارب ڈالر ہیں، وہ اس کا نصف بھی نہیں ہیں) لیکن حالیہ مہینوں میں اسکی سطح 5 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے، جس کا مطلب ہے کہ ملک میں ذخائر کی مقدار کم از کم 15 ارب ڈالر ہونا چاہیے۔ اسکے مقابلے میں ملک کے ذخائر اس وقت 10 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ اس دوران ہم نے بہت بڑی تعداد میں بیرونی قرضہ بھی حاصل کیا ہے۔ سابقہ حکومت کی کارکردگی دو ادوار پر مشتمل رہی ہے۔
پہلے تین سال کی کارکردگی متاثر کن تھی کیونکہ وہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت تھی، اس عرصے میں ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئی ایم ایف کا تین سالہ پروگرام کامیابی سے مکمل ہوا، وہ بھی ایک جمہوری حکومت کے دور میں۔ اس دوران ستمبر 2016 میں ہمارے ذخائر 20 ارب ڈالر تک پہنچ گئے تھے جو تقریباً ساڑھے چار ماہ کی درآمدات سے بھی زیادہ تھے۔ یہ سطح جون 2013 میں موجود ذخائر کی مقدار، جو صرف 6 ارب ڈالر تھی، میں 14 ارب ڈالر کا اضافہ تھا۔ علاوہ ازیں اس دوران ملک کے بیرونی قرضے میں صرف 10 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا تھا، لہذا ذخائر میں اضافہ، بیرونی قرضے میں اضافے کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھا۔
دوسرے دور میں مالی نظم و ضبط کے تمام بندھن توڑ دیے گئے اور بڑے پیمانے پر غیر ذمہ دارانہ معاشی اقدامات اٹھائے گئے، جن میں کچھ کا ذکر ہم آگے چل کر کرینگے۔ جیسا ہم کہہ چکے ہیں کہ زرمبادلہ کے ذخائر اس وقت صرف 10 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔جوستمبر 2016 کی بلند ترین سطح 20 ارب ڈالر کے نصف ہیں۔ لیکن زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ اسی عرصے میں کم از کم 12 ارب ڈالر کے اضافی بیرونی قرضے بھی حاصل کئے گئے ہیں۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جون 2013 سے آج تک حکومت نے 6 ارب ڈالر کے ذخائر کے مقابلے میں 10 ارب کے ذخائر چھوڑے ہیں، جبکہ ملک پر بیرونی قرضوں کا بوجھ 22 ارب ڈالر سے بڑھا دیا گیا ہے، جو کہ 2013 کے قرضے میں 46% اضافہ ہے۔
یہ صورتحال صرف موجودہ وقت کی زبوں حالی کا عندیہ نہیں دیتی بلکہ مستقبل قریب میں حالات اور بھی بڑی خرابی کا شکار ہونے جارہے ہیں کیونکہ ان نئے قرضوں میں اکثریت کم مدت کے قرضوں کی ہے جن کی واپسی کیلئے بیرونی وسائل کا مہیا کرنا آسان نہیں ہوگا۔
اب ہم اس جانب آتے ہیں کہ یہ حالات کیونکر اس نہج پر پہنچے۔ بیرونی خسارہ بنیادی طور پر درآمدات اور برآمدات میں بڑے تفاوت کا نتیجہ ہے۔ اس وقت ہمارا تجارتی خسارہ (جو اشیا کی درآمد و برآمد پر مشتمل ہے) 28 ارب ڈالر ہے، جو خدمات کے کھاتے میں بہتر کارکردگی (بنیادی طور پر بیرونی ترسیلات کیوجہ سے) سے کم ہوکر مجموعی طور پر 16 ارب ڈالر رہ گیا ہے۔
لہذا اسکی اصل وجہ درآمدات کی طلب میں بے پناہ اضافہ ہے، جو پچھلے سال سے بے تحاشہ بڑھنا شروع ہوگئی تھی۔ اس سال بھی اس میں مزید 16% کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ دراصل اس بجٹ خسارے کی عکاسی کررہا ہے جو خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ اس سال بجٹ میں خسارے کا اندازہ 41% یا 1480 ارب روپے رکھا گیا تھا۔ لیکن گیارہ ماہ میں یہ 61% یا 2098 ارب روپے پر پہنچ گیا ہے۔ سال کے اختتام پر اس کا اندازہ 7% یعنی 2408 ارب روپے لگایا جارہا ہے، جو بجٹ کے ابتدائی اندازے سے تقریباً پورا ایک ہزار ارب روپے زیادہ ہے۔ جب اتنی بڑی مقدار میں خسارہ کیا جائیگا تو اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی طلب، درآمدات میں اضافہ کا باعث بنے گی۔ اس بے مہابا طلب کو مقامی کرنسی چھاپ کر پورا نہیں کیا جا سکتا اور غیر ملکی کرنسی چھاپی نہیں جاسکتی، جو یا تو برآمدات سے کمانا پڑیگی (گو یہ مثبت پیش رفت ہے کہ ہماری برآمدات بھی اس سال تقریباً 13% بڑھی ہیں، لیکن یہ مقدار درآمدات کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہے لہذا یہ اضافہ اس بڑھتی طلب کیلئے درکار زرمبادلہ کی ضرورتوں کو پورا نہیں کرسکتا)، یا بیرونی سرمایہ کاری یا بیرونی قرضوں کی شکل میں حاصل کرنا ہوگی۔
ایک آخری شکل یہ ہوتی ہے کہ آپ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو استعمال کریں۔ ہم نے یہ سب ذرائع استعمال کرلئے ہیں اور اب یہاں مزید گنجائش نہیں ہے۔ لہذا ہم بند گلی میں داخل ہوگئے ہیں۔
اس پس منظر میں یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ گزشتہ روز بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ کے ایک حصے کو کم کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کا پیش منظر (outlook) جو مستحکم تھا وہ اب منفی ہوگیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ وہ صورتحال ہے جس کا جائزہ ہم نے اوپر پیش کیا ہے۔ ایجنسی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہوگئے ہیں اور اس کی بیرونی وسائل کی ضرورتیں تیزی سے بڑھتی جا رہی ہیں۔ لیکن مالی بدنظمی (بجٹ خسارہ) کیوجہ سے اس میں فوری اصلاح کے امکانات نظر نہیں آرہے۔
در حقیقت موڈیز کا یہ اقدام اس بڑی کارروائی کا نقط آغاز ہے جسکے بعد پاکستان کی ریٹنگ کا دوسرا بڑا حصہ بھی ڈاو¿ن گریڈ کیا جا سکتا ہے یعنی ہماری ریٹنگ B3 سے کم ہو کر C کیٹیگری میں جاسکتی ہے۔ موڈیز کے اس اعلان کے بعد پاکستان کے بانڈز کی قیمتیں بڑی تیزی سے نیچے گر گئی ہیں اور یہ ڈسکاو¿نٹ پر فروخت ہورہے ہیں جبکہ ابھی کچھ عرصہ پہلے یہ پریمیم پر فروخت ہو رہے تھے۔
پاکستان ایک نازک دور سے گذر رہا ہے۔ آج جب ملک ان گمبھیر معاشی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے تو ان سے نمٹنے والا کوئی موجود نہیں ہے۔ عبوری حکومت نے تو اپنی معذوری کا اظہار کردیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں کوئی دور رس اقدامات نہیں اٹھا سکتی۔ لہذا ہمیں ابھی مزید دو ماہ اس بگڑتی صورتحال کو مزید بگڑتے دیکھنا ہے، قبل اسکے کہ کوئی اسکی چارہ گری کو پہنچے۔ نئی منتخب حکومت سے ہم ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں کہ اسے ورثے میں تباہ حال معیشت ملے گی لیکن انہیں مشکل فیصلے کرنے کیلئے کمر کسنی پڑیگی اور عوام کو یہ بتانا ہوگا کہ وہ کسی ریلیف کی توقع کے برعکس ایک تکلیف دہ صورتحال کا سامنا کرنےوالے ہیں۔ اس معیشت میں افراط زر بڑھے گا، شرح مارک اپ بڑھے گی اور شرح مبادلہ میں مزید ردوبدل ہوسکتا ہے۔ پیش آمدہ یہ مصائب ان غلط فیصلوں کا نتیجہ ہوں گے جو ہم نے گذشتہ دو سال میں کئے ہیں، قطع نظر اس بحث کے کہ غلطیاں کس نے کیں اور نتائج کون بھگتے گا؟