نواز شریف اور ایون فیلڈ ریفرنس
پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد محمد نواز شریف ان دنوں اپنی اہلیہ کلثوم نواز کی علالت کے باعث لندن میں مقیم ہیں جہاں ان کی بہادر اہلیہ زندگی کی جنگ لڑرہی ہیں میاں نواز شریف نے بتایا ہے کہ کلثوم نواز کی طبیعت قدرے بہتر ہے مگر وہ خطرے سے مکمل باہر نہیں آئیں میاں نواز شریف اپنی سیاسی زندگی کی مشکل ترین اننگز کھیل رہے ہیں۔ ایک طرف ان کی اہلیہ کلثوم نواز دل کا دورہ پڑنے کے بعد ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ جب سے میاں نواز شریف لندن پہنچے ہیں، ان کی اہلیہ مسلسل بے ہوش ہیںان کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہو سکی ہے۔ دوسری طرف میاں نواز شریف پر پچھلے 8,9 ماہ سے نیب نے مقدمات کا جو بوجھ لاد رکھا ہے، وہ اسے اٹھائے لندن سے واپس آنا چاہتے ہیں لیکن ان کی واپسی کی راہ میں ان کی اہلیہ کی علالت حائل ہے۔ ڈاکٹروں نے میاں نواز شریف کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنا زیادہ وقت اپنی اہلیہ کے ساتھ گزاریں۔ میاں نواز شریف اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ساتھ صبح 9بجے ہارلے سٹریٹ کلینک چلے جاتے ہیں اور سارا دن وہیں کلثوم نواز کے ہوش میں آنے کے انتظار میں گذار دیتے ہیں۔
اگرچہ احتساب عدالت نے میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نوازکو چار روز کی حاضری کا استثناٰ دیا ہے لیکن تاحال ان کی فوری وطن واپسی کا کوئی امکان نہیں ۔ نواز شریف کے سیاسی مخالفین انسانی اخلاقیات سے اس حد تک گر گئے ہیں کہ انہیں کلثوم نواز کی علالت کو ’’سیاسی مائلیج ‘‘کے لئے استعمال کرنا نظرآرہاہے اور ان کی علالت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کر کے شریف خاندان کو مزید ’’دکھ‘‘ پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ بعض لوگ انسانی اقدار سے اس حد تک گر گئے ہیں، وہ کہہ رہے ہیں کہ بیگم کلثوم نواز اس دنیا میں نہیں رہیں اور اب شریف خاندان ان کی میت پر سیاست کر رہا ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ بیگم کلثوم نواز کی حالت انتہائی تشویش ناک ہے ان کا نظام تننفس مصنوعی طریقے سے بحال رکھا گیا ہے۔ دوسری جانب احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ، العزیزیہ سٹیل مل اور ہل میٹل ریفرنس زیر سماعت ہیں۔ احتساب عدالت نمبر1 میں شریف خاندان کے خلاف دائر ایون فیلڈ پراپرٹی ریفرنس کی سماعت ہورہی ہے۔ کچھ عناصر اس ریفرنس کا فیصلہ عام انتخابات سے پہلے کرنے کے خواہشمند ہیں جبکہ میاں نواز شریف کی طرف سے یہ استدعا کی گئی ہے کہ تینوں ریفرنسز کا فیصلہ ایک ہی دن کیا جائے‘ جسے احتساب عدالت نے مسترد کر دیا ہے اب اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی نواز شریف کی تمام ریفرنسزکا ایک ساتھ فیصلہ دینے کی درخواست خارج کر دی ہے عدالت نے یہ لکھا ہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں حتمی دلائل شروع ہونے سے اپیل غیر موثر ہو گئی ہے
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ کچھ قوتوں کو میاں نواز شریف کو انتخابات سے قبل جیل بھیجنے کی ’’جلدی‘‘ ہے۔ سیاسی و غیر سیاسی مخالفین میاں نواز شریف کو سیاسی منظر سے ہٹانے کیلئے اس حد تک بے چین دکھائی دیتے ہیں کہ وہ اب بیگم کلثوم نواز کی علالت پر بھی ’’دبی زبان ‘‘ میں تنقید کر رہے ہیں ۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث مقدمہ سے الگ ہو گئے تھے جنہیں دوبارہ دلائل دینے پر راضی کر لیا گیا انہوں نے حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا ہے ’’آپ پر بھی کیس جلد ختم کرنے کا دبائو ہے میں بھی دلائل کو طول نہیں دوں گا‘‘۔ انھوں نے کہا ہے کہ لندن فلیٹس نواز شریف کے نام نہیں، نواز شریف نے کسی چیز کی ملکیت کو تسلیم نہیں لہذا الزام ثابت کرنے کی ذمہ دار پراسیکیوشن پر عائد ہوتی ہے۔ کیس میں پہلے استغاثہ نے ثابت کرنا ہوتا ہے جسکے بعد بارِ صفائی ملزمان پر بارِ صفائی آتاہے، یہاں استغاثہ نے پہلے ہی بارِ ثبوت ملزمان پر ڈال دیا ہے، استغاثہ نے نواز شریف کی معلوم ذرائع سے آمدن کے بارے میں نہیں جانا، لندن فلیٹس کبھی نواز شریف کی ملکیت نہیں رہے، جب آمدن کے ذرائع معلوم ہی نہیں تو آمدن اور ذرائع میں تضاد کیسے معلوم ہوا۔ انھوں نے کہا کہ نواز شریف کی تو کوئی ملکیت ہی ثابت نہیں ہوئی۔ خواجہ حارث نے احتساب کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے غنی رحمان، حاکم علی زرداری، خالد رضوی کیسز کے حوالے بھی دیئے ہیں ۔ حاکم علی زرداری کیس میں سپریم کورٹ نے بار ثبوت سے متعلق چار شرائط رکھی ہیں ۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ جب جائیداد خریدی گئی، نواز شریف پبلک آفس ہولڈر تھے یا نہیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں میں لکھا ہے کہ تفتیش سے استغاثہ جب استغاثہ ثابت کر ے تو بارِ ثبوت ملزمان پر آتا ہے۔ اس کیس میں معلوم ذرائع آمدن بتائے ہی نہیں گئے۔ واجد ضیاء نے تسلیم کیا ہے کہ کوئی ایسی دستاویز نہیںجو نواز شریف کا ان کمپنیوں کے ساتھ تعلق ظاہر کرے۔ سدرہ منصور تو صرف ان دستاویزات کی ریکارڈ کیپر تھیں۔ سدرہ منصور کو کیا معلوم کہ نواز شریف کا فلیٹ سے کوئی تعلق ہے یا نہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ناقص تفتیش ہے، دستاویزات کس خط کے جواب میں آ رہی ہیں کسی کو معلوم نہیں، اسی طرح نواز شریف بے نامی دار ہوں ان کے بچے نامی دار، ایسی کوئی شہادت استغاثہ کے پاس نہیں۔ نیب کیسز میں تفتیش کی بہت بھاری ذمہ داری استغاثہ کی ہوتی ہے۔ تفتیشی افسر نے تسلیم کیا کہ وہ لندن تو گئے، تا ہم لارنس ریڈلے سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ایک آدمی کہہ رہا ہے کہ 1993 میں لندن فلیٹ کی خریداری شریف خاندان کی ہدایت پر نہیں کی، لارنس ریڈلے اتنا اہم شخص تھا اس سے پوچھا جانا چاہیے تھا کہ وہ ایسا کیوں کہہ رہا ہے۔ ایک شخص کہہ رہا ہے کہ ٹرسٹ ڈیڈ پر میرے سامنے دستخط ہوئے لیکن اسکے شہر میں جا کر اسے شامل تفتیش نہیں کیا گیا۔ خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ جے آئی ٹی سربراہ کے اخذ کئے گئے نتائج اور رائے قابل قبول شہادت نہیں ، تجزیہ کرنا واجد ضیا کانہیں بلکہ عدالت کا کام ہے ، سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو نیب اور ایف آئی اے کے اختیارات دیتے ہوئے تفتیش کرنے کا کہا تھا جبکہ کوئی نتیجہ اخذ کرنا جے آئی ٹی کا اختیار نہیں تھا،واجد ضیا نے جن گواہان کا ذکر اپنے بیان میں کیا انہیں اس عدالت میں پیش نہیں کیا گیا قانون شہادت کیمطابق ان گواہان کا خود یہاں پیش ہونا ضروری تھا واجد ضیا ان گواہان کی جگہ خود گواہی نہیں دے سکتے، جے آئی ٹی ایک تفتیشی ایجنسی تھی ، تفتیشی ایجنسی تفتیش کیلئے قانون وضع کرتی ہے کیا قابل قبول شہادت ہے کیا نہیں ،معمول کا کوئی کیس ہوتا تو معاملہ تفتیش کیلئے نیب کے سپرد کیا جانا تھا ،نیب تفتیش کرتا اور پھر ریفرنس دائر ہوتا ۔واجد ضیا جے آئی ٹی میں فلیٹس کی خریداری اور قبضے سے متعلق نواز شریف کی متفرق درخواست کہہ رہے ہیں ،جو متفرق درخواست دائر ہوئی ہے اس کا نواز شریف سے کوئی تعلق نہیں،ایک شریک ملزم کا بیان نواز شریف پر کیسے لاگو کیا جا سکتا ہے،کسی دوسرے شخص کا بیان نواز شریف کیخلاف کیسے استعمال ہو سکتا ہے؟ جو شخص ٹرائل میں شامل نہیں اس کا بیان نواز شریف کے خلاف کیسے استعمال ہو سکتا ہے؟
جس شخص نے سپریم کورٹ میں متفرق درخواست دائر کی اس کو شامل تفتیش کیا جاتا ۔جو دستاویزات سپریم کورٹ سے حاصل کی گئیں ان کی قانونی شہادت کے مطابق تصدیق نہیں کی گئی ، طارق شفیع اس کیس میں گواہ بھی نہیں ہے کسی اور کا بیان حلفی میرے موکل کے خلاف کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے،قطری شہزادے نے تین بار تصدیق کی کہ جو بات سپریم کورٹ کو کہی وہ درست ہے ، قطری شہزادے کا نوازشریف کیس سے کوئی تعلق نہیں۔ 1980کے گلف سٹیل مل کے معاہدے میں شہباز شریف خاندانی نمائندہ ہیں نواز شریف نہیں ، جے آئی ٹی کی قطری شہزادے کے ساتھ دو ماہ جاری رہنے والی خط وکتابت میں بھی نواز شریف کا کوئی ذکر نہیں۔یہ کہتے ہیں کیپٹل ایف زیڈ ای سے نواز شریف نے تنخواہ لی، اس کا ایون فیلڈ سے کیا تعلق ہے، تنخواہ وصولی کی کوئی دستاویز نہیں بلکہ اسکرین شاٹ دیا گیا، اگر تنخواہ وصول بھی کی تو اس سے ایون فیلڈ کا کیا تعلق بنتا ہے،ایون فیلڈ کی بنیاد پر یہ قرضہ لیا گیا اس میں نواز شریف کا کوئی تعلق نہیں 49دستاویزات میں ابھی تک نواز شریف کا کوئی ذکر نہیں ،جہاں ذکر ہے وہاں لکھا ہے نواز شریف کا حدیبیہ کے قرض سیٹلمنٹ اور ڈیل سے کوئی تعلق نہیں نومبر گروپ ٹرسٹ ڈیڈ مریم اور حسین نواز کے درمیان ہے اس میں کوئی تیسرا شخص نہیں، اس ٹرسٹ ڈیڈ کا بھی نواز شریف سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔،فنانشل سٹیمنٹ میں کہیں ایون پراپرٹی کاذکر نہیں ہے ان دستاویزات کا ایون فیلڈ سے کوئی تعلق نہیں،ان دستاویزات میں کہیں ایون فیلڈ کا ذکرتک نہیں ،کیپٹل ایف زیڈ ای تنخواہ 2008کا معاملہ ہے، تنخواہ وصولی کا کوئی دستاویز ی ثبوت نہیں بلکہ اسکرین شاٹ دیا گیا، اگر تنخواہ وصول بھی کی تو اس سے ایون فیلڈ کا کیا تعلق بنتا ہے، ان 81دستاویزات میں سے کوئی ایون فیلڈ سے متعلق ہے تو وہ شیری نقوی کا بیان حلفی ہے۔،شیری نقوی نے کہا نوازشریف کا حدیبیہ کے قرض اور ڈیل سے کوئی تعلق نہیں۔ اللہ تعالیٰ بیگم کلثوم نواز کو مکمل صحت یاب کرے جس کے بعد میاں نواز شریف بھی پاکستان واپس آجائیں گے ممکن ہے اس وقت تک احتساب عدالت بھی ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہو گی بہرحال احتساب عدالت کے فیصلے کے پاکستان کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک بات واضح ہے میاں نواز شریف کو جیل بھیج دیا جائے یا انہیں مقدمات میں بریت حاصل ہو جائے ان کا ملکی سیاست میں رول ختم نہیں کیا جا سکتا ان کو لوگوں کے دلوں سے نہیں نکالا جا سکتا ۔