ہائیکورٹ کا اسلام آباد کی مرکزی شاہراہ ایک ہفتے میں کھولنے کا حکم
اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز کے سامنے بند کی گئی مرکزی شاہراہ ایک ہفتے میں کھولنے کا حکم دیا ہے، عدالت نے ریمارکس میں کہا ہے کہ فوج پر بھی قانون کی پاسداری اسی طرح ضروری ہے جس طرح سویلینز پر ہے۔ 2005ءمیں جب دہشت گردی کے واقعات عام ہو رہے تھے۔ حساس ادارے نے خیابان سہروردی کے دو کلومیٹر ایریا کو عام شاہراہ کے طور پر بند کر دیا تھا۔
بلاشبہ آئین، قانون اور انصاف کی عملداری بلامتیاز ہر شخص اور ادارے پر ہونی چاہئے، کوئی مقدس گائے نہیں۔ چند برس پہلے حالات کچھ ایسے تھے کہ بعض اداروں کے دفاتر کی حفاظت کیلئے غیرمعمولی اقدامات کرنا پڑے بلکہ ان اقدامات کا دائرہ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں، ہسپتالوں، مزارات اور امام بارگاہوں تک بڑھا دیا گیا۔ ان کے گرد دیواریں بنیں اور جن اداروں کی پہلے سے ہی دیواریں تھیں انہیں مزید اونچا کر کے ان پر خاردار تار لگائے گئے۔ بعض حساس اداروں کے سامنے سے گزرنے والی دورویہ سڑکوں کو یک رویہ کر دیا گیا۔ ایسے اقدامات بلاشبہ اس وقت کی ناگزیر ضرورت تھے مگر اب جبکہ پاک فوج نے دہشت گردی کا تقریباً خاتمہ کر دیا ہے اور وزارت دفاع بھی یہی دعویٰ کرتی ہے کہ ملک سے شدت پسندی کا خاتمہ ہو گیا ہے تو فاضل عدالت کا یہ سوال برحق ہے کہ ”اب اس سڑک کو کیوں نہیں کھولا جاتا، شدت پسندی کے خلاف جنگ میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے دی گئی قربانیوں سے انکار ممکن نہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرنا عدالت کی بھی ذمہ داری ہے لہٰذا اب اس شاہراہ کو سکیورٹی کے نام پر مزید بند نہیں رہنے دیا جائے گا“۔ دہشت گردی کے خاتمے کے بعد اب حفاظتی اقدامات کے نام پر سڑکیں بند کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کی روشنی میں ملک کے دیگر شہروں اور قصبوں میں بھی اس قسم کی رکاوٹیں ہٹا دی جانی چاہئیں۔ ویسے بھی ایسی رکاوٹیں اور حفاظتی اقدامات نفسیاتی طور پر منفی اثرات پیدا کر رہے ہیں کیونکہ عام شہری انہیں دیکھ کر اب بھی خود کو خوف و ہراس کی فضا میں پاتے ہیں۔