ایمنسٹی سکیم کے حوصلہ افزا نتائج
ایک اخباری رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے آخری دنوں میں جاری کی گئی ایمنسٹی سکیم کامیاب جارہی ہے۔ ریونیو بورڈ کے بااعتماد ذرائع کے مطابق اس سکیم کے باعث 21 جون تک ٹیکسوں کی مد میں 21‘ ارب ڈالر جمع کئے جاچکے ہیں۔ قانون کے مطابق ایمنسٹی سکیم کی آخری تاریخ 30 جون ہے اور اس میں توسیع نہیں کی جائیگی۔ جمع شدہ رقم میں سے 5‘ ارب ڈالر بنکوں میں جمع ہوچکے ہیں اور 16‘ ارب ڈالر فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) کے آن لائن سسٹم میں ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بعض حلقوں کی جانب سے تاریخ میں توسیع کے حکومت پر دباﺅ بڑھ رہا ہے۔
جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے آخری ایام میں اس سکیم کا اعلان ہوا تو مخالفین کی طرف سے کہا گیا کہ حکومت ناکامی کے داغ سے بچنے کی خاطر ہاتھ پاﺅں مار رہی ہے۔ یہاں تک کہا گیا کہ حکومت نے بعض سرمایہ داروں کے اثاثوں اور لوٹے ہوئے کالے دھن کو سفید کرنے کیلئے یہ سکیم جاری کی ہے۔ لیکن اب جو باوثوق اطلاعات مل رہی ہیں اور پریس کے ایک حصے میں شائع ہوئی ہیں تو یہ سکیم معجز نما معلوم ہوتی ہے۔ سابق حکومت کی مالیاتی پالیسیاں اگر بروئے کار آنے کی راہ میں رکاوٹیں نہ کھڑی کی جاتیں تو ملک کی معیشت کا یہ حال نہ ہوتا کہ گزشتہ دنوں بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی موڈیز کو پاکستان کی رینکنگ کو ایک حصہ کم کرکے B-3 ڈکلیئر نہ کرنا پڑتا۔ موڈیز نے اپنی ریٹنگ کی بنیاد اس دعوے پر قائم کی کہ پاکستان کا آﺅٹ لک جو مستحکم تھا‘ وہ اب منفی ہوگیا۔ بہرکیف ایمنسٹی سکیم کی یہ کامیابی مایوسی کی فضا میں بڑی حوصلہ افزا ہے اور مسلم لیگ (ن) کے مخالفین اور ناقدین کیلئے خفت کا باعث بھی۔ تعجب ہے کہ اسکے باوجود سٹیٹ بنک ان اعدادو شمار کا ذکر کرنے کی بجائے معیشت کے بارے میں منفی رپورٹیں جاری کررہا ہے۔ گزشتہ روز سٹیٹ بنک نے سپریم کورٹ میں ایک رپورٹ جمع کرائی جس میں کہا گیا ہے کہ 2016-17ءکے مالی سال کے دوران پاکستان سے خفیہ ہنڈی اور حوالہ کے ذریعے 15‘ ارب 25 کروڑ ڈالر غیرقانونی طور پر باہر بھیجے گئے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بعض عناصر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کی معیشت کے بارے میں منفی اور مایوس کن خبریں پھیلا رہے ہیں۔ یہ تاثر دینے کیلئے کہ (ن) لیگ کی قیادت ملک کو معاشی طور پر دیوالیہ کرگئی ہے۔ یہ عناصر مسلم لیگ (ن) کی کامیاب مالیاتی پالیسیوں پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ پارلمینٹ کی عدم موجودگی کے باعث ایمنسٹی سکیم میں دی گئی 30 جون کی آخری تاریخ میں توسیع نہیں ہوسکتی لیکن یہ کام صدارتی آرڈی نینس سے بھی لیا جا سکتا ہے۔ باخبر ماہرین معاشیات کے مطابق اگر اس سکیم کو مزید کچھ عرصہ تک جاری رکھا جاسکے تو قومی خزانے میں ایک سو ارب ڈالر آسکتے ہیں۔