بھارتی الزامات پر معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہ کریں اور کشمیریوں کی جدوجہد کا کھل کر ساتھ دیں
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت کی انتہائ۔ مزید پانچ شہادتیں اور کشمیریوں کی جانب سے سخت مزاحمت
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے ضلع اسلام آباد کے علاقے سری کنوارہ میں محاصرے کے دوران شہریوں کی جامہ تلاشی کے وقت ایک گھر پر اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں گھر کا مالک محمدیوسف راتھر شہید ہوگیا جبکہ اسکی اہلیہ شدید زخمی ہوئی۔ اسی طرح بھارتی فوجیوں نے اپریشن کے دوران چار دوسرے نوجوانوں کو بھی شہید کیا اور ایک رہائشی مکان کو مکمل طور پر تباہ کردیا۔ بھارتی فوج کے اپریشن اور شہریوں کے قتل کیخلاف علاقے میں زبردست احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔ بھارتی فوجیوں کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پیلٹ گنوں اور آنسو گیس کے شیلوں کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ اس دوران فورسز اہلکاروں اور مظاہرین کے مابین شدید جھڑپیں ہوئیں جن کے باعث بیسیوں افرا زخمی ہوگئے۔ قابض انتظامیہ نے لوگوں کو تازہ ترین صورتحال جاننے سے روکنے کیلئے ضلع اسلام آباد میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل کردی ہے اور سری نگر شہر میں سکیورٹی اقدامات سخت کرتے ہوئے گاڑیوں اور راہگیروں کی تلاشیوں کا سلسلہ تیز کردیا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی پولیس اور سنٹرل ریزرو پولیس فورس نے سری نگر میں لال چوک‘ سول لائنز‘ مولانا آزاد روڈ اور دیگر کئی مقامات پر چوکیاں قائم کردی ہیں جہاں راہگیروں اور مسافروں کی جامہ تلاشی کے علاوہ انکے شناختی کارڈ بھی چیک کئے جارہے ہیں جس کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ بھارتی فوج اور پولیس نے شہر کے حساس مقامات پر گشت بھی بڑھا دیا ہے جبکہ شہر کے مختلف علاقوں اور بالخصوص داخلی راستوں کو سیل کردیا گیا ہے اور رکاوٹیں کھڑی کرکے گاڑیوں کو بھی روکا جارہا ہے۔ تحریک حریت جموں و کشمیر نے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کے دیگر عالمی اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ تہاڑ جیل میں نظربند کئے گئے تحریک کے ساتھیوں کی رہائی کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ نے اپنے پارٹی چیئرمین یٰسین ملک کی گرفتاری اور انہیں کوٹھی باغ پولیس سٹیشن منتقل کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔ فرنٹ کے ترجمان نے سری نگر میں جاری کئے گئے اپنے بیان میں کہا کہ پرامن مزاحمت اور جدوجہد ہر صورت جاری رہے گی اور تمام تر بھارتی مظالم کا مردانہ وار مقابلہ کیا جائیگا۔
مقبوضہ کشمیر میں محبوبہ مفتی کی کٹھ پتلی حکومت کے خاتمہ اور گورنر راج کے نفاذ کے بعد جس وحشیانہ انداز میں کشمیریوں پر ریاستی تشدد و دہشت گردی کا آغاز کیا گیا ہے وہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے دنیا بھر میں گونجنے والی آوازوں پر بھارتی ہذیانی کیفیت کی عکاسی کرتا ہے۔ ویسے تو کشمیری عوام انتہاءپسند مودی سرکار کے قیام کے آغاز ہی سے ریاستی جبروتشدد کی زد میں آئے ہوئے ہیں تاہم گزشتہ دو سال سے اور بالخصوص گزشتہ دو ہفتوں سے بھارتی فوج نے جنونی کیفیت میں کشمیری عوام کی تکہ بوٹی کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے جس میں انسانی حقوق کی پاسداری کا کہیں کوئی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ آج کشمیری عوام اسی طرح بھارتی فوجوں کی بربریت کا سامنا کررہے ہیں جس طرح مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیل کیلئے امریکی سفارتخانہ کی منتقلی کیخلاف پرامن مظاہرے کیلئے سڑکوں پر آنیوالے فلسطینی عوام کو اسرائیلی فوجوں کی بربریت کا سامنا ہے۔ وہاں بھی شرف انسانیت کی تمام قدروں کو ملیامیٹ کرتے ہوئے فلسطینیوں کو بے دردی کے ساتھ گولیوں سے بھونا جارہا ہے اور ان کا بے دریغ قتل عام کیا جارہا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج اسرائیلی ساختہ پیلٹ گنوں سے کشمیری عوام کا پوری وحشت و بربریت کے ساتھ قتل عام کررہی ہیں۔ اسرائیلی اور بھارتی فوجوں کے ایسے ننگِ انسانیت اقدامات اور بربریت کا مقصد درحقیقت مشترکہ ہے جو اسرائیل اور بھارت سے آزادی کیلئے فلسطین اور مقبوضہ کشمیر میں بلند ہونیوالی آزادی کی آوازوں کو دبانے اور انہیں مستقل طور پر خاموش کرنے کا ہے۔ سوئے اتفاق کہ کشمیر اور فلسطین کی آزادی کی تحریکوں کا دورانیہ بھی ایک دوسرے کے مساوی ہے اور ان پر ریاستی ظلم و جبر کی تاریخ بھی ایک جیسی ہے جبکہ ریاستی جبر کی انتہاءکے باعث یہ دونوں تحریکیں اقوام عالم کی توجہ کا مرکز بننے کے باعث اب کامیابی سے ہمکنار ہوتی نظر آرہی ہیں۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ آزادی کی ان دونوں تحریکوں کو ریاستی جبر کے ذریعہ دبانے کی ناکام کوشش کرنیوالے اسرائیل اور بھارت کو اس معاملہ میں امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ کی مکمل حمایت اور سرپرستی حاصل ہے جبکہ ٹرمپ انتظامیہ کی دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کی سوچ پر مبنی پالیسیاں بذات خود علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے سنگین خطرات پیدا کررہی ہیں چنانچہ آج امریکہ‘ بھارت اسرائیل کی شکل میں ہنود و یہود و نصاریٰ کا گٹھ جوڑ ایک ایسے فتنے کی بنیاد رکھتا نظر آرہا ہے جو اس کرہ¿ ارض کی تباہی پر منتج ہو سکتا ہے۔
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے دوسرے عالمی اداروں کو یقیناً اس سنگین صورتحال کا احساس و ادراک ہے اس لئے آج اقوام متحدہ کی جانب سے بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اور فلسطین میں اسرائیلی فوجوں کے انسانیت کش مظالم کو اجاگر کرکے عالمی قیادتوں کی توجہ اس جانب مبذول کرائی جارہی ہے اور اسی طرح ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ ہیومن رائٹس واچ اور انسانی حقوق کی دوسری عالمی‘ علاقائی اور مقامی تنظیموں کی جانب سے بھی بھارتی اور اسرائیلی فوجوں کی بربریت کیخلاف آواز بلند کی جارہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تو ایمنسٹی انٹرنیشنل کا ایک وفد اپنے سروے کے دوران بھارتی فوجوں کے تشدد سے شہید ہونیوالے کشمیریوں کی اجتماعی قبریں بھی دریافت کرچکا ہے جس کے بارے میں جاری ہونیوالی ایمنسٹی کی رپورٹ پر دنیا سکتے میں آگئی تھی۔
آج بھی بھارتی فوج اور پیراملٹری فورسز مقبوضہ کشمیر میں جس بربریت کا مظاہرہ کررہی ہیں اسکی داستانیں بھی تاریخ کے اوراق میں خون سے لکھی گئی تحریروں کی صورت میں محفوظ ہو جائیں گی جس پر انسانیت کے شرمسار ہونے کا ہی اہتمام ہوگا۔ آج بھارت کی مودی سرکار مسئلہ کشمیر کو دبانے اور کشمیر پر اپنی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی تسلیم کرانے کیلئے جس ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے اور بے باک کشمیری صحافی شجاعت بخاری کی شہادت سے محبوبہ مفتی کی حکومت کے خاتمہ اور مقبوضہ کشمیر میں گورنر راج کے نفاذ تک گزشتہ ڈیڑھ دو ہفتے میں بھارت نے جس انداز میں وحشت و بربریت کی انتہاءکی ہے‘ اسکے پیش نظر ہمیں بہرصورت فکرمند ہونا چاہیے کیونکہ بھارتی توسیع پسندانہ عزائم صرف مقبوضہ کشمیر تک محدود نہیں رہے بلکہ وہ پاکستان سے ملحقہ آزاد جموں و کشمیر اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات تک کو اپنی دستبرد میں لانے کی فکر میں غلطاں نظر آتا ہے جس کیلئے نریندر مودی اور سشماسوراج ہی نہیں‘ بھارتی آرمی چیف بپن راوت بھی بڑ مارتے نظر آتے ہیں اس لئے ہمیں بھارتی عزائم سے غافل ہرگز نہیں رہنا چاہیے۔
کشمیری عوام تو اپنی صبر آزما جدوجہد میں بے بہا قربانیوں کے باعث آزادی کی منزل سے ہمکنار ہوتے نظر آتے ہیں چنانچہ ہمارے لئے تاریخ رقم کرنے کا یہی اہم مرحلہ ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد کو ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کی جدوجہد کے ساتھ ہی ہمکنار رکھا جائے۔ اس کیلئے ہمیں ہر علاقائی اور عالمی فورم پر کشمیریوں کا دم بھرنا ہے اور انکے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونا ہے۔ بھارت اگر جہاد کشمیر کو دہشت گردی کے کھاتے میں ڈلوانے کے درپے ہے تو ہمیں جہاد کشمیر میں اپنے کردار کے حوالے سے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ ہمیں مو¿ثر سفارتکاری کے ذریعے عالمی قیادتوں کو اس امر پر قائل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ آزادی کی تحریک کا دہشت گردی سے ہرگز ناطہ نہیں جوڑا جا سکتا جبکہ دہشت گردوں کا سرپرست خود بھارت ہے جو بھارتی اقلیتوں کو بھی اپنی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا رہا ہے اور پاکستان کی سلامتی کو بھی دہشت گردی کی وارداتوں سے کمزور کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے۔ آج دنیا کو خود بھی بھارت کے توسیع پسندانہ جنونی عزائم سے خطرہ لاحق ہے اس لئے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھارت پر عالمی دباﺅ بڑھانے کا یہی موقع ہے جسے کسی صورت ضائع نہیں جانے دینا چاہیے۔