میرے سامنے 21 اور 22 جون کے حوالے سے خادم پنجاب کی ذاتی توجہ کیلئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اسلام آباد میں نیشنل ایجوکیشن فاﺅنڈیشن (وفاقی حکومت) کے تحت ملک بھر میں 15 ہزار بیسک ایجوکیشن کمیونٹی سکولز جن میں 6 ہزار 200 سکولز اور ان میں زیر تعلیم ڈھائی لاکھ سے زیادہ بچے 30 جون کے بعد Devolution کی پالیسی کے باعث وفاقی حکومت کی طرف سے ختم کر دیئے جائیں گے۔ اور اس مجوزہ بندش کے خلاف متعلقہ اساتذہ اور بچے گزشتہ 3 دن سے اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے احتجاجی دھرنا لگائے وفاقی حکومت سے انصاف طلب کر رہے ہیں۔ بعض سیاسی پارٹیاں شعبہ تعلیم کی اس زبوں حالی اور لاکھوں بچوں کی 30 جون کے بعد حصول تعلیم سے محرومی کو بھی حکومت کے خلاف سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے گریز نہیں کر رہے۔ تحریک انصاف کے مرکزی میڈیا سیل سے جاری عمران خان کے میڈیا ایڈوائزر نے اعلان کیا ہے کہ تحریک انصاف ”حکومت ہٹاﺅ ملک بچاﺅ“ تحریک کا آغاز 25 جون کو ملتان میں ایک جلسہ عام کے انعقاد سے کر رہی ہے۔ جو حکومت کے خاتمے میں سنگ میل ثابت ہو گا۔ دریں اثناءپارٹی کے چیئرمین عمران خان نے پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے ملک بھر کے غیر رسمی سکولوں کی بندش کے خلاف خواتین اور اساتذہ کے احتجاجی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام پر 70 ارب روپے خرچ کرنے والے حکمران بیسک ایجوکیشن کمیونٹی سکولز کے لاکھوں بچوں کی تعلیم جاری رکھنے کیلئے محض ایک ارب روپے مختص کرنے کیلئے کیوں گریزاں ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ کرپٹ حکمرانوں نے لاکھوں بچوں کا تعلیمی مستقبل داﺅ پر لگا دیا ہے۔
راقم کی اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت Devolution کے تحت بیسک ایجوکیشن کمیونٹی سکولز کے اساتذہ کی گزشتہ ایک سال سے ادا نہ کی گئی تنخواہوں کا حساب کتاب 30 جون تک ادا کرنے کے وعدہ کے بعد صوبائی حکومتوں پر یہ الزام عائد کرنے والی ہے کہ وہ یکم جولائی سے ان ہزاروں سکولوں اور لاکھوں طالب علموں کی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے سے کیوں گریزاں ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ برس این ایف سی ایوارڈ کے تحت مرکزی حکومت اور تمام صوبائی حکومتوں میں یہ طے پایا تھا کہ 30 جون کو Devolution کے تحت مجوزہ سکولوں کا تعلیمی پروگرام صوبائی حکومتوں کے تحت جاری رکھنے کیلئے وفاقی حکومت تین سال کے مجوزہ پراجیکٹس کی Financial سپورٹ صوبائی حکومتوں کو جاری و ساری رکھے گی۔ جس سے وعدہ خلافی کرتے ہوئے ان سکولوں کے جاری نہ رکھنے کا الزام صوبائی حکومتوں کے سر تھوپا جا رہاہے جو سراسر نا انصافی اور دیہاتی علاقوں میں صوبائی حکومتوں کے خلاف مایوسی پیدا کر کے نہ صرف متعلقہ ٹیچرز اور انکے خاندانوں بلکہ عوامی سطح پر ٹیچرز کو ملازمت سے علیحدہ کر کے بدامنی پھیلانے کے علاوہ ووٹروں میں صوبائی حکومتوں اور خاص طور پر سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں عوامی مایوسی کو ہوا دینا ہے۔
خادم پنجاب نے گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے شعبہ تعلیم کے فروغ کیلئے ہر لیول پر جو بے مثال انقلابی اقدامات کئے ہیں اور دیہات میں سرکاری سکولوں کے علاوہ بیسک ایجوکیشن کمیونٹی سکولز جو اکثر و بیشتر پسماندہ علاقوں میں واقعہ ہیں اور جہاں قرب و جوار میں کوئی سرکاری سکول نہیں ہیں وہاں لٹریسی ڈیپارٹمنٹ کے تحت نہ صرف بچوں بلکہ بڑی عمر کی عورتوں کیلئے اڈلٹ ایجوکیشن کے ایسے انقلابی پراجیکٹس کا ایک انوکھا اور کامیاب ووکیشنل ٹریننگ کا وسیع نیٹ ورک قائم کرنے کا آغاز کیا ہے جس کے ذریعے خواندگی کے ساتھ ساتھ مائیں اور بہنیں سلائی‘ کڑھائی اور ایسے دیگر ہنر حاصل کر کے تین چار سو روپے روزانہ کما کر سماج کی بہتری کی طرف مثالی اقدامات کا آغاز کیا ہے۔ خادم پنجاب سے میری گذارش ہے کہ وہ اس انقلابی پروگرام کو بند کرنے کی بجائے پنجاب کے ان لاکھوں بیسک ایجوکیشن کمیونٹی سکولز کے بچوں کے سر پر اپنی شفقت کا ہاتھ رکھیں۔ اور وفاقی حکومت کو نیشنل Financial ایوارڈ کے عہدنامہ پر In letter and spirit عملدرآمد پر آمادہ کرتے ہوئے پنجاب کے دور افتادہ دیہات میں لاکھوں بچوں اور اڈلٹ ایجوکیشن کے ذریعے ووکیشنل ٹریننگ حاصل کرنے والی خواتین کے مستقبل کو جہالت کے اندھیروں سے بچا کر علم اور امید کی روشنی سے منور کرتے ہوئے ثواب داریں حاصل کریں۔ جس سے آپ کا خادم پنجاب ہونے کا لقب مزید رخشاں و تاباں ہو گا۔
راقم کی اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت Devolution کے تحت بیسک ایجوکیشن کمیونٹی سکولز کے اساتذہ کی گزشتہ ایک سال سے ادا نہ کی گئی تنخواہوں کا حساب کتاب 30 جون تک ادا کرنے کے وعدہ کے بعد صوبائی حکومتوں پر یہ الزام عائد کرنے والی ہے کہ وہ یکم جولائی سے ان ہزاروں سکولوں اور لاکھوں طالب علموں کی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے سے کیوں گریزاں ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ برس این ایف سی ایوارڈ کے تحت مرکزی حکومت اور تمام صوبائی حکومتوں میں یہ طے پایا تھا کہ 30 جون کو Devolution کے تحت مجوزہ سکولوں کا تعلیمی پروگرام صوبائی حکومتوں کے تحت جاری رکھنے کیلئے وفاقی حکومت تین سال کے مجوزہ پراجیکٹس کی Financial سپورٹ صوبائی حکومتوں کو جاری و ساری رکھے گی۔ جس سے وعدہ خلافی کرتے ہوئے ان سکولوں کے جاری نہ رکھنے کا الزام صوبائی حکومتوں کے سر تھوپا جا رہاہے جو سراسر نا انصافی اور دیہاتی علاقوں میں صوبائی حکومتوں کے خلاف مایوسی پیدا کر کے نہ صرف متعلقہ ٹیچرز اور انکے خاندانوں بلکہ عوامی سطح پر ٹیچرز کو ملازمت سے علیحدہ کر کے بدامنی پھیلانے کے علاوہ ووٹروں میں صوبائی حکومتوں اور خاص طور پر سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں عوامی مایوسی کو ہوا دینا ہے۔
خادم پنجاب نے گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے شعبہ تعلیم کے فروغ کیلئے ہر لیول پر جو بے مثال انقلابی اقدامات کئے ہیں اور دیہات میں سرکاری سکولوں کے علاوہ بیسک ایجوکیشن کمیونٹی سکولز جو اکثر و بیشتر پسماندہ علاقوں میں واقعہ ہیں اور جہاں قرب و جوار میں کوئی سرکاری سکول نہیں ہیں وہاں لٹریسی ڈیپارٹمنٹ کے تحت نہ صرف بچوں بلکہ بڑی عمر کی عورتوں کیلئے اڈلٹ ایجوکیشن کے ایسے انقلابی پراجیکٹس کا ایک انوکھا اور کامیاب ووکیشنل ٹریننگ کا وسیع نیٹ ورک قائم کرنے کا آغاز کیا ہے جس کے ذریعے خواندگی کے ساتھ ساتھ مائیں اور بہنیں سلائی‘ کڑھائی اور ایسے دیگر ہنر حاصل کر کے تین چار سو روپے روزانہ کما کر سماج کی بہتری کی طرف مثالی اقدامات کا آغاز کیا ہے۔ خادم پنجاب سے میری گذارش ہے کہ وہ اس انقلابی پروگرام کو بند کرنے کی بجائے پنجاب کے ان لاکھوں بیسک ایجوکیشن کمیونٹی سکولز کے بچوں کے سر پر اپنی شفقت کا ہاتھ رکھیں۔ اور وفاقی حکومت کو نیشنل Financial ایوارڈ کے عہدنامہ پر In letter and spirit عملدرآمد پر آمادہ کرتے ہوئے پنجاب کے دور افتادہ دیہات میں لاکھوں بچوں اور اڈلٹ ایجوکیشن کے ذریعے ووکیشنل ٹریننگ حاصل کرنے والی خواتین کے مستقبل کو جہالت کے اندھیروں سے بچا کر علم اور امید کی روشنی سے منور کرتے ہوئے ثواب داریں حاصل کریں۔ جس سے آپ کا خادم پنجاب ہونے کا لقب مزید رخشاں و تاباں ہو گا۔