ملک ریاض احمد
معاملہ ناموس رسالت کا ہو، کشمیر کا یا ریمنڈ ڈیوس کا امریکہ کی مداخلت بے جا نظر آتی ہے اور اگر وہ خود پاکستان مخالفت بیان نہیں دیتا تو دوسرے مغربی لیڈروں کو بیان دینے کے لیے آمادہ کرتا ہے۔ اس دفعہ امریکہ نے پوپ سے بیان دلوایا ہے کہ ناموس رسالت کا قانون نہ صرف ختم کریں بلکہ اقلیت کو خوف کے ماحول سے نکالیں۔ جنوری میں یہ خبر پاکستانی اخباروں میں گردش کرتی رہی کہ طالبان اور بلوچ قوم پرست لیڈروں کے لئے امریکہ کو تشویش ہوئی ہے۔ میں بے وقوف امریکی لیڈر شپ سے سوال کرتا ہوں کہ چیچنیا جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ ایک دفعہ آزاد ملک بن گیا تھا مگر اس کے لیڈر دادیوف کو موت کے گھاٹ اتار کے روس نے دوبارہ قبضہ کر لیا۔ یہ بھی امریکہ کی منشاءکے عین مطابق تھا۔ وہاں روس نے امریکہ کے مشورہ سے اپنی فوج تعینات کر دی۔
امریکہ برداشت ہی نہیں کر سکتا کہ دنیا کے نقشہ پر کوئی نیا ملک جہاں مسلمان رہتے ہوں، وجود میں آئے۔ سوویت یونین سے 9 مسلمان ملک آزاد ہوئے مگر امریکہ کی ایڈوائس پر وہاں اپنی افواج تعینات کی ہوئی ہیں۔ کیا تُک ہے کہ آزاد ممالک میں غیر ملکی افواج کا عمل دخل ہو، اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ ان آزاد شدہ ممالک کے ساتھ دوسرے اسلامی ممالک سے روابط استوار نہ ہوں۔ جنوری کے مہینہ میں ہی امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس چین کا دورہ فرما رہے تھے۔ چین کو سمجھانے گئے تھے کہ پاکستان تیزی کے ساتھ ایٹمی ہتھیار حاصل کر رہا ہے اور خود بھی تیار کر رہا ہے۔ مگر چینی لیڈر شپ نے رابرٹ گیٹس کی باتوں کو مسترد کر دیا، اس لئے اس کا دورہ ناکام ہو گیا۔ حال ہی میں امریکی سفیر نے کشمیر کے متعلق جو بیان دیا ہے، وہ اس لیے کہ چین اب دونوں ممالک ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے معاملہ پر دلچسپی لے رہا ہے۔ امریکہ کے نزدیک یہ بات ناقابل قبول کہ چین اس معاملہ میں مداخلت کرے۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ سعودی عرب، کویت، ایران، ترکی، پاکستان، انڈونیشیا، برونائی، ملائشیا ہر لحاظ سے طاقتور ممالک ہیں۔ ان کے حکمران امریکہ سے سوال کر سکتے ہیں کہ جناب آپ جنوبی سوڈان کو آزاد کروا کر کیا معرکہ سر انجام دینا چاہتے ہیں۔ آپ نے انڈونیشیا سے ایسٹ تیمور آزاد کروایا، افغانستان اور عراق پر زبردستی قبضہ کیا، اب سوڈان سے علاقہ آزاد کروا کے عیسائی مملکت قائم کرنا چاہتے ہیں کیوں؟کسووہ کو آزادی دے کر اپنا قانون نافذ کر دیا ہے اور وہاں مستقل فوجی اڈا قائم کر دیا ہے۔ مسلمان حکمران اتنے بے بس نہیں ہیں کہ امریکہ کو لگام نہ دے سکیں۔ ضرورت صرف اسلامی ممالک کے متحد ہونے کی ہے۔
معاملہ ناموس رسالت کا ہو، کشمیر کا یا ریمنڈ ڈیوس کا امریکہ کی مداخلت بے جا نظر آتی ہے اور اگر وہ خود پاکستان مخالفت بیان نہیں دیتا تو دوسرے مغربی لیڈروں کو بیان دینے کے لیے آمادہ کرتا ہے۔ اس دفعہ امریکہ نے پوپ سے بیان دلوایا ہے کہ ناموس رسالت کا قانون نہ صرف ختم کریں بلکہ اقلیت کو خوف کے ماحول سے نکالیں۔ جنوری میں یہ خبر پاکستانی اخباروں میں گردش کرتی رہی کہ طالبان اور بلوچ قوم پرست لیڈروں کے لئے امریکہ کو تشویش ہوئی ہے۔ میں بے وقوف امریکی لیڈر شپ سے سوال کرتا ہوں کہ چیچنیا جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ ایک دفعہ آزاد ملک بن گیا تھا مگر اس کے لیڈر دادیوف کو موت کے گھاٹ اتار کے روس نے دوبارہ قبضہ کر لیا۔ یہ بھی امریکہ کی منشاءکے عین مطابق تھا۔ وہاں روس نے امریکہ کے مشورہ سے اپنی فوج تعینات کر دی۔
امریکہ برداشت ہی نہیں کر سکتا کہ دنیا کے نقشہ پر کوئی نیا ملک جہاں مسلمان رہتے ہوں، وجود میں آئے۔ سوویت یونین سے 9 مسلمان ملک آزاد ہوئے مگر امریکہ کی ایڈوائس پر وہاں اپنی افواج تعینات کی ہوئی ہیں۔ کیا تُک ہے کہ آزاد ممالک میں غیر ملکی افواج کا عمل دخل ہو، اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ ان آزاد شدہ ممالک کے ساتھ دوسرے اسلامی ممالک سے روابط استوار نہ ہوں۔ جنوری کے مہینہ میں ہی امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس چین کا دورہ فرما رہے تھے۔ چین کو سمجھانے گئے تھے کہ پاکستان تیزی کے ساتھ ایٹمی ہتھیار حاصل کر رہا ہے اور خود بھی تیار کر رہا ہے۔ مگر چینی لیڈر شپ نے رابرٹ گیٹس کی باتوں کو مسترد کر دیا، اس لئے اس کا دورہ ناکام ہو گیا۔ حال ہی میں امریکی سفیر نے کشمیر کے متعلق جو بیان دیا ہے، وہ اس لیے کہ چین اب دونوں ممالک ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے معاملہ پر دلچسپی لے رہا ہے۔ امریکہ کے نزدیک یہ بات ناقابل قبول کہ چین اس معاملہ میں مداخلت کرے۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ سعودی عرب، کویت، ایران، ترکی، پاکستان، انڈونیشیا، برونائی، ملائشیا ہر لحاظ سے طاقتور ممالک ہیں۔ ان کے حکمران امریکہ سے سوال کر سکتے ہیں کہ جناب آپ جنوبی سوڈان کو آزاد کروا کر کیا معرکہ سر انجام دینا چاہتے ہیں۔ آپ نے انڈونیشیا سے ایسٹ تیمور آزاد کروایا، افغانستان اور عراق پر زبردستی قبضہ کیا، اب سوڈان سے علاقہ آزاد کروا کے عیسائی مملکت قائم کرنا چاہتے ہیں کیوں؟کسووہ کو آزادی دے کر اپنا قانون نافذ کر دیا ہے اور وہاں مستقل فوجی اڈا قائم کر دیا ہے۔ مسلمان حکمران اتنے بے بس نہیں ہیں کہ امریکہ کو لگام نہ دے سکیں۔ ضرورت صرف اسلامی ممالک کے متحد ہونے کی ہے۔