جدید فلاحی ریاست کی تشکیل

مورخ مفکر اور دانشور متفق ہیں کہ پاکستان کے قیام کا مقصد ایک جدید فلاحی ریاست قائم کرنا تھا جس میں بلا تفریق بلا امتیاز ہر شہری کو سماجی انصاف اور مساوی مواقع حاصل ہو سکیں- جو ہندووں کی بالادستی میں ممکن نہیں تھے-پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح اور قومی شاعر علامہ محمد اقبال اپنے خطبات میں فلاحی ریاست کی تعبیر اور تشریح بیان کرتے رہے - 1948ءمیں صحت کی خرابی کے باوجود قائد اعظم زیارت سے کراچی پہنچے اور سٹیٹ بینک کی بلڈنگ کا افتتاح کرتے ہوئے انہوں نے اپنے صدارتی خطبے میں فرمایا کہ دنیا میں دو نظام رائج ہیں ایک کیمونزم ہے اور دوسرا کیپیٹلزم۔ یعنی سرمایہ دارانہ نظام پاکستان کے عوام کے لیے۔ یہ دونوں نظام موزوں نہیں ہیں-یہ نظام پاکستان کو فلاحی ریاست نہیں بنا سکتے اور نہ ہی عوام کے بنیادی مسائل حل کر سکتے ہیں-ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا اور دنیا کے سامنے ایک اقتصادی ماڈل پیش کرنا ہوگا جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچے تصور پر رکھی گئی ہو اس طرح سے ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا مقصد پورا کر سکیں گے اور بنی نوع انسان تک پیغام امن پہنچا سکیں گے- ہم دنیا کے سامنے انصاف اور فلاح پر مبنی سیاسی و معاشی ماڈل پیش کر سکیں گے جو انسانیت کو فلاح و بہبود مسرت و شادمانی سے ہمکنار کر سکتا ہو-قائد اعظم چاہتے تھے کہ پاکستان میں جو بھی سیاسی معاشی عدالتی انتظامی نظام تشکیل دیے جائیں ان کی اساس اسلام کے سنہری اصولوں یعنی امانت دیانت صداقت مساوات احتساب انصاف اور برداشت پر رکھی جائے- پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ قائد اعظم کے بعد آنے والے حکمرانوں نے پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی۔ اگر کسی نے کوشش کی تو اسے امریکہ برطانیہ اور ان کے پاکستانی سہولت کاروں نے ناکام بنا دیا- جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج کا پاکستان ہر حوالے سے زوال پذیر ہے- آج بھی پاکستان ایک سکیورٹی سٹیٹ ہے۔ سب سے زیادہ اخراجات سیکورٹی پر کیے جا رہے ہیں۔ عوام کی ترقی اور فلاح پر بہت کم اخرجات ہو رہے ہیں جس کا واحد مقصد یہ ہے کہ پاکستان بدستور سکیورٹی سٹیٹ رہے اور سامراجی مفادات کا تحفظ کرے- اس زوال کو ایک ہی طریقے سے روکا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو اسلام کے سنہری اصولوں اور قائد اعظم و علامہ اقبال کے تصورات کے مطابق ایک حقیقی اور جدید فلاحی ریاست بنا دیا جائے ۔ انجینئر ارشد نعیم چوہدری پاکستان کے محب الوطن دانشور ہیں اور وہ پاکستان کے سیاسی معاشی سماجی مسائل پر غور و فکر کرتے رہتے ہیں- انہوں نے”پاکستان فلاحی ریاست “کے نام سے ایک منفرد اور مستند کتاب مرتب کی ہے جس میں انہوں نے جدید فلاحی ریاست کے خد و خال بیان کر دیے ہیں-انہوں نے اپنی کتاب میں قرآن، سیرت مسلمان مفکرین، قائد اعظم کے تصورات اور علامہ اقبال کے اشعار کے حوالے دیے ہیں-انہوں نے اپنی کتاب میں عظیم مجدد حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کی شہرہ آفاق کتاب ”حجتہ البالغہ“ کا ایک حوالہ پیش کیا ہے جو آج کے پاکستان پر پوری طرح صادق اتا ہے- وہ لکھتے ہیں "دین اسلام انسانی معاشرے کی بنیاد عدل و انصاف پر اس لیے قائم کرنا چاہتا ہے کہ عدل و انصاف کا نظام ہی انسان کے بنیادی حقوق اور واجبات کا حکم دیتا ہے لیکن اس کے برعکس جب کبھی کوئی جابرانہ اور ظالمانہ نظام قائم ہو جائے تو اس کے نتیجے میں ایک استحصالی طبقہ اوپر آ جاتا ہے اور پھر انسانوں کی کثیر آبادی بالکل حیوانوں کی زندگی بسر کرنے پر ہمیشہ کے لیے مجبور ہو جاتی ہے- کیونکہ اسے دو وقت کی روٹی کمانے میں ہی صبح شام مصروف کر دیا جاتا ہے اور اسے پھر فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ اپنے حقیقی خالق و مالک اور رازق کے بارے میں بھی سوچ سکے یا کسی اعلیٰ فکر کی طرف متوجہ ہو سکے-“ انجینئرارشد نعیم چوہدری کی رائے میں سوچ کا دھارا ایک بہتا ہوا دریا ہے اور اس دریا کو بہتے ہی رہنا چاہیے کیونکہ سوچ کا دھارا بند گلی میں داخل کرنے والے معاشرے ہمیشہ کے لیے تباہ ہو جاتے ہیں- عمومی طور پر سوچ کسی بھی معاشرے کے رسم و رواج عادات و اطوار سے ہی پروان چڑھتی ہے جو ان کی ثقافتی اور معاشرتی زندگی کی عکاس ہوتی ہے- دو تہذیبوں مشرق و مغرب کے ٹکراو سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے مرکز اور محور قران مجید کے سنہری اصولوں کی جانب رجوع کریں اور انصاف و مساوات پر مبنی اپنا ریاستی نظام تشکیل دیں-انجینیئر ارشد نعیم چوہدری نقد تجارت پر مبنی نظام کے وکیل ہیں اور سود کے نظام کے خلاف ہیں -ان کا خیال ہے کہ سود پر مبنی موجودہ نظام پوری دنیا میں انسانوں کو انکے بنیادی حقوق سے محروم کر رہا ہے- اپنی اس رائے کے ثبوت میں وہ علامہ اقبال کے یہ اشعار بطور سند پیش کرتے ہیں-
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار 
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات۔
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے 
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات
یہ علم یہ حکمت یہ تدبر یہ حکومت 
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات
 مصنف نے اپنی کتاب میں سود سے پاک اسلامی بینکنگ کا خاکہ پیش کیا ہے-متبادل نظام کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مصنف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ہمیں اپنے ملک میں مکمل طور پر نقد معاشی نظام کو مثالی نظام کے طور پر رائج کر کے دنیا کو ثابت کر دینا چاہیے کہ متبادل معاشی نظام ہر طرح سے انسانیت کی فلاح و بہبود کا اہتمام کر سکتا ہے۔ اگر ایسا کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو پھر یوں ہی ذلت اور رسوائی کا سامنا کرتے رہیں گے۔ اب ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ نقد تجارت کے معاشی نظام کو اپنے ملک میں نافذ کرنے کی بھرپور کوشش کریں جس کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا-مصنف کی اس منفرد اور جامع نوعیت کی پہلی کتاب میں شامل ہر باب توجہ طلب ہے البتہ آزاد معیشت یا فری اکانومی’تجارت ریاست کا کام نہیں‘ بنا سود بینکاری نظام کیسے ممکن ہوگا؟ اسلامی بینکاری حقیقت یا دھوکہ مارکیٹ یا بازار معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ریاستی قانون کی اہمیت قیمتوں کو کس طرح قابو میں رکھا جا سکتا ہے متبادل مالیاتی نظام امت کی تشکیل نو سول سپرمیسی کا خواب کیسے پورا ہوگا ؟ کتاب کے اہم ترین ابواب ہیں جو خصوصی توجہ کے مستحق ہیں-میں انجینئرارشد نعیم چودری کو دل کی گہرائیوں سے”پاکستان فلاحی ریاست “کے نام سے ایک جامع اور منفرد کتاب لکھنے پر خراج تحسین اور مبارکباد پیش کرتا ہوں- پاکستان میں اس موضوع پر کتاب کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی۔پاکستان نوجوانوں کا ملک ہے۔ وہ اگر پاکستان کو جدید جمہوری فلاحی ریاست بنانے کے لیے پ±رعزم منظم جدوجہد کا آغاز کریں تو قائد اعظم اور علامہ اقبال کا خواب پورا کیا جا سکتا ہے-

ای پیپر دی نیشن