کراچی میں کرونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ کرونا متاثرین کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ مریضوں کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ کراچی کرونا کا گڑھ بن جاتا ہے تو اس کا اثر پورے ملک پر ہو گا۔ کرونا کے پھیلاؤ پر کسی ایک شخص یا حکومت کو ہدف تو نہیں بنایا جا سکتا لیکن پھر بھی حکومتی اقدامات کسی حد تک وبا پر قابو پانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے کراچی میں صورت حال قابو سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت سیاسی جلسوں اور انتخابی مہم میں مصروف ہے جبکہ کرونا کے معاملے اتفاق رائے کی بھی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ کراچی میں کرونا پھیلنے کا مطلب ملک میں ایک نئی لہر کی تیاری ہے کیونکہ کراچی میں کرونا کی شرح کا چوبیس فیصد ہونا نہایت خطرناک ہے بلکہ یہ خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ یہاں سے یہ مریض ہر جگہ پھیلیں گے۔ ان میں سے کئی لوگ کراچی سے باہر اور بعض لوگ سندھ سے باہر بھی سفر کریں گے۔ ان حالات میں کسی دوسرے صوبے کو کرونا سے محفوظ رکھنا ںہت مشکل ہو جائے گا۔ سو کراچی کس محفوظ رہنا بہتر پاکستان کے لازم ہے۔
کراچی میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ خطرناک حد تک جاری ہے اور شہر میں مثبت کیسز کی شرح لگ بھگ 24 فیصد کے قریب پہنچ گئی ہے۔
صوبہ سندھ کا محکمہ صحت بتا رہا ہے کہ کراچی میں گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران کرونا کے مثبت کیسز کی شرح 23.7 فیصد اور حیدرآباد میں 8.46 فیصد ریکارڈ کی گئی جبکہ صوبے میں یہ شرح 9.90 فیصد تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ کراچی میں تیزی سے پھیلتا کرونا بڑے مسائل کا باعث ہو سکتا ہے۔ یہیں سے سارے ملک کے کاروبار کو نقصان پہنچے گا۔ بین الصوبائی ٹرانسپورٹ یا قس سطح پر لوگوں کی نقل و حرکت سے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہونے کا خدشہ موجود ہے۔ چند ہفتے قبل ہونے والی نرمی سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ہم ایک مرتبہ پھر مشکل صورتحال کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ سندھ کے محکمہ صحت نے کرونا کیسز میں اضافے کے پیش نظر خطرناک علاقوں کے لیے سپیشل ایس او پیز بھی جاری کردیے ہیں۔ بنیادی طور پر حکومت سندھ کو ویکسینیشن پر کام کرنے کی ضرورت تھی لیکن اس طرف توجہ نہیں دی گئی۔ اس انتظامی ناکامی کے باعث کرونا پھیل بھی رہا ہے اور بڑے پیمانے پر کاروباری سرگرمیاں متاثر ہونے کا خدشہ بھی ہے۔ صوبائی حکومت نے کورونا کے بڑھتے کیسز کے پیش نظر ایک بار پھر پابندیاں نافذ کر دی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سندھ حکومت ابھی تک کرونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مستقل بنیادوں پر منصوبہ بندی کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ اس سلسلہ میں ویکسینیشن سب سے اہم تھی لیکن سندھ حکومت شہریوں کو ویکسینیشن کے لیے قائل کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں سکی۔ اس ناکامی کا اعتراف وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کہتے ہیں کہ صوبے کے مختلف ہسپتالوں میں داخل مریضوں میں پچاسی فیصد وہ ہیں جنہوں نے ابھی تک ویکسین نہیں کروائی۔ یہ اعداد و شمار نہایت خطرناک ہیں۔ وزیر اعلیٰ کی طرف سے ان اعداد و شمار کو پیش کرنا ان ہی بہادری اور ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر ہسپتالوں میں داخل مریض اگر ویکسینیشن سنٹر گئے ہی نہیں تو ویکسینیشن کیسے ہو گی، کیا یہ سندھ حکومت کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ اپنے شہریوں کو ویکسینیشن کی ترغیب دلاتی، لوگوں کے لیے ویکسینیشن کو آسان بناتی، ویکسین کے کو گھر گھر پہنچاتی لیکن حکومت اس بنیادی اور سب سے اہم کام کے بجائے ہر وقت وفاق کو برا بھلا کہنے میں مصروف رہتی ہے۔ سندھ میں مجموعی طو ر پر مختلف ہسپتالوں میں ایک ہزار دو مریض داخل ہیں ان مریضوں مریضوں میں پچاسی فیصد نے ویکسین نہیں لگوائی۔ حالانکہ طبی ماہرین اس حوالے نہایت واضح انداز میں بتا چکے ہیں کہ ویکسینیشن کے بعد انسان نسبتاً محفوظ ہوجاتا ہے اس کے باوجود بھی سندھ حکومت ابھی تک اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
چونکہ کرونا کے حملے گذرتے وقت کے ساتھ خطرناک ہوتے جا رہے ہیں اور اس سے بچاؤ کے لیے حکومتوں کے پاس سب سے آسان کام بازاروں، کاروباری مراکز کو بند کرنا ہی رہ گیا ہے کیونکہ یہ یہ سب سے آسان ہے۔ طاقت کے زور پر کاروباری مراکز بند کروانا مشکل ہے یوں حکومت کی طرف سے سب سے پہلا حملہ کاروباری مراکز پر ہی ہوتا ہے ایک مرتبہ پھر سندھ حکومت نے ایسا ہی فیصلہ کیا ہے جسے کراچی تاجر اتحاد اور تاجر ایکشن کمیٹی نے مستر کر دیا ہے۔ سندھ حکومت نے سوموار سے شادی ہالز کو بند اور تقریبات پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک مرتبہ پھر ہفتے میں دو دن مارکیٹیں بھی بند رکھنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ ان دو دنوں کے لیے جمعہ اور اتوار کو محفوظ قرار دیا گیا ہے۔سوموار سے شاپنگ مالز اور مارکیٹیں صبح 6 سے شام 6 بجے تک کھلیں گے، کریانہ، بیکری اور فارمیسی کھلی رہیں گی جب کہ صوبے بھر میں درگاہیں بھی بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ترجمان کے مطابق ریسٹورینٹس پیر سے انڈور اور آؤٹ ڈور دونوں بند ہوں گے اور صرف ٹیک اوے کی اجازت ہوگی۔ صوبے بھر کے تعلیمی ادارے بھی بند ہوں گے۔ دفاتر کے حوالے سے بھی اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔ ان فیصلوں کے بعد ملک کے دیگر شہروں میں بھی حالات ایک مرتبہ پھر بگڑ سکتے ہیں۔ سٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر ایس او پیز کے حوالے سے سختی کرنے اور حکومت کو ویکسینیشن کے حوالے سے بہتر حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ موبائل فون سمز بند کرنے کے بجائے اگر ویکسین لگانے والوں کو نئی سمز جاری کی جائیں تو لوگ زیادہ شوق سے ویکسین کی طرف آئیں گے۔ بہرحال کرونا ایک بڑا خطرہ ہے اور ہمیں اس حوالے سے زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی جلسے ہماری ذمہ داری اور سنجیدگی کا دوسرا رخ دکھا رہے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024