اسلام۔ ایک عالمگیر مذہب
آپ ایسا کریں ایک دو دن نکالیں سب سے پہلے گورنمنٹ اسکولز میں جائیں وہاں ہزاروں بچے تعلیم حاصل کرتے نظر آئیں گے دو بجے کے بعد وہ سکولز ویرانی کا منظر پیش کر رہے ہوں گے ایسے ہی پرائیویٹ اسکولز میں ہے پھر آپ سارا دن مدرسوں میں گزاریں وہاں بھی آپ کو ہزاروں بچے نظر آئیں گے جنہیں صبح کا ناشتہ دوپہر کی روٹی رات کا کھانا دیا جاتا ہے جو عموماً زیادہ تر دال ہی ہوتا ہے کثیر تعداد بچوں کی رہائش بھی اختیار کرتی ہے وہاں بجلی بھی استعمال ہوتی ہے گیس بھی استعمال ہوتی ہے گورنمنٹ سکولز کا خرچہ ریاست خود اٹھاتی ہے جبکہ مدارس کا نظام صاحب ثروت شخصیات کے رحم و کرم پر ہوتا ہے بہت زیادہ تعداد غریب گھرانوں کے بچوں کی ہوتی ہے اس کے بعد سفید پوش لوگوں کے بچوں کی امیر لوگوں کے بچے صرف دن کے وقت تک مدارس میں رہتے ہیں اکثریت اب گھروں پر ہی تعلیم دینے کو ترجیح دیتی ہے اسی طرح دنیاوی تعلیم دینے والے والدین کا رجحان ڈاکٹر انجینئر کے کلیدی عہدوں تک رسائی ہوتا ہے جبکہ دینی تعلیم دلانے والے والدین دین سے وابستہ رہنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں یہ بہت بڑی تفریق کا سبب بن چکی ہے ایسا نہیں کہ مدارس کے طلبہ کے لئے گورنمنٹ ملازمت کے دروازے بند ہیں مگر چونکہ گورنمنٹ کا اپنا ایک نصاب ہوتا ہے جس کے تحت ہی طلباء ڈگری اور ڈپلومہ حاصل کرتے ہیں بچے سے ڈاکٹر یا انجینئر بننا طریقہ کار سالوں سے چلتا آرہا ہے دوسری طرف جو بچے صرف حفظ کرتے ہیں وہ دوبارہ ریاست کے طے شدہ نصاب کی طرف لوٹ جاتے ہیں مگر جو اس سے اوپر تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے اسے واپسی پر دقت پیش آتی ہے بدقسمتی سے چند ایک ہی یہ دریا عبور کرتے ہیں پھر کچھ عرصہ ریاست نے وفاق المدارس کے ساتھ ملکر مساوی ڈگری ڈپلومہ کا اجرا کیا مگر بدقسمتی سے اس کے دور رس نتائج برآمد نہیں ہو رہے جس کی مثال کلیدی عہدوں اور مقابلے کے امتحانات میں ان مدارس کے طلبہ کا کامیابی کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے یہ تو کسی طور بھی ممکن نہیں کہ دونوں طرف سے ہی نصاب یکساں کر دیا جائے کیونکہ ایک طرف بچہ حفظ کی طرف جائے اور دوسری طرف بھاری نصاب کا بستہ بھی اٹھائے بھلے آپ مدارس میں ایسا کریں یا سکولوں میں یہ ایک ناکام کوشش ہوگی یقیناً یہ ایک پیچیدہ صورتحال ہے۔آپ دونوں طرف سے نصاب کس حد تک مختصر کرسکتے ہیں جبکہ غیرنصابی سرگرمیاں آخری حدوں کو چھو رہی ہیں۔بظاہر ہم دو رنگی میں الجھ چکے ہیں۔ہم لاکھ انکار کریں نظریں چرائیں مگر آج سائنس اور ٹیکنالوجی کی یلغار ہمیں اپنے طرزعمل پر غور کرنے مجبور کرچکی ہے اگر ہم دنیا کیساتھ نہ چلے اور ہمارا سفر یونہی جاری رہا تو ہم پھر کہاں کھڑے ہونگے اسکا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ہم ولی عہد سلمان بن محمد کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اگر ہم تھوڑا تحمل مزاجی اور کھلے ذہن سے غور کریں تو وہ جدت کو اپنائے بغیر ترقی کو معدوم سمجھتے ہیں آخر کب تک قدرتی وسائل پر انحصار کیا جائے اس وقت عرب کی آبادی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے لہذا مستقبل کے لیے تلخ ناگوار مگر دوررس فیصلے ناگزیر ہوچکے ہیں۔ جدت نے بیشمار نظریات کو دقیانوسیت ثابت کردیا ہے اب کوئی اگر تسلیم نہ کرے تو کیا جاسکتا ہے۔دبئی کی مثال سب کے سامنے ہے ترکی ملیشیا پھر ہم کیوں نہیں۔ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ آگے سے ذیادہ پھیل رہا ہے اسے جدت سے کوئی خطرہ نہیں ہمیں جدت پر ثابت کرنا ہے کہ جدت کو اسلام یا مسلمانوں سے کوئی خطرہ نہیں۔