غیر اخلاقی سیاسی بیانات اور آئین پاکستان
جو قومیں اپنے آئین کو مقدس مذہبی کتاب کے بعد درجہ دیتی ہیں وہی عظیم قوموں کی صف میں شامل ہوتی ہیں۔
پاکستان کے آمر جنرل ضیاء الحق نے پاکستان کے آئین کو 12 صفحہ کی کتاب قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ جب چاہے اس کو پھاڑ کر پھینک سکتا ہے۔وہ تو آمر تھا اور آئین کو توڑ کر اقتدار میں آیا تھا اس سے اور کیا توقع کی جاسکتی تھی۔ پاکستان کے جو حکمران عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں اور آئین کی پاسداری کا حلف اٹھا کر اقتدار سنبھالتے ہیں ان کا عملی ریکارڈ ثابت کرتا ہے کہ وہ تو آئین کو چھ صفحے کی کتاب بھی نہیں سمجھتے۔ وہ کھلم کھلا آئین شکنی کرتے ہیں اور عدالتوں کی باز پرس کے باوجود آئین شکنی سے باز نہیں آتے-آئین کی پاسداری کا حلف اٹھانے کے باوجود بااثر اور مقتدر افراد کا آئین کے بارے میں رویہ انتہائی افسوسناک رہا ہے۔
پاکستان کے آئین کے دیباچے میں درج ہے کہ مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن اور سنت کی تعلیمات کے مطابق گزاریں گے ۔؛سب شہریوں کو اظہار رائے کی آزادی ہو گی البتہ اس کو اخلاقیات کے دائرے کے اندر رکھا جائیگا۔ آرٹیکل 2اے کیمطابق قرارداد مقاصد کو آئین کا لازمی حصہ قرار دیا گیا ہے۔ قرارداد مقاصد میں درج ہے کہ پاکستان کے تمام قوانین قرآن اور سنت کیمطابق ہوں گے اور پاکستان میں اسلام کی تعلیمات کے مطابق سماج تشکیل دیا جائیگا۔
آئین کے آرٹیکل 19 میں تمام شہریوں کو اظہار رائے کی آزادی دی گئی ہے البتہ اسے اخلاقیات اور تہذیب کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل نمبر 62 میں پارلیمنٹ کا رکن بننے کیلئے اہلیت کی جو شرط رکھی گئی ہے‘ اس میں تحریر کیا گیا ہے کہ امیدوار کو امین دیانت دار صادق اور اسلامی تعلیمات کا فہم رکھنے والا ہونا چاہیے۔
اراکین اسمبلی جو حلف اٹھاتے ہیں اس میں بھی وہ اقرار کرتے ہیں کہ وہ آئین کی پاسداری کرینگے اور اسلامی نظریے کی حفاظت کرینگے۔
پاکستان کے آئین کے آرٹیکلز کے مطابق اگر سیاستدانوں کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو ایک ہی نتیجہ نکلے گا کہ وہ نہ تو آئین کی پرواہ کرتے ہیں اور نہ ہی ان کو قرآن اور سنت کا کوئی احساس ہے۔ وہ بلا خوف و خطر ایسی زبان استعمال کرتے ہیں جو اخلاقیات سے عاری اور غیر مہذب ہوتی ہے۔
اقتدار کے نشے میں اس قدر مست ہوتے ہیں کہ وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ انکے غیر اخلاقی بیانات کا خود انکے اپنے بچوں پر کیا اثر پڑ رہا ہوگا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ غیر اخلاقی اور غیر مہذب بیانات سے پاکستان کے کروڑوں بچوں اور نوجوانوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور پاکستان میں کوئی ایک بھی ادارہ ایسا نہیں ہے جو غیر اخلاقی بیانات کا نوٹس لے سکے اور اس رویے کو سختی کے ساتھ روک سکے۔ الیکٹرانک میڈیا بھی آزادی اظہار کے نام پر غیر اخلاقی بیانات کو نشر کر دیتا ہے اور نہیں سوچتا کہ وہ کھلم کھلا آئین کی خلاف ورزی کر رہا ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ غیر اخلاقی غیرمہذب بیانات کی تاریخ ہے۔ایک دوسرے کے خلاف ایسے بے ہودہ الفاظ استعمال کیے گئے کہ ان کو کالم کا حصہ بھی نہیں بنایا جا سکتا۔پاکستان کے سیاسی کارکنوں کو چونکہ سیاسی تربیت ہی نہیں دی جاتی لہٰذا وہ غیر اخلاقی بیانات پر ناراضگی کا اظہار کرنے کی بجائے ایک دوسرے کیخلاف غیر اخلاقی بیانات دینا شروع کر دیتے ہیں۔پاکستان میں ایسے رفارمر بھی موجود نہیں ہیں جو بداخلاقی بدتمیزی اور بد تہذیبی کی لہر کو روک سکیں۔پاکستان کے پرانے سیاستدان بااخلاق تھے اور اپنے اختلافات کو تہذیب اور شائستگی کے دائرے کے اندر رکھتے تھے اور ایک دوسرے کیساتھ دلیل کی بنیاد پر اختلاف کرتے تھے-
جنرل ضیاء الحق کے بعد سیاست کا معیار بڑی تیزی سے نیچے گر گیا۔بے دار اور باشعور شہری اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ کبھی کسی کھلاڑی اور کسی کاروباری کو اپنا لیڈر تسلیم نہیں کرنا چاہیے اور قیادت متوسط طبقے کے اہل اور دیانت دار افراد میں تلاش کرنی چاہیے۔ پاکستان کے محترم ججوں کا یہ فرض تھا کہ وہ ریاست کو آئین کے مطابق چلاتے اور آئین کی خلاف ورزی کا نوٹس لیتے مگر افسوس کہ وہ اپنے اس آئینی فریضہ کو پورا کرنے سے قاصر رہے ہیں-
الیکشن کمیشن آف پاکستان آئین کیمطابق ایک بااختیار ادارہ ہے وہ اگر اپنے آئینی اختیارات استعمال کرکے غیر اخلاقی اور غیر تہذیبی بیانات کا نوٹس لینا چاہیے ہے تو لے سکتا ہے مگر افسوس اس کا کردار بھی پاکستان کے عوام کیلئے قابل اطمینان نہیں رہا ۔پاکستان میں ایسے نوجوانوں کی کمی نہیں ہے جو اخلاقیات سے جڑے ہوئے ہیں اور تہذیب کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں وہ اگر بے حسی سے باہر نکل آئیں تو فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔اگر ایسے نوجوان آئین اور قانون کی حدود کے اندر رہتے ہوئے پرامن طور پر غیر اخلاقی غیر مہذب زبان استعمال کرنیوالوں کا پر امن محاسبہ اور محاصرہ کریں تو صورتحال تبدیل بھی ہو سکتی ہے ۔ کسی کو یہ اجازت نہیں دی جانی چاہیے کہ وہ ہماری نسلوں کے اخلاق کو بگاڑنے کی جرأت کر سکے۔
پاکستان میں بھرپور اور پرجوش اور سرگرم اخلاقی اور سماجی بیداری کی تحریک چلانے کی ضرورت ہے ۔ انسان سازی اور کردار سازی پر پوری توجہ دینی پڑیگی۔عوام اگر یہ فیصلہ کرلیں کہ وہ کسی کی زبان سے غیر اخلاقی الفاظ سننا گوارا نہیں کرینگے کیونکہ اس رویے سے نہ صرف ان کے بلکہ پورے پاکستان کے بچے اور نوجوان متاثر ہوتے ہیں تو پھر کسی شخص کی یہ جرأت نہیں ہو سکتی کہ وہ نجی طور پر یا جلسہ عام میں ایسی زبان استعمال کر سکے۔غیر شائستہ اور غیر مہذب زبان صرف اسی سماج میں بولی جاتی ہے جو مزاحمت کرنے کی بجائے اسے نہ صرف انجوائے کرے بلکہ خود بھی وہی زبان استعمال کرنا شروع کردے-اللہ تعالی نے اپنے نبی حضرت موسی علیہ السلام کو یہ حکم دیا کہ وہ جب فرعون کو دعوت حق دینے جائیں اور اس سے مکالمہ کریں تو اپنا لہجہ نرم رکھیں۔
اللہ تعالی نے اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ ہدایت کی کہ وہ تبلیغ کا کام نرم لہجے میں کریں اور اپنی دعوت کو اخلاقیات اور تہذیب کے دائرے کے اندر رکھیں۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں بہترین نمونہ پیش کیا ۔ انہوں نے اپنے مخالفین کی سخت نازیبا ناشائستہ زبان کا کبھی جواب ہی نہیں دیا۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جو لوگ قرآن سنت اور آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں ان کی گرفت کون کریگا ۔ پاکستانی قوم اسی طرح بے حسی کا شکار رہے گی اور اپنی نسلوں کو تباہی و بربادی کا تماشہ دیکھتی رہے گی۔
قران میں اللہ کا واضح ارشاد ہے کہ بحث کرو مگر عمدگی کے ساتھ۔ عوامی اور سماجی دباؤ کے بغیر کوئی ریاست اور سماج اخلاقیات کا پابند نہیں رہ سکتا۔ائین سے انحراف ریاست کو برباد کر دیتا ہے۔
٭…٭…٭