درندہ کون ؟
نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ان گنت واقعات میں سے ایک واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ آپ ایک مرتبہ مکہ کے بازار میں کھڑے ہو گئے اور لوگوں سے فرمانے لگے، لوگو میری بات توجہ سے سنو یہ جو بات میں کہنے والا ہوں آج سے پہلے کبھی نہیں کہی، پھر فرمایا یہ بات بتانے کے لیے میں آپ کا زیادہ وقت بھی نہیں لوں گا۔ آپ چلتے پھرتے ہی میری بات سن سکتے ہیں۔ لوگ کھڑے ہو گئے تو نبی آخر الزمان نے اپنی زبان مبارک سے ایک جملہ ادا فرمایا اور وہاں سے تشریف لے گئے۔ عربی زبان میں کہے گئے اس جملے کا مفہوم یوں تھا، اے لوگو، پس تم غور و فکر کیا کرو۔
یہ غور و فکر، تحقیق، ریسرچ، ماحول میں بہتری لانا اور اسے صاف رکھنا، زمین کے حقیقی باسیوں یعنی چرند پرند حتی کہ حشرات الارض کا بھی خیال رکھنا، جناب یہ تو ہمارے دین حق کا شعار اور تعلیماتِ تھیں مگر ان پر عملدرآمد کافروں نے اپنی عادت اور پہچان کیسے بنا لیا اور ہم مسلمانوں نے جنت کی یقین دہانی پر اللہ تعالیٰ کی اس خوبصورت زمین کو جہنم جیسا کیونکر بنانا شروع کر دیا۔ کونسا ایسا ظلم باقی بچا ہے جو ہم مسلمان اس زمین کے حقیقی باسیوں پر نہیں کر رہے۔ نبی پاک کی ذات مبارک تو ہر خصوصیات میں ہی نمایاں تھی مگر رحم دلی اور درگزر فرمانا تو آپ کی خاص پہچان تھی۔ نبی رحمت نے تو اس ھندہ کو بھی معاف کر دیا تھا کہ جس نے سید الشہداء حضرت حمزہ کے سینہ مبارک کو چیر کر ان کا کلیجہ نکالا اور اپنے دانتوں سے چبایا تھا ہاں مگر نبی کریم نے ھندہ سے یہ بھی کہا کہ میرے سامنے نہ آیا کرو مجھے اپنے چچا کی بے حرمتی یاد آ جاتی ہے۔ آج ہم طریق نبوی کے وارث اور دعویدار انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں پر بھی ایسا ایسا ظلم کر رہے ہیں جس کی مثال ہی نہیں ملتی۔
مشہور واقعہ ہے کہ جب ملتان کے حکمران نواب مظفر خان سدوزئی سکھوں کے خلاف جنگ کے دوران اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے حضرت حافظ جمال سے اپنے لئے دعا کروانے گئے تو حضرت حافظ جمال نے تین مرتبہ دعا کیلئے ہاتھ اٹھا کر ہاتھ نیچے کر دیے اور کہا تم جن ریچھوں کو رسیوں سے باندھ کر خونخوار کتوں سے مرواتے تھے اور وہ چیخ و پکار کرتے تھے ان کی آہ و پکار میری دعا سے پہلے عرش پر پہنچ جاتی ہے اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ نواب مظفر خان سدوزئی اپنے تمام بیٹوں کے ہمراہ اس جنگ میں نہ صرف شکست کھا گئے بلکہ سب کے سب جان سے بھی گئے۔
چند روز قبل ڈیرہ غازی خان سے کسی نے ایک ویڈیو وائرل کی جس میں ایک بے زبان بھینس چرتے ہوئے ہمسایوں کے کھیت میں گھس گئی تو ہمسائے نے تیز دھار چھری سے اسکی زبان کاٹ ڈالی۔ اس درندے کو نہ تو ہمسائے کے حقوق کا علم تھا نہ ہی رحم اور درگزر نے اسکی چوکھٹ دیکھی تھی۔
آج جب میں یہ سطور لکھ رہا تھا ایک اور ویڈیو سامنے آ گئی جس میں شلوار قمیض پہنے تین چار لوگ ایک گائے پر فائرنگ کر رہے ہیں اور جب تین فائر لگنے سے وہ گائے نیچے گرتی ہے، تڑپتی ہے اور اس ٹانگیں اکٹر کر اوپر کی جانب اْٹھ جاتی ہیں تو وہ بھاگ کر اسکے گلے پر چھری پھیر دیتے ہیں۔ اشرف المخلوقات کی جانب سے اسی قسم کی درندگی کی ویڈیوز پچھلے سال بھی وائرل ہوئی تھیں۔
ایک فرانسیسی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جس جانور کو ذبح کیا جاتا ہے، اسے کس قدر تکلیف ہوتی ہے مسلمانوں کے ذبح کے اس طریقہ کار کو جانچنے کیلئے ایک گائے اور ایک مینڈھے کے جسم کے ساتھ درد ماپنے والے آلات لگا دیے جاتے ہیں تاکہ پتہ چل سکے کہ مسلمان جانوروں کو کس قدرتکلیف دیتے ہیں اور پھر اسے مسلمانوں کیخلاف مہم کا حصہ بنایا جائے۔ دوران تحقیق یہ بات سامنے آئی کہ ذبح ہونے والے جانور کو درد کا احساس ہی ختم ہو جاتا ہے اور وہ بہت آسان موت کا سامنا کرتا ہے۔
پاکستان میں یہ کون سے کلمہ گو ہیں جو ذبح کرنے سے پہلے فائرنگ کرکے قربانی کے جانور کو شدید اذیت میں مبتلا کرتے ہیں۔ جانوروں پر ظلم کی کوئی ایک داستان ہو تو تحریر میں لائوں۔ ایسی ایسی شرمناک داستانیں ہیں کہ الامان الحفیظ۔ دین سے دوری، ممبر و محراب کی سالہا سال سے دینی رہنمائی کی بجائے محض واقعات فروشی نے اس خطے کے مسلمان کو نہ جانے دین کی کون سی قسم سے روشناس کروایا ہے کہ جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے عظیم خوبی حلم درگزر اور رحمت کا درس ہمارے ذہنوں سے کھرچ کر رکھ دیا ہے آج صورتحال یہ بن چکی ہے کہ ہم قرآن مجید پر فقہ کو ترجیع دینے لگ گئے ہیں اور قرآن فہمی سے دور ہو چکے ہیں کئی سال پہلے جناح ٹاؤن ملتان کے باہر ایک دکان پر اتوار کے روز میں گاڑی کا ٹائر پنکچر لگوا رہا تھا تو وہیں پر پر ایک گدھا گاڑی والا بھی پنکچر لگوا رہا تھا۔ اس کا گدھا بہت کمزور اور زخمی تھا اور وہ ان زخموں پر مرہم لگا رہا تھا۔ میں نے ڈانٹا کہ کیوں بے زبان جانور پر اتنا ظلم کرتے ہو ہو تو اس نے تقریباً رونے کے انداز میں بتایا کہ میرا تو گدھا بہت صحت مند تھا بچوں کی طرح میں اسے پالتا تھا۔ (جاری)