عہد وابستگی گزار کے میں، وجہ وابستگی کو بھول گیا
1966 میں ہریانہ کو پنجاب سے علیحدہ کرکے ریاست کا درجہ دے دیا گیا۔ اگلا سال بھارت میں عام انتخابات کا سال تھا اور ہریانہ کے لیے یہ پہلے الیکشنز تھے۔ ضلع پلوال کے علاقے حسن پور سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے رکن گیا لال نے پارٹی ٹکٹ سے الیکشن لڑنے کی درخواست کی جو رد کر دی گئی۔ چنانچہ انہوں نے کانگریس سے استعفیٰ دے کر آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی۔ گیا لال کی جیت کی خبر سن کر کانگریس کا ایک وفد ان سے ملا، گلے شکوے دور کیے اور وہ پھر سے کانگریس میں شامل ہو گئے۔
اگلے روز یونائیٹڈ فرنٹ کے لوگ گیا لال سے ملنے آئے۔ علاقے کے لوگوں نے انہیں قائل کیا کہ جس پارٹی نے آپ کو الیکشن سے پہلے رد کر دیا تھا اس میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں، اور آپ کی خاطر ہم بھی کانگریس چھوڑے دیتے ہیں۔ گیا لال جی کو حلقے کے لوگوں کی بات پسند آئی اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ یونائیٹڈ فرنٹ کو جوائن کریں گے۔جب یہ اطلاع کانگریس کے لیڈر راؤ بریندر سنگھ کو ملی تو وہ گیا لال سے ملنے ان کے گھر گئے۔ کچھ دیر گفتگو کے بعد انہیں اپنے ساتھ لیا اور شام کو ایک پریس کانفرنس میں فاتحانہ مسکراہٹ لیے صحافیوں کو بتایا کہ "گیا رام اب آیا رام ہے" اور گیا لال کی دوبارہ کانگریس میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔ حسن پور کے لوگ جنہوں نے گیا لال کی خاطر کانگریس چھوڑی، ان پر یہ خبر بجلی بن کر گری۔ بقول شاعر:
ایسی ضد کا کیا ٹھکانہ اپنا مذہب چھوڑ کر
میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا
یہ تاریخی واقعہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ دوستوں نے دباؤ ڈالا، گیا لال نے صرف 9 گھنٹے بعد ایک بار پھر وفاداری تبدیل کی اور یونائیٹڈ فرنٹ جائن کر لی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چند دن بعد وہ پھر کانگریس سے جا ملے۔ گویا:
پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں
پھر وہی زندگی ہماری ہے
اپنے باقی سیاسی کیریئر میں بھی گیا لال کو 'مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں'۔ 1972 میں انہوں نے آریاسبھا میں شمولیت اختیار کی اور دو سال بعد وہ بھارتیہ لوک دل سے جا ملے۔ گیا لال نے اپنا آخری الیکشن آزاد امیدوار کی حیثیت سے 1982 میں لڑا جسے وہ ہار گئے۔
ایک پولیٹیکل پارٹی سے دوسری سیاسی جماعت میں جانا برا نہیں، لیکن جس طرح گیا لال نے پارٹی سوئچنگ کی داستان رقم کی، اس طرح کے معاملات پر سوال ضرور اٹھتے ہیں۔ جاپان سے لے کر امریکہ اور ناروے سے لے کر افریقہ تک سیاست دان، جماعتی وابستگیاں تبدیل کرتے رہتے ہیں جن کی بنیادی وجہ نظریاتی بھی ہو سکتی ہے اور ذاتی مفادات کا حصول بھی۔پارٹی سوئچنگ کی عمومی طور پر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ سابقہ جماعت میرے نظریات سے متصادم تھی اور یہ کہ موجودہ پارٹی ہی لوگوں کی توقعات پر پورا اتر سکتی ہے وغیرہ۔ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا مقصد ملکی مفادات کا تحفظ اور عوامی فلاح و بہبود ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاستدان اگر ایک جماعت سے دوسری میں شامل ہو جائیں تو اسے انہونی بات نہیں سمجھا جاتا۔برطانیہ کے سابق وزرائے اعظم ولیم گلیڈسٹون اور ونسٹن چرچل، رکن پارلیمنٹ جارج گیلووے، سابق سیکرٹری آف سٹیٹ جیک اسٹرا اور لارڈ نذیر احمد سمیت متعدد سیاستدانوں نے ایک پارٹی سے دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی۔اسی طرح امریکہ کے بینجمن فرینکلن بٹلر، صدر تھیوڈور روزویلٹ، صدر رونالڈ ریگن، صدر ڈونلڈ ٹرمپ، ابراہم لنکن کے نائب صدر ہینی بال ہیملن، نائب صدر مائیک پینس، وائٹ ہاؤس کے سابق چیف آف سٹاف لیون پنیٹا، سیکرٹریز آف سٹیٹ کنڈولیزا رائس، ہیلری کلنٹن اور کولن پاول بھی سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے والوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ رونالڈ ریگن سے جب پوچھا گیا کہ آپ نے ڈیموکریٹک پارٹی کیوں چھوڑی تو انہوں نے دلچسپ جواب دیا کہ میں نے نہیں، پارٹی نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔
پاکستان میں بھی آئے روز سیاسی وابستگیاں تبدیل کی جاتی ہیں۔ لیکن یہاں ایک پارٹی سے دوسری میں جانے والے کو کبھی لوٹا کہہ کر اس کی عزت نفس کی تضحیک کی جاتی ہے، کبھی مہرا قرار دے کر اس کے کردار پر سوال اٹھائے جاتے ہیں اور کبھی موقع پرست ٹھہرا کر خودغرضی کا کلنک اس کے ماتھے پر ثبت کر دیا جاتا ہے۔ بعض کا ٹی وی ٹاک شوز میں صرف اس بات پر مذاق اڑایا جاتا ہے کہ آپ نے تو تین پارٹیاں بدل لی ہیں، آپ کی بات کا کیا اعتبار۔ مخالفین کا رویہ ایسا ہو جاتا ہے کہ گویا کسی گناہ کبیرہ کا ارتکاب کر لیا گیا ہو۔ پارٹی چھوڑنے والے کو میر جعفر، میر صادق اور ناجانے اس طرح کے کتنے ہی القاب سے نوازا جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں شاید ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ پارٹی قائد اعظم، سردار عبدالرب نشتر اور مولانا محمد علی جوہر نے بھی تبدیل کی تھی، کانگریس سے نظریاتی اختلاف کی وجہ سے۔ اسی طرح ملائیشیا کے ہیرو مہاتیر محمد نے بھی اپنے کیریئر میں کئی بار سیاسی پلیٹ فارم تبدیل کیا۔
دنیا میں کتنی ہی ایسی مثالیں ہیں جب ایک پارٹی سے دوسری میں جاکر لوگوں نے بہتر پرفارم کیا۔ کئی بار یوں بھی ہوا کہ نئی سیاسی وابستگی شہرت کے لیے مہلک ثابت ہوئی اور بعض اوقات ایسے بھی ہوا کہ لوگوں نے پارٹی سے تنگ آ کر سیاست ہی سے کنارہ کشی کر لی۔پالیٹکس ہر شخص کی اپنی چوائس ہے۔ اس کو اختیار ہے کہ جب چاہے ایک پارٹی چھوڑ کر دوسری جائن کر لے۔ تنقید اس بات پر نہیں ہونی چاہیے کہ آپ نے ایک جماعت سے دوسری میں کیوں شمولیت اختیار کی۔ سوال یہ ہونا چاہیے کہ آپ نے پہلی جماعت کے عہد میں کیا ڈلیور کیا۔ اور یہ کہ موجودہ جماعت سے وجہ وابستگی کس طرح نظریاتی ہے، اور کیا اس کا سبب ذاتی مفادات کا حصول تو نہیں!
کسی کی سیاسی زندگی پر فیصلہ دیتے وقت ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ جماعتی وابستگی تبدیل کرنے والا رہنما گیا لال کے نقش قدم پر چل رہا ہے یا جناح اور جوہر کی پیروی کر رہا ہے۔