’’جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں ‘‘
عید سے قبل ہفتہ 17جولائی کو شائع ہونیوالے کالم کا عنوان تھا ’’حج: یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے‘‘۔اُس تحریر کی وجہ جبار مرزا کی کتاب جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں کا ایک اقتباس تھا۔اہلِ ایمان کے جسد خاکی کس طرح حجاز مقدس منتقل ہو جاتے ہیں اُس کالم کا مرکزی نقطہ تھا۔ ’’جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں‘‘ جبار مرزا کی اپنی اہلیہ رانی کے بارے میں محبت میں ڈوب کر لکھی گئی داستانِ حیات کا حصہ ہے۔ رانی ایک عرصہ بیماررہیں۔ میاں بیوی دونوں نے بیماری کو شکست دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی مگر بالآخر موت حاوی ہو گئی۔ رانی نے شدت سے اسلام آباد کے H/8قبرستان میں دفن کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا مگر اُس قبرستان میں کوئی جگہ ہی نہ بچی تھی۔ دوسرے قبرستان میں تدفین کی تیاری کرنا پڑی۔ مرزا صاحب کہتے ہیں۔’’تینوں بچوں نے ایسا کرنے سے روک دیا البتہ بیٹے محمد شہریار مرزا نے کہا کہ میں آپ کو منع نہیں کرتا مگر کیا پتہ فرشتے ماما کو پہلے ہی H/8 شفٹ کر چکے ہوں۔‘‘تینوں بیٹیوں نے کہا ۔"وہ جنت البقیع پہنچا دی گئی ہوں۔ جنت میں چلی گئی ہوں‘‘۔
رانی کا انتقال رواں سال جنوری کے وسط میں 36 سال سے زائد رفاقت کے بعد کینسر سے ہوا۔ علاج کے لیے مصنف نے کوئی در اور گھر نہیں چھوڑا۔ ہسپتال پر ہسپتال ، معالج پر معالج تبدیل کئے۔ رانی کو موذی مرض سے نجات دلانے کیلئے تعویز گنڈے والوں کی درگاہوں پر بھی سر پٹخے مگر مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ بڑے نام کے ڈاکٹروں نام نہاد روحانی پیشوائوں کے نام لے کر مصنف نے ان کو بے نقاب کیا ہے۔
کتاب میاں بیوی کی محبت و الفت اور جانثاری کی دلبربا داستان ہے۔ گر اسے لازوال کہنے سے میں گریزاں ہوں۔ انکی زندگی میں ایک اور بھی لڑکی آئی جسے وہ چودھرانی کہتے ہیں۔ اس کا تذکرہ بھی "جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں" میں کیا ہے جبکہ اس پر ایک کتاب الگ سے لکھ چکے ہیں۔ رانی اُن دنوں سعودی عرب گئی ہوئی تھیں ۔ کتاب کا علم رانی کو ہوا تو تعلقات میں عارضی کشیدگی آئی اور پھرزندگی اپنی ڈگر پر رواں ہو گئی۔ رانی کے آئینہ دل پر اس کتاب سے کوئی 'تریڑ' آئی یا نہیں۔اُس کتاب کا نام تھا "پہل اس نے کی تھی" چودھرانی سے کتاب کے مصنف ٹوٹ کر پیار کرتے جس کا آغاز اُس کی طرف سے ہوا اور اختتام؟ رانی سے شادی بھی چودھرانی سے کیا گیا وعدہ تھا۔ چودھرانی کے والد شادی پر آمادہ نہ ہوئے تو اس نے کورٹ میرج کی تجویز دی جس پر مصنف نے بڑی دانائی سے اُسے سمجھایا۔ چودھرانی نے یہ بھی کہا۔" اب کی باری تو میں نہیں ہوں گی پتہ نہیں دنیا میں بھی ہونگی کہ نہیں۔ جبار ‘وعدہ کرو میرے بعد شادی کرو گے ۔"
جبار مرزا کہتے ہیں۔"سوچتا ہوں چودھرانی سے وعدہ نہ کرتا تو …نہ رانی سے شادی ہوتی نہ'پہل اس نے کی تھی'کتاب میں لکھتا۔" جبار نے شادی کی تو بعدازاں چودھرانی نے بھی شادی کر لی جو اپنے پہلے پیار کے ہجر میں رو رو کر شادی کے چھ ماہ بعد اندھی ہو گئی۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے جبار مرزا سے انٹرویو کے لیے کہا۔ تیاری کے لیے ڈاکٹر صاحب سے کچھ مواد منگوایا مگر انٹرویو سے انکار کر دیا ۔کیوں۔۔۔؟
منجھلی بیٹی گل اقرا کی شادی رانی کے انتقال سے ایک ماہ قبل ہوئی۔ اس میں ڈاکٹر اے کیو خان نکاح کے گواہ تھے۔ وہ مسلسل حفاظتی نظربندی میں ہیں یہ بھی ایک عجیب روداد ہے۔ " /30 اگست 2013 ء کو سحرش کی بارنگرانوں کی طرف سے ایک ذمہ دار بندے نے مجھے فون پر کہا کہ ڈاکٹر خان کو آپ روکیں ، وہ نکاح کی تقریب میں نہ آئیں۔ ہم انہیں نہیں آنے دیں گے۔
میں نے کہا آپ نے ڈاکٹر صاحب کو آنے نہیں دینا تو جو کام آپ خود کر رہے ہیں وہی کام پھر مجھے کرنے کو کیوں کہہ رہے ہیں کہ میں انہیں روکوں… جواب ملا!! …وہ ہماری نہیں مان رہے آپ روکیں گے تو وہ رک جائیں گے لیکن وہ اپنی بیٹی کے نکاح میں آ رہے ہیں۔ میں نہیں روکوں گا۔ فون بند کر دیا۔ دو تین بار پھر فون آیا۔ لجاجت بھی کی بہتیرا پلیز پلیز بھی کیا۔ مگر میں نہ مانا اور ڈاکٹر خان فیصل مسجد پہنچ گئے ۔ مسجد سکیورٹی حصار میں لے کے خالی کرا لی گئی۔ڈاکٹر خان کا فون آیا کہ مرزا صاحب یہ گاڑی میں بیٹھ کے دستخط کرنے کا وعدہ لے رہے ہیں۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں وعدہ کر لیں اور نکلیں۔ تھوڑی دیر بعد نگرانوں کی ایڈوانس پارٹی آئی ، نکاح خواں پہلے ہی سیکورٹی کے نرغے میں سٹینڈ بائی تھے۔ ایڈوانس پارٹی میں دو تین کیپٹن میجر ، سپاہی اور ایک صوبیدار تھے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان آئے تو ایک طرح کی ایک ہی رنگ کی دس بارہ گاڑیاں تھیں۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ آنے والے سیکورٹی سٹاف میں سینئر بندہ کرنل طارق تھے۔ میں نے کرنل طارق سے پوچھا ان میں سے کس گاڑی میں ڈاکٹر صاحب موجود ہیں کرنل طارق نے نشاندہی کی تو میں نے کہا گاڑی کا دروازہ آپ نہیں کھولیں گے۔ ڈاکٹر صاحب میرے مہمان ہیں دروازہ بھی میں ہی کھولوں گا۔وہ ایک دم گاڑی سے اترے ہمارے ساتھ فوٹو سیشن میں شامل ہو گئے اور سکیورٹی والے پھر خاموش کھڑے چوکیداری کرتے رہے۔‘‘
کتاب میںمحمد خان جونیجو کی کابینہ کے وزیر داخلہ ملک نسیم احمد آہیر کا تذکرہ ہے جس میں نسیم آہیر سے سفارش کرائی گئی تھی کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک کتاب کا دیباچہ لکھنے دیں۔ ملک صاحب جب وزیر داخلہ تھے تو محسن پاکستان پر بھی ایک احسان کیا تھا،جب وہ انکے آفس آئے تھے کہ انکے بڑے بھائی عبدالحفیظ المعروف اشک بھوپالی وہ بھارت کے شہری تھے اور چند دنوں کیلئے پاکستان آئے ہوئے تھے۔ قیام کی مدت ختم ہونے پر جب ڈاکٹر خان مزید چند روز کی مہلت لینے آئے توآہیر صاحب نے یہ کہہ کے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بھائی کو نیشنلٹی دے دی کہ ڈاکٹر صاحب آپ پاکستان کے محسن ہیں۔ آپ ہم سے بھائی کیلئے چند دن مانگ رہے ہیں۔ جناب سارا پاکستان آپ کا ہے۔
جبار مرزا جعلی پیشوائوں کے زخم خوردہ ضرورہیں مگربزرگانِ دین کے معتقد ہیں۔جوانی میںمانسہرہ کے باکسنگ کیمپ میں شرکت کے دوران باباکلو کے مزار کے قریب پہاڑیوں میں تین قبریں دیکھیں ایک پر چراغ تھا۔ اس قبر پر جیب سے نکال کر وہ چوّنی رکھ دی جو چائے کیلئے رکھی تھی۔ وہاں سے واپس ہوئے بوٹ پہنے تو ٹریک شو میں وہ چونی موجود تھی۔ چراغ کے پاس جا کر دیکھا تو موجود نہیں تھی۔ یہیں پر قبر سے مکالمہ ہوا۔ پھر چونی پر پین سے نشان لگا کر چراغ کے قریب رکھی تو ایک بار پھر شو میں آ گئی۔ میں ذاتی طور پر کتاب کے شروع میں دی گئی خاص لوگوں کی رائے کو فضول سمجھتا ہوں کتاب صرف رائٹر کے نکتہ نظر کی عکاس ہو۔ کئی رائٹر تو آدھی کتاب رائے کی نذر کر دیتے ہیں۔ اس کتاب کے شروع میں فتح محمد ملک ، محمد احمد ترازی ، جسٹس میاں نذیر اختر اور ساجد ملک کی رائے دی گئی ہے۔ کتاب کے آخری صفحات میں کنور دلشاد کا خط ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ رائے نہ دی گئی ہوتی تو کتاب مکمل نہ ہوپاتی۔ محمد احمد ترازی کی تحریر تو کمال کی ہے۔ ایک موقع ایسا آیا کہ جبار مرزا نے اپنی لائبریری فروخت کرنے پر تیار ہو گئے ان کی ڈیمانڈ 20 لاکھ جبکہ کباڑیے نے دو لاکھ مول لگایا۔ رانی نے کہا ایسا کیا تو میں صدمے سے مرجائوں گی۔ یوں لائبریری اور میری ضرورت کی ایک کتاب بھی محفوظ رہ گئی۔ اس لائبریری میں میری کتاب ’’ڈاکٹر اے کیو خان ناکردہ گناہوں کا قیدی‘‘ بھی موجود ہے۔ جو میرے پاس بھی نہیں اور پبلشر کے علاوہ کسی اور دکان پر بھی دستیاب نہیں۔ کتاب’’جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں‘‘علامہ عبدالستار عاصم نے بھجوائی ۔ بہترین آرٹ پیپر، صفحات 360 کلر تصویروں سے مزین کتاب کی قیمت ایک ہزار روپے ہے۔