افغانستان: بیانات کی بجائے مذاکرات پر توجہ دی جائے
افغانستان میں حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ کشیدہ تر ہوتے جارہے ہیں اور افغان حکومت اور سکیورٹی فورسز طالبان کے مقابلے میں بے بس دکھائی دے رہی ہیں۔ صورتحال اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ عیدالاضحی کی نماز کے دوران کابل میں واقع افغان صدارتی محل کے قریب راکٹ حملے کیے گئے۔ تین راکٹ صدارتی محل کے قریب باغ علی مردان اور چمن حضوری میں گرے۔ جب راکٹ حملے ہوئے اس وقت افغان صدر اشرف غنی، نائب صدر امراللہ صالح اور افغانستان کی اعلیٰ مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ سمیت کئی اہم عہدیدار صدارتی محل میں نماز عید ادا کررہے تھے۔ صدارتی محل کے قریب راکٹ گرنے کی وجہ سے خوف و ہراس پھیل گیا، تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ حملوں کے بعد سکیورٹی سخت کرنے کے علاوہ تحقیقات بھی جاری کردی گئیں۔ اشرف غنی نے عیدالاضحی کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے ظاہر کر دیا ہے کہ وہ امن کی خواہش نہیں رکھتے۔ اب اسی بنیاد پر فیصلے کریں گے۔ ملک میں ملیشیا بنانے اور آمریت کی کوئی جگہ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی حالیہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے منصوبہ بندی پر کام کر رہے ہیں۔ اگلے 3 ماہ میں صورتحال بدل جائے گی۔ اس طرح کے بیانات پچھلے کئی ماہ سے سامنے آرہے ہیں لیکن حالات افغان حکومت کے قابو سے نکلتے جارہے ہیں۔ افغان صدر اور نائب صدر بغیر کچھ کیے محض بیانات اور الزام تراشی کے ذریعے ملک کے حالات سدھارنا چاہ رہے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ اپنے اس غیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے حالات کو مزید بگاڑ کی طرف لیجانے کی بجائے بین الاقوامی برادری کی مدد سے طالبان سے مذاکرات کر کے اپنے ملک کے امن و استحکام کے لیے راستہ ہموار کریں۔