مریم نواز میں لیڈر بننے کی خصوصیات موجود ہیں مگر پرویز رشید اسے ناکام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جبکہ مریم نواز میں کامیاب ہونے کے آثار نظر آتے ہیں۔ میں نے جب گورڈن کالج راولپنڈی میں پڑھانے کا آغاز کیا تو پرویز رشید وہاں پڑھتے تھے‘ وہ لیفٹ کے سیاستدان طالب علم سمجھے جاتے تھے خواہ مخواہ ان لوگوں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور اور کسی نہ کسی کالج میں یہ ’’نام نہاد‘‘ نظریاتی مہم شروع کر رکھی تھی۔ پنجاب یونیورسٹی میں ہمیشہ اسلامی جمعیت طلبہ کا آدمی جیتتا تھا۔ میں کبھی جمعیت میں نہیں رہا۔ مگر میں نے جمعیت کے صدارتی امیدوار لیاقت بلوچ کو ذاتی صفات کی وجہ سے ووٹ دیا تھا۔ میں اس طالب علمانہ سیاسی دائرے میں ایک لبرل آدمی سمجھا جاتا تھا مگر جمعیت کے بڑے اور نمایاں لوگ اچھے تھے۔ حفیظ خان ایک لبرل آدمی تھا مگر جمعیت نے اسے اپنا امیدوار بنا لیا تھا۔
گورڈن کالج پنڈی میں پرویز رشید شیخ رشید سے بری طرح ہار گئے تھے۔ آج بھی شیخ رشید ایک بہتر سیاسی لیڈر کے طور پر مانے جاتے ہیں۔ مریم نواز اپنی ذات پر بھروسہ کریں اور اپنے والد ایک اہم سیاستدان نواز شریف سے رہنمائی لیں تو وہ ایک زبردست لیڈر کے طور پر سامنے آئیں گی۔ میں اس سے پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ آخری مقابلہ مریم نواز کا بلاول بھٹو زرداری سے ہو گا جس میں مجھے جیت مریم کی نظر آتی ہے؟ شہباز شریف اپنے بڑے بھائی نواز شریف کے بہت فرمانبردار ہیںاور حمزہ شہباز شریف تو مریم کا پیارا بھائی بن گیا ہے۔
٭…٭…٭
برادرم محمد نواز کھرل بہت مخلص اور مستعد دوست ہے۔ اس جیسی کمپرئنگ کسی ادبی محفل میں کوئی نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ بھی وہ کسی تقریب میں موجود ہوتو کمپیرئنگ اسی کا حق ہے۔ محمد نواز کھرل کی ہی دعوت پر ایک مختلف انداز کی دلچسپ محفل ملاقات ایک مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی۔ یہ شاندار تقریب المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ برطانیہ کے چیئرمین عبدالرزاق ماجد کے اعزاز میں منعقد کی گئی تھی۔ یہاں کالم نگار زیادہ تعداد میں موجود تھے جسے کھرل صاحب نے مکالماتی نشست کا نام دیا جس میں مجیب الرحمن شامی‘ ڈاکٹر محمد اجمل نیازی (راقم)‘ محمد اکرم چودھری‘ سعد اللہ شاہ‘ بیدار سرمدی‘ علی اصغرعباس‘ ناصر بشیر‘ رابعہ رحمن‘ واجد امیر‘ ڈاکٹر امجد طفیل‘ سلمان عابد‘ افضال ریحان اور خواجہ جمشید امام کے علاوہ بھی لوگوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر عبدالرزاق ساجد نے 22 ملکوں میں جاری ’’المصطفیٰ‘‘ کے فلاحی منصوبوں کی تفصیل سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ’’المصطفیٰ‘‘ 88 ہزار آنکھوں کے مفت آپریشن کر چکی ہے۔ 2020ء تک لاکھ آپریشن مکمل کرنے کا ہدف ہے۔ المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ لاہور کی جانب سے زمین کا بندوبست ہو گیا ہے۔
عبدالرزاق ساجد زمانۂ طالبعلمی میں ایک نمائندہ طلبہ تنظیم ’’انجمن طلبہ اسلام‘‘ کے مرکزی صدر تھے۔ انہوں نے 2006ء میں سابق وفاقی وزیر الحاج حنیف طیب کی سرپرستی میں برطانیہ کے اندر المصطفیٰ کے کام کا آغاز کیا تھا اور اب یہ کام 22 ممالک تک پھیل چکا ہے۔ تقریب کے بعد ہوٹل کے کمرے میں انجمن کے سابق رہنمائوں سے ملاقات ہوئی۔ اس موقع پر محمد نواز کھرل نے راقم کے جملے سنا کر سماں باندھ دیا۔ سب نے اس کی یادداشت کی داد دی۔
٭…٭…٭
میانوالی سے تعلق رکھنے والے شاعر سید مقصود علی شاہ کے نعتیہ مجموعہ ’’مطاف حرف‘‘ کی تقریب رونمائی مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی۔ امریکہ سے آئے ہوئے دانشور ڈاکٹر ظفر اقبال نوری نے صدارت کی۔ ڈاکٹر ریاض مجید اور راقم مہمان خصوصی تھے۔ مقررین میں رضا الدین صدیقی بھی شامل تھے جو ’’نور بصیرت‘‘ کے نام سے نوائے وقت میں مذہبی کالم لکھتے ہیں۔ راجہ رشید محمود‘ صبیح رحمانی اور علامہ شہزاد مجددی نے بھی خطاب کیا۔ سید مقصود علی شاہ نے اپنا خوبصورت کلام سنایا۔ وہ آجکل لندن میں مقیم ہیں۔
ایک بہت مہذب انسان اور سیاستدان صوبائی وزیراطلاعات اسلم اقبال نے بہت بامعنی اور خوبصورت بات کی کہ (ن) لیگ کی آدھی قیادت ڈھیل چاہتی ہے۔ ان کے نزدیک ڈیل اور ڈھیل میں فرق نہیں ہے۔ وہ تضادات کا شکار ہیں۔ مجھے یاد ہے وہ ایک اخبار کے منیجر لیاقت ملک کے پاس آئے تھے۔ میں بھی وہاں تھا۔ ملاقات ہوئی۔ وہ آدمی پسند آیا۔ حتیٰ کہ اب وزیر ہوکے بھی پسند ہے۔ کم کم ایسے سیاستدان ہوتے ہیں جو پسندیدگی کے اس معیار پر ہوتے ہیں۔
٭…٭…٭
وفاقی وزیر فواد چودھری کو آجکل عیدوں کی فکر لگی ہوئی ہے۔ اگرچہ عیدالاضحی کیلئے لوگوں کو اتنی فکر نہیں ہوتی اور پھر یہ عید تین دنوں تک پھیلی ہوئی ہوتی ہے۔ مگر فواد چودھری ابھی سے اعلان کر رہے ہیں کہ عیدالاضحی 12 اگست کو ہوگی۔ 14 اگست کو ویسے بھی یوم آزادی ہے۔ اس روزپاکستان قائم ہوا تھا۔ یہ ہمارے عید سے کم دن نہیں ہے۔ ہماری تحریک پاکستان تحریک آزادی بھی تھی۔ فواد چودھری کا کمال یہ تھا کہ قربانی کی عید کیلئے 14 اگست پر زور دیتے اور ڈٹ جاتے۔
٭…٭…٭
اب اپوزیشن یعنی (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی ہڑتالی تاجروں کی حمایت کر رہی ہے۔ تاجروں پر جو ٹیکس لگتا ہے‘ وہ گاہکوں سے پورا کر لیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود سمجھ نہیں آتی کہ وہ ہڑتال کیوں کر رہے ہیں۔ وہ گاہکوں کے تو اتنے ہمدرد نہیں‘ یورپی ملکوں میں چھوٹے کاروباری اور بڑے کاروباری سب کے سب رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔ وہاں حکومتیں اسی لئے فلاحی اور عوام دوست ہیں۔ تعلیم مفت ہے‘ علاج مفت ہے۔ ٹیکس لیا جائے تو وہ خرچ بھی لوگوں پر ہی ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ ٹیکس آتا کہاں ہے اور جاتا کہاں ہے؟
اسرائیلی جہاز پر اگر کوئی پاکستانی موجود ہے تو اسے برادرانہ ...
Apr 15, 2024 | 14:30