ٹرمپ کی پیشکش خوش آئند ہے مگر ہم کشمیر پر کسی لچک کے متحمل نہیں ہو سکتے
وزیراعظم عمران خان سے ملاقات! صدر ٹرمپ کی کشمیر پر ثالثی کی پیشکش اور بھارت کا رعونت بھرا نکار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے ملاقات میں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ثالثی کی پیشکش کردی۔ وائٹ ہائوس میں ہونیوالی اس ملاقات کے دوران ٹرمپ نے وزیراعظم پاکستان کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کے تذکرے پر انہیں بتایا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی انہیں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے معاونت کا کہا ہے اس لئے انہیں ثالث بننے میں خوشی ہوگی۔ انہوں نے کہا‘ اگر میں مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے کوئی مدد کر سکتا ہوں تو مجھے آگاہ کریں‘ امریکہ پاکستان بھارت تعلقات میں بہتری کیلئے بھی مصالحت کراسکتا ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان وائٹ ہائوس پہنچے تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کا استقبال کیا۔ دونوں رہنمائوں نے پرجوش مصافحہ کیا اور اجلاس کیلئے اندر چلے گئے۔ پہلے مرحلے میں وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر ٹرمپ کے مابین ون آن ون ملاقات ہوئی جو تقریباً ایک گھنٹہ تک جاری رہی۔ فرانسیسی خبررساں ایجنسی کے مطابق دوران ملاقات صدر ٹرمپ نے افغانستان سے متعلق پاکستان کے کردار کو سراہا اور کہا کہ پاکستان ماضی میں امریکہ کا احترام نہیں کرتا تھا تاہم اب ہماری کافی مدد کررہا ہے۔ انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو بتایا کہ ہم افغانستان میں اپنی فوج کی تعداد کم کررہے ہیں اور پاکستان کے ساتھ مل کر افغانستان سے فوجی انخلاء پر کام جاری ہے۔
ٹرمپ کے بقول پاکستان کے عوام بہت مضبوط ہیں‘ ہم پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات چاہتے ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم پاکستان کے ساتھ ایران کے حوالے سے بھی گفتگو کی اور کہا کہ ایران کے ساتھ مذاکرات شروع کرنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان اور میں دونوں نئے لیڈرز ہیں‘ کشمیر اور افغانستان کا مسئلہ حل ہوگا تو پورے خطے میں خوشحالی آئیگی۔ ٹرمپ نے کہا کہ انہیں دورۂ پاکستان کی دعوت دی جائیگی تو وہ ضرور پاکستان جائینگے۔ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد سے ہی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے خواہش مند تھے۔ پاکستان کیلئے امریکہ بہت اہمیت رکھتا ہے‘ اس کیخلاف افغان جنگ میں پاکستان فرنٹ سٹیٹ تھا جبکہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا اور اس جنگ میں 70 ہزار جانوں کی قربانی دی۔ انہوں نے کہا کہ افغان تنازعہ کا حل صرف طالبان سے امن معاہدہ ہے۔ انکے بقول ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ پاکستان اور بھارت کو قریب لاسکتا ہے۔ ہم بھارت سے مذاکرات کیلئے تیار ہیں‘ آپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کرادی تو ایک ارب عوام آپ کیلئے دعا کرینگے۔
یہ امر واقع ہے کہ افغانستان اور ایران کے معاملات پر امریکہ سخت الجھن کا شکار ہے اور اس الجھن سے پاکستان کی معاونت سے ہی باہر نکل سکتا ہے۔ اس تناظر میں آج امریکہ کو پاکستان کی جتنی ضرورت ہے‘ اتنی پہلے کبھی نہیں تھی۔ چنانچہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کو خود امریکی صدر نے دورۂ امریکہ کی دعوت دی اور ٹرمپ کے ساتھ انکی ملاقات کی تاریخ بھی انکی مرضی اور سہولت کے مطابق مقرر کی گئی۔ عالمی میڈیا کی جانب سے اس امر کی تصدیق کی جاچکی ہے کہ امریکی صدر وزیراعظم پاکستان سے ملاقات کیلئے بے تاب تھے اور گزشتہ ماہ جون میں ہی اس ملاقات کا اہتمام چاہتے تھے تاہم وزیراعظم عمران خان نے ملک میں اپنی مصروفیات کے پیش نظر جون میں ٹرمپ سے ملاقات سے معذرت کی جس کے بعد واشنگٹن انتظامیہ کا خیال تھا کہ ٹرمپ‘ عمران ملاقات اب شاید ستمبر میں ہی ممکن ہو پائے گی مگر ٹرمپ کے اصرار پر انکی وزیراعظم پاکستان سے ملاقات اسی ماہ جولائی میں طے ہو گئی اور اس ملاقات کی تاریخ کا تعین وزیراعظم پاکستان کی رضامندی سے کیا گیا جس سے ٹرمپ کی وزیراعظم پاکستان سے ملاقات کیلئے بے تابی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
امریکہ کے بارے میں یہ تاثر درست نظر آتا ہے کہ واشنگٹن انتظامیہ کسی سے تعلقات میں بہتری یا بگاڑ کیلئے صرف اپنے ملک کے مفادات کو پیش نظر رکھتی ہے۔ اگر کسی دوست ملک کے ساتھ اس کا مفاد وابستہ نہ رہے تو اسکے ساتھ طوطاچشمی میں وہ ذرہ بھر بھی دیر نہیں لگاتی اور کسی دشمن سے ملکی مفاد پورا نظر آتا ہو تو واشنگٹن انتظامیہ اسکے پائوں پڑنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ ٹرمپ نے امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد اگرچہ اس وقت کے وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے پاکستان اور اسکے عوام کی تعریف کی اور انکے ساتھ بھی مسئلہ کشمیر سمیت پاکستان بھارت تنازعات کے حل کیلئے کردار ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا مگر اپنے پہلے سٹیٹ آف یونین خطاب میں ہی ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ طوطاچشمی کی انتہاء کر دی۔ افغان جنگ میں اسے عدم تعاون کا طعنہ دیتے ہوئے اسکی کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں ملنے والی سول اور فوجی امداد معطل کرنے کی دھمکی دی اور اپنا ’’چال چلن‘‘ درست کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ڈومور کے تقاضے بھی بڑھا دیئے۔ انہوں نے محض دھمکیوں پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ امریکی کانگرس کے ذریعے پاکستان کی فوجی امداد بشمول جدید ہتھیاروں کی فراہمی بند کر دی اور پھر متعدد امریکی ارکان کانگرس نے بھی پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کا سلسلہ شروع کردیا۔ پاکستان کے ساتھ امریکی سردمہری کا یہ سلسلہ تقریباً دو سال تک برقرار رہا۔
جب گزشتہ سال جولائی میں عمران خان برسراقتدار آئے تو واشنگٹن انتظامیہ کو احساس ہوا کہ وہ امریکہ کو افغانستان کے دلدل سے نکالنے کیلئے اسکی معاونت کر سکتے ہیں۔ اسی احساس کے تحت ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے زلمے خلیل زاد کو افغان امن عمل کیلئے متحرک کیا گیا جنہوں نے پاکستان کی معاونت سے ہی طالبان نمائندوں اور کابل انتظامیہ سے سلسلۂ جنبانی شروع کیا۔ طالبان نمائندگان کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کیلئے قطعاً تیار نہیں تھے تاہم پاکستان کی کوششوں سے یہ مذاکرات ممکن ہوئے تو امریکہ کو پاکستان کی اہمیت کابھی شدت سے احساس ہوا۔ ٹرمپ انتظامیہ چونکہ افغان جنگ سے امریکی قوم کو خلاصی دلوانے کا کریڈٹ لینا چاہتی ہے اور یہ کریڈٹ پاکستان کی معاونت سے ہی حاصل کیاجا سکتا ہے اس لئے پاکستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں امریکی ترجیحات بھی یکایک تبدیل ہو گئیں جن میں اب امریکہ بھارت کو آنکھیں دکھاتا بھی نظر آتا ہے۔
یہی وہ صورتحال ہے جس میں وزیراعظم پاکستان عمران خان سے ملاقات کے موقع پر امریکی صدر ٹرمپ کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ثالثی کی پیشکش میں زیادہ سہولت نظر آئی۔ اگر اس پیشکش میں وہ مخلص ہوں اور افغانستان کے علاوہ پورے خطے کے امن و استحکام میں دلچسپی رکھتے ہوں تو مسئلہ کشمیر کے پائیدار اور قابل قبول حل کیلئے بھارت سے یواین قراردادوں پر عملدرآمد کرانے میں ان کیلئے کوئی امر مانع نہیں ہو سکتا کیونکہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے استصواب کا حق دینا ہی اس مسئلہ کا اصل اور ٹھوس حل ہے۔ بھارت کی مودی سرکار تو اسکے برعکس پاکستان سے منسلک آزاد کشمیر اور اسکے شمالی علاقہ جات پر بھی تسلط جمانے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھی ہے جس کا اظہار خود نریندر مودی اور انکی وزیر خارجہ سشما سوراج انکے پہلے دور حکومت میں کرتی رہی ہیں جبکہ اب انکے دوسرے دور حکومت میں بھارتی آرمی چیف بپن راوت اور وزیر دفاع راجناتھ سنگھ بھی ہذیانی کیفیت میں پاکستان کو دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ روز راجناتھ سنگھ نے یہ کہہ کر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی بلی تھیلے سے باہر نکال دی کہ کشمیریوں کو بھارت سے کبھی آزادی نہیں ملے گی۔ اس بھارتی رویے کے ساتھ بھلا یہ کیسے گمان کیا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ پلک جھپکتے میں مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر بسروچشم کشمیریوں کیلئے قابل قبول مسئلہ کشمیر کا حل قبول کرلے گا۔ اسکی تو تان ہی کشمیر کے بھارتی اٹوٹ انگ ہونے پر ٹوٹتی ہے اس لئے اسکے معاملہ میں گھی ٹیڑھی انگلی سے نکالنے کی ضرورت ہے اور یہی پاکستان اور امریکہ کی قیادتوں کا اصل امتحان ہے۔
کشمیر پر مودی سرکار کے خبث باطن کا اندازہ اس سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کے چند لمحے بعد ہی باضابطہ طور پر انکی اس بات کی تردید کردی کہ مودی کی جانب سے بھی انہیں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کردار ادا کرنے کو کہا گیا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق مودی نے امریکی صدر ٹرمپ کو ایسی کوئی درخواست نہیں کی۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ کے ثالثی کے کردار میں بھارت کس طرز عمل کا مظاہرہ کریگا۔ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ثالثی کی پیشکش قبل ازیں امریکی صدر اوبامہ‘ یورپی یونین کے سپیکر اور چین کے صدر کی جانب سے بھی کی جاچکی ہے جبکہ بھارت کی جانب سے ایسی ہر پیشکش رعونت کے ساتھ ٹھکرائی گئی اور اوبامہ کو تو اپنے کام سے کام رکھنے کا بھی کہہ دیا گیا۔ اس تناظر میں بھارت کشمیر پر اپنا تسلط مستقل کرنے کے سوا کسی اور حل کی راہ پر مذاکرات کے ذریعے تو ہرگز نہیں آئیگا۔ بھارتی وزارت خارجہ کا یہ کہنا بھی ایک چال ہے کہ پاکستان بھارت دوطرفہ تنازعات کے حل کیلئے شملہ معاہدہ اور لاہور اعلامیہ موجود ہے جبکہ بھارت نے ان معاہدوں کی بھد بھی خود اڑائی ہوئی ہے کہ اس نے مسئلہ کشمیر پر آج تک دوطرفہ مذاکرات کی نوبت ہی نہیں آنے دی۔ یہ حقیقت ہے کہ شملہ معاہدہ کی چال بھارت نے مسئلہ کشمیر پر یواین قراردادوں کو سبوتاژ کرنے کیلئے چلی تھی جبکہ وہ مسئلہ کشمیر پر اب تک اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی پر ہی قائم ہے اس لئے اس سے امریکی ثالثی کے ذریعے بھی کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرانا اتنا آسان نہیں جتنی آسانی سے ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کی پیشکش کی گئی ہے۔
اگر آج امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے تو ہمیں بہرحال اپنے قومی مفادات اور اپنی سلامتی کے معاملات کو پیش نظر رکھ کر ہی امریکہ کے ساتھ اعتماد سازی کیلئے پیشرفت کرنا ہوگی۔ ہمیں کسی ایسی ثالثی کی تو بہرصورت ضرورت نہیں جس کے ذریعے کشمیر کے حوالے سے ہمارے دیرینہ اصولی موقف پر کسی قسم کی زد پڑتی ہو۔ وزیراعظم عمران خان نے صدر ٹرمپ سے ملاقات کے موقع پر قومی موقف کی ترجمانی کرتے ہوئے ہی انہیں کشمیر میں جاری بھارتی مظالم سے آگاہ کیا ہے اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے تعاون مانگا ہے۔ ہمیں کشمیر پر بہرصورت اپنے موقف کی ہی پاسداری کرنی اور کشمیری عوام کی بھارتی تسلط سے آزادی کیلئے ہر فور م پر آواز اٹھائے رکھنا ہے۔ ٹرمپ کی کوششوں سے اگر کشمیریوں کو آزادی کی منزل حاصل ہوجاتی ہے یہی اس خطے کے امن و سلامتی کی ضمانت بنے گی۔ ہم بہرحال کشمیر پر اپنے قومی موقف میں کسی لچک کے متحمل نہیں ہوسکتے۔