قیام پاکستان سے فاٹا یعنی قبائلی علاقے ’علاقہ غیر‘ کے نام سے جانے اور پہچانے گئے- ان علاقوں پر پاکستان کی آئینی اور عدالتی رٹ نافذ نہیں تھی- قبائلی علاقے اپنے قبائلی نظام یعنی جرگہ سسٹم کے تحت چلائے جاتے رہے - یہ علاقے مجرموں قاتلوں ڈاکوؤں کے مرکز بنے رہے- افغان وار اور امریکہ کی عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران یہ علاقے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کا گڑھ بن گئے -پوری دنیا کے انتہا پسند جہادی ان علاقوں میں قیام پزیر ہو گئے- قبائلی علاقوں میں دہشتگردوں کو عسکری تربیت دی جاتی ان علاقوں میں اسلحہ کی فیکٹریاں بنائی گئیں- دہشت گردی کے حوالے سے یہ علاقے دنیا بھر میں مشہور ہوگئے - امریکہ میں نائن الیون کے المناک حادثے کو بھی قبائلی علاقوں سے جوڑا گیا- ان علاقوں میں قیام پذیر طالبان اور القاعدہ کے دہشتگردوں نے پاکستان کی ریاست کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا اور پاکستان بھر میں سرکاری اور عوامی نوعیت کی اہم جگہوں پر دہشت گردی کی کاروائیاں کی گئیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں سویلین اور عسکری پاکستانی شہری شہید ہوئے اور آخر کار پاکستان کی ریاست نے ان علاقوں کو دہشت گردی سے پاک کرنے کا فیصلہ کیا- دہشت گردوں کے خلاف طویل ترین کامیاب اور نتیجہ خیز جنگ لڑی اس جنگ کے دوران قبائیلی علاقوں کے عوام کو انتہائی تکلیف دہ اور اذیت ناک حالات کا سامنا کرنا پڑا- پاک فوج اور شہریوں کی بے مثال قربانیوں کے بعد ان قبائلی علاقوں میں امن قائم ہوا، جس کے بعد قبائلی علاقوں کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے اور ان کو پاکستان کے آئین کے تابع لانے کے لئے آئین میں ایک ترمیم کی گئی جس کے بعد قبائلی علاقے خیبر پختونخواہ صوبے کا باضابطہ حصہ بن گئے- مولانا فضل الرحمان اور چند دیگر گروپوں نے انضمام کی سخت مخالفت کی- صوبائی اسمبلی کے پرامن اور تاریخ ساز حالیہ انتخابات نے ثابت کردیا کہ قبائلی اضلاع کے عوام کی اکثریت پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے لیے رضا مند تھی-
صوبائی اسمبلی کی 16 نشستوں کے لیے تحریک انصاف نے16 پی پی پی نے 13 مسلم لیگ نون نے 5جمعیت علمائے اسلام نے 15 عوامی نیشنل پارٹی نے 14جماعت اسلامی نے 3 امیدوار انتخابی میدان میں اتارے جبکہ کافی تعداد میں آزاد امیدواروں نے انتخابات میں حصہ لیا - پاکستان، عوام اور جمہوریت دشمن عناصر نے ان انتخابات کے بارے میں منفی پروپیگنڈا کر رکھا تھا، عوام کو یہ باور کرایا جارہا تھا کہ ان انتخابات کے دوران وسیع پیمانے پر دہشتگردی کی کارروائیاں ہوسکتی ہیں- یہ پروپیگنڈا بے بنیاد ثابت ہوا- پرامن انتخابات کے لئے پاک فوج الیکشن کمیشن پاکستان کا سٹاف اور مقامی انتظامیہ ہمارے خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے بہترین پیشہ ورانہ مہارت کا ثبوت فراہم کرکے ایسے علاقوں میں انتخابات کو پرامن بنایا جہاں پر ابھی تک انتہا پسندی اور دہشتگردی کے جراثیم موجود ہیں - غیرسرکاری انتخابی نتائج کے مطابق قبائلی اضلاع کے انتخابات میں 6 آزاد امیدوار تحریک انصاف کے 5 جمیعت علمائے اسلام کے 3 جماعت اسلامی اور اے این پی کا ایک ایک امیدوار کامیاب ہوئے ہیں- انتخابی نتائج کو تمام سیاسی جماعتوں نے تسلیم کیا ہے اور تاحال کسی سیاسی جماعت نے دھاندلی کا الزام نہیں لگایا یا جو پاکستانی عوام کے لئے ایک خوشخبری ہے- جماعت اسلامی کے نائب امیر جناب لیاقت بلوچ نے راقم سے گفتگو کرتے ہوئے انتخابات پر اطمینان کا اظہار کیا - افسوس سیاسی جماعتیں ریاستی اداروں پر تنقید تو کرتی رہتی ہیں مگر قبائلی اضلاع میں پر امن انتخاب کے قیام پر انہوں نے ریاستی اداروں کو خراج تحسین پیش کرنے سے گریز کیا ہے جس سے ان کے تعصب اور نفرت کا کھلا اظہار ہوتا ہے- وزیراعظم عمران خان کو سلیکٹڈ کہنے والی سیاسی جماعتیں پی پی پی اور مسلم لیگ نون قبائلی اضلاع میں ایک بھی نشست حاصل نہیں کر سکیں-
پاکستان کے آئین کے مطابق آزاد اراکین کو کامیابی کے سرکاری اعلان کے بعد تین روز کے اندر کسی نہ کسی جماعت میں شامل ہونا پڑے گا- اس کے بعد متناسب نمائندگی کی بنیاد پر چار خواتین اور ایک نان مسلم کو صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب کیا جائے گا - اٹھارویں ترمیم کے بعد پاکستان کے تمام صوبے مالی سیاسی اور انتظامی طو پر خود مختار بن چکے ہیں لہذا وہ اپنے صوبے کے عوام کے تمام بنیادی مسائل حل کرنے کی اہلیت اور طاقت رکھتے ہیں - قبائلی اضلاع کے21 راکین اسمبلی اپنی پارلیمانی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے علاقوں کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر ڈالنے کے لیے آئینی اور جمہوری جدوجہد کر سکتے ہیں اور اس جدوجہد کے نتیجے میں ان کو وہ بنیادی انسانی حقوق مل سکتے ہیں جن سے وہ ماضی میں محروم رہے ہیں- اب وہ آئینی طور پر پاکستان کے مساوی شہری بن چکے ہیں - قبائلی اضلاع کے اراکین اسمبلی اگر اپنے علاقوں کے مفادات کے لیے متحد رہیں تو ان کو بنیادی حقوق سے کوئی محروم نہیں کرسکے گا - ریاست نے اگر ترقی کرنی ہے تو اس کا واحد راستہ اور آپشن آئینی جمہوری اور سیاسی ہے جب کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی نے قبائلی اضلاع کو پاکستان کے ترقی یافتہ اضلاع سے بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے- پشتون نوجوانوں کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ ان کی ترقی اور خوشحالی کا واحد راستہ آئینی اور جمہوری راستہ ہے ان کے اپنے اور اپنی نسلوں کے مفاد میں ہے کہ وہ پاکستان دشمن قوتوں کے آلہ کار نہ بنیں، علاقوں میں امن کے قیام کو یقینی بنائیں کیونکہ ترقی اور خوشحالی امن کے ساتھ جڑی ہوئی ہے- حالیہ انتخابی معرکہ کا بہت سخت رہا ہے جس کی ایک مثال باجوڑ کے ضلع کی ہے- تحریک انصاف کے امیدوار انور زیب 12951 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے امیدوار وحید گل 11775 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے- انتخابی نتائج صاف اور شفاف انتخابات کا منہ بولتا ثبوت ہیں- ان سیاسی عناصر کا پروپیگنڈا دم توڑ گیا ہے جو ریاستی اداروں اور تحریک انصاف کی حکومت پر دھاندلی کے الزامات لگا رہے تھے- پاکستان کا مستقبل صاف اور شفاف انتخابات سے وابستہ ہے- دھاندلی دھونس اور دھن کی طاقت سے عوام کی رائے کو تبدیل کرنے سے ریاست کمزور ہوتی ہے اور اس کی سلامتی اور آزادی خطرے میں پڑ جاتی ہے- قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے حالیہ انتخابات کے بعد ایک نئی سیاسی تاریخ رقم ہوئی ہے اور ان علاقوں کو شاید صدیوں کے بعد ایک آزاد ریاست میں آئین کے مطابق بنیادی حقوق کی ضمانت حاصل ہوئی ہے- پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ان انتخابات کو سنہری الفاظ میں یاد رکھا جائے گا - قبائلی اضلاع کے عوام اپنے منتخب اراکین اسمبلی کے ساتھ رابطے میں رہیں اور ان پر ترقیاتی کاموں کے سلسلے میں بھی دباؤ ڈالتے رہیں- ووٹ دینے کے بعد اپنے ووٹ پر پہرا دینا بھی لازم ہو چکا ہے تاکہ اراکین اسمبلی مجرمانہ غفلت اور مفاد پرستی کا شکار نہ ہوں-
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024