ٹرمپ‘ کپتان ملاقات نے برصغیر میں سیاست کی بساط پلٹ کر رکھ دی ہے جسے صرف مودی حکومت نے نہیں ساری دنیا نے محسو س کیا ہے کشمیر کا تنازعہ ایک بار پھر پوری قوت سے ابھر کر عالمی منظر پر سب کے سامنے آگیاہے۔ وائٹ ہاوس میں جاری پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی وزیراعظم مودی میرے پرانے دوست ہیں انہوں نے مجھے پوچھا کہ کیا آپ اس معاملے پر ثالث بننا چاہیں گے؟ میں نے پوچھا(کس مسئلے پر) کہاں؟ تو انھوں نے کہا کشمیرپر۔ جس پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’ اگر میں مدد کر سکوں تو بخوشی (مسئلہ کشمیرپر) ثالث کا کردار نبھانے کیلئے تیار ہوں۔ اگر میں کوئی مدد کر سکتا ہوں تو مجھے ضرور بتائیں' یہ لفظ بہ لفظ ‘ حرف بہ حرف ثالثی پر ٹرمپ مودی گفتگو کا حاصل ہے۔ ٹرمپ اور بھارتی وزیر اعظم مودی کی ملاقات گذشہ ماہ جی 20 کے موقع پر اوساکا جاپان میں ہوئی تھی اور وہ ستمبر میں دوبارہ امریکہ کا دورہ کرنیوالے ہیں ۔ ٹرمپ کے مسئلہ کشمیر پر ثالثی والے بیان کی ایک گھنٹے کے اندر بھارت نے با ضابطہ تردید کردی ہے جبکہ اصل فریق مودی گم سم اور خاموش ہیں وائٹ ہاوس نے بھی بھارتی سرکاری بیان کو نظرانداز کیا ہوا ہے ۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے کہا ہے کہ وزیراعظم مودی نیامریکہ سے ایسی کوئی درخواست نہیں کی(ٹرمپ سے مودی کی غیررسمی گفتگو کی تردید ممکن نہیں جو صرف مودی ہی کرسکتے ہیں)۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان نے نئی دہلی کی تردید پر تبصرے سے گریز کیا ہے۔ اس متضاد صورتحال پر سوال یہ ہے کہ امریکہ اور بھارت میں سے کو ن سچ بول رہا ہے اور یہ کہ ٹرمپ کو غلط بیانی کرکے مودی کو بلاوجہ ناراض کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔ صدر ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کی پیش کش وزیراعظم عمران خان سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے دوران کی تھی۔ حقیقت یہ ہے مسئلہ کشمیر پر ٹرمپ کے ثالثی والے بیان کے بعد وزیراعظم مودی کیلئے مشکلات کھڑی ہو گئی ہیں۔ کیونکہ ٹرمپ نے مودی کی ‘‘خواہش ثالثی’’ کا ذکر بھی کیا جو مودی کے جنونی ووٹ بنک کیلئے نگلنا اور ہضم کرنا ناممکن ہو گا۔ بھارتی ذرائع ابلاغ استفسار کر رہے ہیں کہ کیا بھارتی حکومت کی کشمیر پالیسی میں خفیہ طور پر کوئی تبدیلی واقع ہو رہی ہے؟
’ہندوستان ٹائمز‘ کھل کر لکھ رہا ہے کہ صدر ٹرمپ کے ثالثی بیان سے بھارتی حکومت کی کشمیر پالیسی میں خفیہ تبدیلی کے اشارے ملتے ہیں۔
معتدل مزاج اخبار ‘ہندو‘ کو بھی صدر ٹرمپ کی پیشکش سے کشمیر کے معاملے میں امریکی پالیسی بدلتی دکھائی دے رہی ہے۔ ’این ڈی ٹی وی‘ کا تجزیہ ہے کہ بھارت ہمیشہ سے کسی تیسرے فریق کی مسئلہ کشمیر میں مداخلت یا ثالثی کے خلاف رہا ہے، جبکہ پاکستان اقوام متحدہ سمیت متعدد بین الاقوامی فورمز پر کسی تیسرے فریق کی ثالثی پر زور دیتا رہاہے۔اندرون بھارت عقل و دانش اور صلح سلامتی کی کوئی بات کرنا سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا کیا مودی اتنی بڑی سیاسی قیمت ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس فیصلہ انکے ذاتی ردعمل سے ہو جائیگا۔صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیش کش پر کھلے ڈلے عمران خان کا کہنا ہے کہ ہم بھارت سے مذاکرات شروع کرنے کی کوشش کر چکے ہیں۔اگر ٹرمپ مسئلہ کشمیر حل کرا سکیں تو لاکھوں کروڑوں افراد کی دعائیں لیں گے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے ٹوئٹر پر موقف اختیار کیا کہ وزیراعظم مودی نے ثالثی کی کوئی درخواست نہیں کی ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ شملہ معاہدہ اور لاہور اعلامیہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تمام معاملات حل کرنے کیلئے بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے جواں سال رہنما عمر عبداللہ نے ٹویٹ پر سوال اٹھایا ہے کہ کیا اس بیان پر نئی دہلی حکومت صدر ٹرمپ کو جھوٹا قرار دیگی یا پھریہ مسئلہ کشمیر پر تھرڈپارٹی کے ملوث ہونے سے متعلق بھارتی موقف سے غیر اعلانیہ تبدیلی ہوچکی ہے۔ کانگریس کے ترجمان رندیپ سورج والا موقع ہاتھ سے کیسے جانے دیتے فرماتے ہیں کہ وزیر اعظم مودی کی کشمیر پر کسی تیسری طاقت کو ثالثی کی درخواست قومی مفادات کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ وزیر اعظم مودی کو قوم کو اس کا جواب دینا ہو گا۔
وزیراعظم عمران خان کی کشمیریوں سے وفا کی گواہی کسی اور نے نہیں‘سید علی گیلانی نے دی ہے۔مظلوم کشمیریوں کے حقیقی اور دبنگ قائد بزرگ سید علی گیلانی فرماتے ہیں ’’اپنی زندگی میں پہلا پاکستانی رہنما دیکھ رہا ہوں جس نے نہتے کشمیریوں کیلئے آواز اٹھائی۔‘‘ یہ معمولی گواہی نہیں ‘ کشمیر کی زندہ و جاوید تاریخ کی شہادت ہے ۔ خدشہ تھا کہ ٹرمپ نجانے کیا اناپ شناپ بولے گا لیکن صدر ٹرمپ نے جب منہ کھولا تو بھارت سمیت پاکستان دشمنوں کے کھلے منہ بند ہوگئے۔ امریکی صدر کے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے بیان نے بھارتی میڈیا میں طوفان مچادیا ہے۔ انکے ترجمان دفتر خارجہ نے ٹویٹ میں فورا ہی اس ثالثی کے اعلان سے راہ فرار اختیار کی اور دوطرفہ بات چیت کا روایتی گھسا پٹا ٹیپ چلادیا۔ شملہ معاہدہ اور اعلان لاہور کی یاد آگئی۔
تاریخی‘’اوول آفس‘ میں شلوار قمیض میں ملبوس عمران خان نے قومی لباس سے پوری دنیا کو پیغام دیا کہ وہ کسی مرعوبیت کا شکار نہیں۔ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھنے پر کئی ناقدین کو تکلیف پہنچی لیکن وہ یہ محسوس کرنے سے بوجوہ دور ہیں کہ یہ انداز کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں کی تسکین کررہا تھا۔ ممیانے اور گھگھیانے اور پرچیوں کی مدد کے بجائے، پرسکون اور کسی نفسیاتی دبائو سے پاکستان نیا پاکستان عمران خان کی صورت وائٹ ہائوس سے پوری دنیا نے دیکھا اور خوب مزہ لیا۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’’بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے میرے بڑے اچھے تعلقات ہیں۔ مودی بھی کشمیر پر ثالثی سے متعلق مجھ سے بات کر چکے ہیں، مسئلہ کشمیر پر ثالث کا کردار ادا کرنے کو تیار ہوں۔‘‘ وزیراعظم عمران خان کا جواب تھا کہ ’’برصغیرمیں امن کیلئے امریکی صدرسے کردارکی درخواست کرینگے۔‘‘ عمران خان نے کہاکہ ’’ امریکی صدر کشمیر کے تنازعہ پر ثالثی کریں تو اربوں لوگ دعا دینگے۔‘‘
بھارت پر یہ بیان اور یہ ملاقات کسی ایٹمی حملے سے کم ثابت نہ ہوئی۔ ایک طوفان برپا ہے۔ سفارت کاری سے حکمرانی کے میدان خارزار میں قدم رکھنے والے سابق سیکریٹری خارجہ جے شنکر کو لوک سبھا میں بیان دینا پڑگیا۔ کہا ’’بھارتی وزیراعظم نے امریکی صدر سے کشمیر پر ثالثی کی بات نہیں کی۔‘‘ انہوں نے امریکی صدر کو جھوٹا قرار دے دیا۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ ’’افغان مسئلہ ایک ہفتے میں حل کر سکتا ہوں مگر اس کیلئے ایک کروڑ افراد مارنا پڑینگے، میں ایسا نہیں کرنا چاہتا، پاکستان کبھی جھوٹ نہیں بولتا، وہ افغانستان میں ہماری بہت مدد کر رہا ہے۔‘‘ عالمی اخبارات میں بھی جلی سرخیوں سے اس ملاقات میں افغانستان کا ایجنڈا سرفہرست ہونے کا اعلان کیاگیا تھا۔
امریکی صدر کے اس بیان سے دشمنوں کے سینوں پر سانپ ہی لوٹ گیا ہوگا کہ ’’پاکستان کی امداد تب بند ہوئی جب عمران خان وزیر اعظم نہیں تھے، اب عمران خان اقتدار میں ہیں اور انتہائی مقبول وزیر اعظم ہیں، اب پاکستان کی امداد بحال ہو سکتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’دونوں ممالک کی باہمی تجارت میں 10 سے 12 گنا اضافہ ہو سکتا ہے، اسلام آباد سے بہتر اقتصادی اور تجارتی تعلقات چاہتے ہیں۔ پاکستان عظیم ملک ہے اور پاکستانی عوام با صلاحیت ہیں، عمران خان نے دعوت دی تو پاکستان کا دورہ کروں گا۔‘‘ اور عمران خان نے انہیں دعوت دے دی جسے امریکی صدر نے فورا قبول کرلیا۔
چھچھورے ناقدین تو باتیں بنانے کیلئے ادھار کھائے بیٹھے تھے ۔ انہیں کیپیٹل ایرینا میں کپتان کا والہانہ استقبال ہضم نہیں ہورہا ہے ساری دنیا کا میڈیا بتا رہا ہے۔ ایرینا کے اندر 30 ہزار حاضرین تھے ہزاروں افراد سٹیڈیم کے باہر موجود تھے ایک بے چارے ذہنی مریض کواپنے وزیراعظم کے استقبال پر تکلیف ہو رہی ہے وہ کسی ‘‘امریکی کلرک مائی’’ کا کلپ چلا رہا ہے کہ سٹیڈیم میں 9 یا ساڑھے 9 ہزار افراد آئے تھے عقل کے ان اندھوں سے تو یہ سوال بھی نہیں کیا جاسکتا کہ جس فنکشن کی ‘‘لائیو کوریج’’ ہورہی ہو کھلی آنکھوں سے لاکھوں کروڑوں افراد ساری دنیامیں براہ راست دیکھ رہے ہوں ایک امریکی نا آسودہ مائی کے احمقانہ بیان سے ان سب کی ‘‘ نظربندی’’ کیسے کی جاسکتی ہے ۔ ڈالروں کیلئے رقص کرنیوالے ان ‘کا ٹھے دانشوروں’ کے کیا کہنے۱۔ عمران خان کے واشنگٹن میں جلسہ کی دھوم پوری دنیا میں مچی ہے۔ دشمنوں کی زبان گنگ ہوگئی ہے اور حسد سے کسی کروٹ انہیں چین نہیں آرہا۔ عالمی اخبارات میں اس جلسے کے حوالے سے تجزیات جاری ہیں۔ موازنہ جاری ہے۔ بتایاگیا ہے کہ امریکی دارالحکومت میں 30 ہزار سے زائد پاکستانی اس اجتماع میں جمع تھے۔ خود امریکہ میں مقیم پاکستانی بھی حیران تھے جنہوں نے ایسا منظر، قومی پرچموں کی بہار، ملی نغموں کی دھنوں پر وارفتگی سے محورقص افراد کو پہلے کبھی نہیں دیکھاتھا۔مودی نے 2014ء میں میڈیسن سکوائر گارڈن نیویارک میں ساڑھے اٹھارہ ہزار بھارتیوں کو جمع کرکے تقریر کی تھی۔ عمران خان نے یہ ریکارڈ بھی توڑ دیا۔ انڈین امریکن امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے 400 شراکت دار تنظیموں کے ذریعے بھارتی وزیراعظم کے جلسے کے ٹکٹ خریدے تھے۔ اس وقت میڈیا نے اسے کسی بھی غیرملکی رہنما کا سب سے بڑا اجتماع قرار دیاتھا۔
پاکستانیوں کے اس اجتماع سے ایک طرف خود عالمی میڈیا کی آنکھیں کھل گئیں بلکہ امریکہ میں آباد دیگر اقلیتوں کو بھی پاکستانیوں کی پاکستانیت اور قوت کا علم ہوگیا۔ ان میں ڈاکٹر، انجینئر، وکلائ، روپے پیسے کے اعدادوشمار کے ماہرین، کاروباری افراد سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود تھے۔ کینیڈا اور یورپ سے بھی بڑی تعداد میں پاکستانی اس اجتماع میں شریک ہوئے۔ پاکستانیوں نے بھارتیوں سے چھ گنا بڑا جلسہ کرکے ثابت کردیا کہ وہ کچھ بھی کردکھانے کی صلاحیت اور لیاقت رکھتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 40 ڈگری کی گرمی میں جلسہ گاہ سے باہر ہزاروں لوگ سڑکوں اور گلیوں میں موجود تھے۔ اپنی خوشی کا اظہار لوگ اس طرح بھی کررہے تھے کہ ’’کوئی پوچھے تو بتانا کہ خان آیا تھا۔‘‘
عمران خان کا تین دن کا یہ دورہ امریکی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔ اس دورے کا ایک اہم پہلو سیاسی اور عسکری قیادت کا باہم یک جان اور دوقالب ہونا ہے۔ حقیقی معنوں میں ریاست پاکستان کا موقف اور بیانیہ سامنے آرہا ہے۔ صدر ٹرمپ کی زبانی مسلہ کشمیر پر ثالثی کی کہانی ہمارے کپتان خان کی سفارتی محاذ پر عظیم الشان کامیابی ہے کوئی مانے نا مانے دنیا مان رہی ہے
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024