عمران خان کے اقتدار میں آنے سے قبل کے چند اقوال:۔ ٭جب ڈالر اوپر جائے اور مہنگائی میں اضافہ ہو تو سمجھو، تمہارے حکمران چور ہیں۔ ٭آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے خود کشی کو ترجیح دوں گا۔ ٭ٹیکس ایمنسٹی سکیم اپنا چوری کا مال صاف کرنے کیلئے لائی جاتی ہے۔ ٭دوسرے ملکوں میں ٹرین حادثہ ہو تو وزیر ریلوے استعفا دیتا ہے۔
مسلسل یوٹرن، مہنگائی میں بے پناہ اضافہ۔ عوام پریشان۔ عوام سمجھتے ہیں کہ یہ عمران خان کے یوٹرن ہیں۔ ایسا نہیں۔ الیکشن سے قبل عمران خان جلسوں میں تقریر کے دوران کہا کرتے تھے ’’ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘‘ یعنی اب اگر پی ٹی آئی کو اقتدار میں نہ لایا گیا تو ’’کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک‘‘ عمران خان کی خواہش پوری ہو گئی۔ اقتدار میں آنے کے بعد حکمران عام طور پر میکیاؤلی سیاست پر عمل کرتے ہیں۔ یہ یوٹرن نہیں ہوتا۔ میکیاؤلی کی کتاب (The Prince) سولھویں صدی میں شائع ہوئی تھی۔ برسراقتدار آنے کے بعد حکمران اسکے نظریۂ سیاست پر عمل کرتے ہیں۔ یورپ کے بڑے بڑے فرماں روا اسے اپنے تکیہ کے نیچے رکھ کر سویا کرتے تھے۔ میکیاؤلی کے نظریۂ سیاست کی رو سے، سیاست کے اپنے ضوابط و اخلاق ہیں اور اپنے معیار اقدار۔ ہر وہ حربہ جس سے سلطنت کی قوت بڑھے، جائز ہے اور ہر وہ فریب جس سے کامیابی حاصل ہو جائے، لائق تحسین ہے۔ یہی جائز و ناجائز کا معیار اور حق و باطل کا پیمانہ ہے۔ میکیاؤلی کہتا ہے کہ جس طرح پانی اپنی سطح سے اونچا نہیں جا سکتا، اسی طرح انسان اپنی حیوانی سطح سے بلند ہو ہی نہیں سکتا۔ اس قسم کی کوششیں غیر فطر ی ہیں۔ ’’قوت کا نام عدل و انصاف ہے اور حق اسی کا ہے جس کے پاس قوت ہے‘‘ یہ ہے میکیاؤلی کا بنیادی اصول سیاست۔بطور سماجی سیوک عمران خان مختلف ہے اور بطور وزیر اعظم مختلف ۔عمران خان کی سوانح حیات میں لکھا گیا کہ وہ ایک ایسے ماحول میں پیدا ہوا جو مہم جوئی اور اعلیٰ مراتب کے حصول کے جذبے کی حوصلہ افزائی کرتا تھا۔ سکول جانے تک وہ سرائیکی یا پنجابی کی نسبت اردو زیادہ بولنے لگا تھا۔ اسکی والدہ اردو اورپنجابی روانی سے بولتی تھیں۔ عمران کوخود بھی اس وقت تک پنجابی زبان کی لطافتوں کا پتا نہیں چل سکا جب تک کہ وہ ایک پیشہ ور کرکٹر نہیں بن گیا۔ وہ 1971ء میں پہلی مرتبہ کھیلنے کیلئے باہر سفر پر گیا تو اس سفر کے دوران میں اسے سرفراز نواز کی محبت نہ ملی ہوتی تو اس کا پنجابی زبان سیکھنے کا شوق بیدار نہ ہوتا۔ اس نے دیکھا کہ سرفراز نہایت روانی سے پنجابی بولتا ہے اور خوب ہنسی مذاق کرتا ہے۔ اس نے بعد ازاں تسلیم کیا کہ ’’سرفراز سے ملاقات ہونے سے پہلے میں نے پنجابی زبان کو کبھی نہیں سراہا تھا‘‘ جب عمران خان لندن میں زیر تعلیم تھا تو کہا جاتا ہے کہ کچھ عرصہ اس کے والد اکرام اللہ خان نیازی اس کیلئے رقم لندن نہیں بھیج سکے تو عمران کو اپنی پاکٹ منی کمانے کیلئے ایک ریسٹورنٹ میں برتن دھونے (ڈش واشنگ) کی ملازمت حاصل کرنے جانا پڑا۔ جس طرح کہ میں نے لکھا، بطور سماجی شخصیت عمران خان مختلف تھا۔ نصرت فتح علی خان اور دلدار پرویز بھٹی سے میرے گہرے مراسم رہے۔ ان دونوں شخصیات نے شوکت خانم کینسر ہسپتال کیلئے عطیات جمع کرنے میں عمران کا بھرپور ساتھ دیا۔ عظیم ترین موسیقار، گلوکار نصرت فتح علی خان نے عمران کے عطیات جمع کرنے کے پروگراموں میں سب سے بڑھ کر شرکت کی۔ انہوں نے دنیا بھر میں پروگراموں میں شرکت کر کے عمران کا دل جیت لیا۔ 16 اگست 1997ء کو نصرت فتح علی خاں اپنے گردوں اور جگر کے کام چھوڑ دینے کی وجہ سے فوت ہو گئے تو عمران نے موسیقی سننا ہی چھوڑ دیا۔ اتفاق دیکھئے کہ نصرت فتح علی خاں اور دلدار پرویز بھٹی کا انتقال جوانی ہی میں ہو گیا۔ نصرت فتح علی خاں 49 سال کی عمر میں لندن اور دلدار پرویز بھٹی 48 سال کی عمر میں امریکا میں انتقال کر گئے۔ دلدار پرویز بھٹی، بروکلین (امریکا) میں عمران خان کے ساتھ شوکت خانم میموریل ہسپتال کیلئے عطیات جمع کرنے کے سلسلے میں گئے ہوئے تھے کہ وہیں ان کا انتقال ہو گیا۔ عمران خان نے دلدار بھٹی کی وفات پر ا پنے ایک بیان میں کہا تھا ’’دلدار پرویز بھٹی ہمارا ساتھی تھا۔ وہ شوکت خانم میموریل ہسپتال کے چندہ کی مہم میں ہمیشہ پیش پیش رہا۔ ہمدردی کی جو تڑپ میں نے اس میں پائی بہت کم لوگوں میں دیکھی ہے۔ اس نے پنجاب اور پنجابیوں کا نام روشن کیا‘‘
وقت کس طرح بدلتا ہے۔ آج میاں نواز شریف جیل میں ہے اور عمران خان کہتا ہے کہ میں کسی صورت این آر او نہیں دوں گا۔ اسی نواز شریف کے بارے میں عمران خان نے کہا تھا ’’کینسر ہسپتال کیلئے میاں نواز شریف نے بہت مدد کی۔ جب وہ وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے ہسپتال کیلئے زمین فراہم کی۔ اب بھی ہمیں ضرورت ہو گی تو ہم ان سے درخواست کریں گے اور وزیر اعظم نواز شریف سے توقع رکھیں گے کہ وہ آئندہ بھی ہماری مدد فرمائیں گے‘‘ ۔ابراہام لنکن نے کہا تھا اگر تم نے کسی شخص کا کردار آزمانا ہے تو اسے اقتدار دے دو۔ سائنس ہر سوال کا جواب دے سکتی ہے لیکن وہ تمام تر ترقی کے باوجود دو سوالوں کے جواب نہیں دے پائے گی۔ پہلا سوال یہ ہے کہ ہمارے ہونے کا کیا مقصد ہے اور دوسرا سوال یہ ہے کہ جب ہم مرتے ہیں تو ہم پر کیا گزرتی ہے؟ حکمرانوں نے کبھی اس پر غور کیا ہے۔ تفصیل پھر کبھی بیان کروں گا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024