بیرون ملک دبئی میں پیپلز پارٹی میں تبدیلی آ گئی ہے۔ اب تبدیلی صرف عمران خان کی مہمان نہیں رہی۔ اس کی تفصیل آگے چل کے مگر ایک جملہ سن لیں۔ پیپلز پارٹی میں تبدیلی آئے گی جب یہ زرداری پارٹی نہیں رہے گی۔ جب ”صدر“ زرداری کا ”شریکہ“ختم ہو گا۔ شریکہ پنجاب سندھ کلچر بلکہ انسانی کلچر میں دشمنی سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ اسے ”صدر“ زرداری نے سیاسی کلچر بنا دیا ہے۔
یہ باتیں ابھی ہوں گی مگر ابھی مجھے رمضان نہیں بھولتا۔ ایک افطار ڈنر محمود صاحب محمود انصاری کی طرف سے تھا۔ وہاں سارے عام لوگ تھے۔ ریڑھیوں والے، چائے پان بیچنے والے۔ یہی لوگ محمود صاحب کے دوست ہیں۔ وہاں سجاد میر تھا اور میں تھا ہم محمود صاحب کے دوست ہیں۔ عام لوگوں میں گھلے ملے ہم بھی عام لوگوں میں سے ہیں۔ کبھی خاص لوگ نہیں بن سکے۔ جواد فیضی تھا۔ سجاد اور جواد اینکرمین ہیں اور ہمارے اکاﺅنٹنٹ ندیم صاحب سادے دل والے آدمی ہیں مگر یہاں معروف لوگ نہ تھے یہاں کوئی بھی معروف آدمی نہ تھا۔ میں کسی کو نہ جانتا تھا۔ میرے خیال میں سب لوگ روزے سے تھے۔ جبکہ اکثر افطار پارٹیوں میں لوگ روزے سے نہیں ہوتے۔ میرے دل میں محمود صاحب کے لئے عزت مندی کچھ اور بڑھ گئی۔ میاں محمود صاحب کے بیٹے جنید علی سے لگتا تھا کہ وہ ایک دوسرے کے مہمان ہیں۔
دوسری طرف افطار پارٹی ایڈووکیٹ علی ظفر کی طرف سے تھی۔ یہاں وکیل ہی وکیل تھے مگر کوئی بھی کالے کوٹ میں نہ تھا۔ جب یہ لوگ کالاکوٹ پہن لیتے ہیں تو کچھ اور ہو جاتے ہیں۔ ہم تو بہت بڑے دانشور اور فلاحی شخصیت ایس ایم ظفر کو جانتے ہیں۔ علی ظفر ان کے بیٹے ہیں۔ سچے دل و دماغ والے منصورالرحمن آفریدی کیسے ایڈووکیٹ بن گئے مگر یہاں بھی انہوں نے بڑی بڑی معرکہ آرائیاں کیں۔ بہت دلیر اور استقامت والی محترم خاتون عاصمہ جہانگیر بہت نمایاں تھیں۔ وہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر بنائی گئیں۔ ملک بھر کے وکیلوں نے ان کی سچائی اور قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا انہوں نے ہمیشہ وکیلوں کے لئے بڑی بہادری سے نمائندگی کی۔ میرے ساتھ بہت اپنائیت سے ملیں۔ ان سے بڑا پرانا رابطہ ہے۔ وہ آفریدی صاحب کی بھی بہت عزت کرتی ہیں۔ میں جب پہنچا تو دیر ہو چکی تھی۔ آفریدی صاحب اور عالم صاحب وکیلوں کو الوداع کر رہے تھے۔ وہ مجھے اس افطار ڈنر کے میزبان کی طرح لگے۔ میں بھی ان کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ سب ایڈووکیٹ مجھ سے بھی اپنائیت سے ملتے رہے۔
الوداع کرنے سے مجھے جرمنی کی ”مس الوداع“ یاد آئی۔ ”مس فیئرویل“ جرمنی کے ایک قبرستان کی ایک خوبصورت گورکن کو یہ اعزاز ملا ہے۔ آخری بار الوداع گورکن کی طرف سے انسان کو ہوتا ہے۔ یہ الوداع کسی خوبصورت خاتون کی طرف سے ہو تو اس کی شان ہی بڑھ جاتی ہے۔ یوں تو ہر خوبصورت خاتون ”مس الوداع“ ہوتی ہے مگر کسی ایسی خاتون کو الوداع کہنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ میں مس الوداع کو مس ویلکم کہتا ہوں۔
میں سوچ رہا ہوں کہ ”صدر“ زرداری کو الوداع کہوں یا ویلکم کروں۔ وہ اب دبئی میں بیٹھ کر پارٹی کو کنٹرول کر یں گے۔ الطاف حسین بننے کی کوشش کریں گے۔ اب کئی ملکوں کے شہروں میں بیٹھ کر باہر سے سیاست اور حکومت چلانے کی کوشش کی جائے گی مگر الطاف حسین بننا ایک ایسا خواب ہے جس کی تعبیر نہیں ہے اور اگر کوئی اپنی مرضی کی تعبیر حاصل کرنے کی کوشش کرے گا تو ذلیل و خوار ہو گا۔
”صدر“ زرداری پر ابھی مقدمے تو نہیں بنے تھے؟ وہ پہلے ہی ملک چھوڑگئے۔ دبئی کو اپنا گھر وہ بنا چکے ہیں۔ ہماری حکومتوں کے فیصلے باہر سے ہوتے ہیں۔ زرداری صاحب ایوان صدر میں پہنچ گئے تو اب کوئی ان سے پوچھے کہ وہ کس رستے سے ہیں۔بہت پہلے ہم نے ایک نعرہ سنا تھا جب دولت جمع کرنے کے لئے لوگ قطار اندر قطار دبئی جا رہے تھے۔ چلو چلو دبئی چلو۔ اب دولت پاکستان میں جمع کی جائے گی مگر وہ محفوظ دبئی میں کی جائے گی۔
دبئی زرداری صاحب کے لئے سسرال تھا کہ ان کی اہلیہ شہید بی بی بینظیر بھٹو زندہ تھیں اور دبئی میں جلاوطنی کاٹ رہی تھیں۔ اب دبئی زرداری کے لئے میکہ ہے کہ ان کی بہن فریال تالپور ذاتی جلاوطنی دبئی میں کاٹ رہی ہیں۔ سندھ حکومت کے اہلکاروں کا اجلاس دبئی میں ”صدر“ زرداری نے بلایا۔ کراچی سے کوئی پچیس تیس آدمی وہاں پہنچے۔ زرداری صاحب نے فریال اور بلاول کے ساتھ اجلاس کی صدارت کی۔ یہ سب اخراجات سندھ حکومت کی طرف سے قائم علی شاہ نے برداشت کئے۔ یہ وزیر اعلیٰ کا صوابدیدی فنڈ ہے۔
سندھ حکومت میں بہت تبدیلیاں کی گئیں۔ ایک وزیر کو دوسرا محکمہ دے دیا گیا ہے کہ اب یہاں اپنی نااہلی اور کرپشن کی ”معرکہ آرائی“ کرو مگر وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کو نہیں بدلا گیا۔ یعنی ٹیم میں تبدیلیاں کی گئیں مگر کپتان تبدیل نہیں کیا گیا۔ ایسی صورت میں کرکٹ میں تو ہمیشہ ناکامی ہوئی تو کوڑا کرکٹ یعنی سیاست و حکومت میں کامیابی کیسے ہو سکتی ہے؟
چاہئے تو یہ تھا کہ بلاول کراچی میں اپنے والد کے آمرانہ روئیے سے دور اکیلے میں اجلاس بلاتا اور یہی فیصلے کرتا تو ان کی نوعیت کچھ اور ہوتی۔ اب تو یہ ”ایوان صدر“ سے کسی حکمنامے کی طرح کی بات ہے۔
”صدر“ زرداری کے ساتھ بیٹھے ہوئے بلاول کی بیزاری اور بے بسی کمال کی تھی وہ صورتحال سے بالکل لاتعلق تھا۔ اس کی باڈی لینگوئج اس کے مظلوم اور ویران چہرے کے تاثرات پر ترس آتا ہے۔ ان اقدامات سے پارٹی کا زیادہ نقصان ہو گا۔
جب تک ”صدر“ زرداری کا ”شریکہ“ ختم نہیں ہو گا تو بینظیر بھٹو کی اور بھٹو صاحب کی سیاست بحال نہیںہو پائے گی جو تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ پیپلز پارٹی میں ”صدر“ زرداری کا عمل دخل معمولی سا بھی ہو گا تو کسی تبدیلی کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ تبدیلی یہ ہے کہ قائم علی شاہ کو ہٹایا جائے اور ”صدر“ زرداری شریکے سے پوری طرح دستبردار ہوں۔ اختیارات کی فرعونیت ”صدر“ زرداری کا کمپلیکس ہے۔ وہ صدر تھے تو صرف وہی تھے اور اب بھی وہ یہی سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی صورتحال انہیں قبول نہیں ہے۔ بلاول ان کا بیٹا ہے اور اس طرح ان کا مدمقابل بھی ہے۔ بلاول کے لئے بھی یہی بہتر ہے کہ وہ اس مقابلے سے پیچھے ہٹ جائے مگر پھر بھی ”صدر“ زرداری خود کو ان کا مدمقابل ہی سمجھیں گے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی ”صدر“ زرداری کو پارٹی میں چیلنج کرنے والا نہیں ہے تو پھر چیلنج کیا ہے؟
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024