عام لوگوں کو علم نہیں کہ ایف آئی آر کن الفاظ کا مخفف ہے ۔ زیادہ افراد اسے فرسٹ انویسٹی گیشن رپورٹ ہی کہتے ہیں ۔ FIRسے مراد فرسٹ انفرمیشن رپورٹ ہے ۔ ابتدائی اطلاعی رپورٹ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 154 کے تحت درج کی جاتی ہے ۔ ہر جرم کی ایف آئی آر ضروری نہیں ۔ صرف قابل دست اندازی جرم پر ایف آئی آر کا اندارج عمل میں لایا جاتا ہے ۔ ناقابل دست اندازی جرم پر رپٹ تحریر کرکے سائل کو عدالت کا دورازہ کھٹکھٹانے کیلئے رہنمائی کی جاتی ہے ۔
ایف آئی آر اور رپٹ تحریر کرنا محرر کا فرض اولین ہے ۔ ایف آئی آر کٹوانا ہر شہری کا حق ہے ۔ شرط یہ ہے کہ جرم قابل دست اندازی سر زد ہو ۔ ایک عرصہ سے عوام کی طرف سے یہ شکایات وصول ہورہی تھیں کہ ان کی ابتدائی اطلاعی رپورٹ درج کرنے سے احتراز کیا جارہا ہے ۔
آر پی او گوجرانوالہ نے ایف آئی آر کے اندارج کو یقینی بنایا ہے۔ اب یہ شہریوں کا فرض ہے کہ وہ جھوٹی ایف آئی آر لکھوانے سے گریز کریں۔ایف آئی آر کے اندراج بارے افسران بالا کی ہدایات پر عمل نہ کرنے پر کئی ایک پولیس افسران کو محکمانہ سزائیں دی گئی ہیں ۔
ابتدائی اطلاعی رپورٹ کے اندارج کیلئے پولیس افسران کو فری ہینڈ دیا ہوا ہے گوجرانوالہ میں اس ضمن میں اتنی سختی کی ہوئی ہے کہ کوئی پولیس آفیسر پرچہ تاخیر سے درج کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔شنید ہے کہ کچھ عرصہ بعد ایف آئی آر بذریعہ ای میل بھی درج ہو سکے گی۔ مسئلہ یہاں بھی درپیش ہوگا کہ رپورٹ سچی ہو اور اسی میں بہتری ہے۔ یوں انصاف بھی میسر آ سکتا ہے اور دشمنیاں ختم ہوں گی۔ پنجاب بھر کے تھانوں میں کمپیوٹر رکھے جارہے ہیں اور یوں پرچوں کا ریکارڈ کمپیوٹر میں فیڈ کیا جارہا ہے۔ پہلے ایف آئی ار کی کاپی حاصل کرنے کے لئے قانونی پراسیس سے گزرنا پڑتا تھا اب تھانوں میں کمپیوٹر آنے کی وجہ سے انٹرنیٹ کے ذریعہ ایف آئی آر ڈائون لوڈ کرنے کی سہولت عوام کو مل جائے گی۔عوام کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ سچی ایف آئی آر درج کروائیں ۔
دیکھنے میںیہ آیا ہے کہ قابل دست اندازی جرم کی رپورٹ صحیح لکھانے سے چشم پوشی کی جاتی ہے ۔ مخالفین کو نیچا دکھانے کیلئے زیادہ سے زیادہ نام درج کروائے جاتے ہیں اس غیر ذمہ دارانہ حرکت سے دشمنیاں بڑھتی ہیں ۔ مقدمہ بھی خراب ہوجاتا ہے ۔ ایک شخص کے قتل ہونے پر مخالفین کے زیادہ سے زیادہ افراد کو پرچہ میں نامزد کردیا جاتا ہے ۔ انسانی جان کا قتل بہت بڑا ظلم ہے ۔
ایسا بھی ہوتاہے کہ مدعی بے گناہوں کو قتل میں ملوث کرکے خود بھی ظالم بن جاتاہے۔ مقدمہ درج کرنے سے پہلے مدعی کا بھی فرض ہے کہ وہ سچ پر مبنی تحریر یا بیان ایف آئی آر میں در ج کروائے۔ ایف آئی آر کے چار پر ت ہوتے ہیں۔ پہلا تھانے میں دائمی ریکارڈرہ جاتا ہے ۔ دوسرا سٹی‘ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ‘ تیسرا علاقہ مجسٹریٹ‘ سول جج اور چوتھا مدعی کو وصول کروایا جاتاہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب کاربن پیپرکے بغیر گزار ممکن نہیں تھا۔ اب چونکہ فوٹو کاپی اور کمپیوٹر کی سہولت میسر ہے لہذا ایف آئی آر کی کاپیاں کروا کرایس پی انویسٹی گیشن‘ متعلقہ ڈی ایس پی وغیرہ کو بھی پرت بھجوائے جاتے ہیں۔ میرے خیال میں ایک ضمیر کا پرت بھی ہونا چاہیے جو مدعی کیلئے ہوتا کہ وہ سچی رپورٹ درج کروائے ۔
یہ ضروری نہیں کہ ہر مدعی غلط رپورٹ ہی کرئے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایف آئی آر کے درج کرواتے وقت دال میں کچھ کا لا کا لا ضرور ٹپک پڑتا ہے۔مدعی کے نا م نہاد چاہنے والے پارٹی باز اسے بے گناہ افراد کے نام بھی لکھوانے پر مجبور کردیتے ہیں ۔ مدعی پریشان ہوتا ہے اور اپنے بہی خاہوں کی بات ماننے کیلئے بے بس ہوتا ہے ۔اسے ہوش تب آتا ہے جب اس کا پرچہ خراب ہوجاتا ہے۔
امید ہے کہ ایف ائی آر کا اندراج کروانے والے شہری بھی اپنے ضمیر سے کلیرنس لیکر پھر کوئی قدم اٹھائیں گے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024