جمہوریت کی بقاءکیلئے سیاستدان صبروتحمل کا مظاہرہ کریں
رحمت خان وردگ
پاکستان میں توانائی کے بحران‘ معاشی حالات‘ امن و امان کی صورتحال نیز کسی بھی پہلو سے حالات انتہائی دگرگوں ہیں مگر ہماری مسلح افواج صرف اور صرف اپنے پیشہ ورانہ امور کی جانب توجہ مبذول رکھے ہوئے ہیں اور موجودہ حکومت میں حالات کی خرابی کی ذمہ داری مسلح افواج پر کسی بھی طرح عائد نہیں کی جا سکتی اور فی الوقت مسلح افواج کی جانب سے کسی بھی طرح کی مداخلت کا کوئی امکان بھی نہیں ہے۔
جمہوریت ایسا نظام ہے جس میں ووٹوں سے منتخب ہونےوالے اپنی کارکردگی کی بنیاد پر اپنا مستقبل محفوظ کر سکتے ہیں اور عوام بھی خوب سے خوب تر کو تلاش کر سکتے ہیں یعنی اس بار آپ کو ووٹ مل گئے ہیں تو کام کریں اور عوام کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اگلے انتخابات تک اپوزیشن اپنی باری کا انتظار کرے۔زرداری حکومت کے اب 6 ماہ باقی ہیں لیکن سیاستدانوں سے اب یہ 6 ماہ کا انتظار کیوں نہیں ہو رہا؟ پاکستان کے عوام نے ساڑھے چار سال میں ہر طرح کے عتاب‘ سیلاب‘ لوڈشیڈنگ‘ گیس کی بندش‘ ٹارگٹ کلنگ اور بے انتہا مصائب برداشت کئے ہیں اب یہ چھ ماہ بھی گزر ہی جائیں گے۔اگر فرض کر لیا جائے کہ موجودہ حکومت بدعنوان ترین حکومت ہے لیکن اس میں جمہوریت کا تو کوئی قصور نہیں۔ جمہوری حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا پورا حق حاصل ہے اور تمام تر خامیوں کے باوجود نظام جاری رہنا چاہئے اور چھ ماہ بعد الیکشن میں پاکستانی قوم ووٹ کے ذریعے اپنی تقدیر کا فیصلہ خودکر لے اور یہی طریقہ سب سے بہتر ہے کیونکہ اسکے علاوہ تمام طرح کے شارٹ کٹ سے ملک اور نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اور خصوصاً سندھ میں نفرت میں اضافہ ہوگا کیونکہ پہلے بھی پیپلزپارٹی کی 3 حکومتیں قبل ازوقت ختم کی جاچکی ہیں۔
جہاں تک بات ”بدعنوانی“ کی ہے تو یہ صرف پاکستان کے صاحب اختیار لوگوں کا وطیرہ نہیں رہا بلکہ فلپائن کی صدر گلوریا ارویو صدارت کا عہدہ چھوڑتے ہی بدعنوانی کے الزامات کی زد میں آئیں۔ فرانس کے صدر نکولس سرکوزی بھی انکوائری کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ زرداری صاحب نے کرپشن کی انتہا کرکے سوئس اکاﺅنٹس کو بھرا ہو مگر کیا اسکے علاوہ پاکستان اور اسکی کروڑوں عوام کا کوئی اور مسئلہ نہیں؟
ہمیں چاہئے کہ فی الوقت ہم عوام کے بنیادی مسائل اور انکے حل کی طرف توجہ دیں اور کچھ ماہ بعد جب زرداری صاحب کی صدارت کی مدت مکمل ہو جائےگی اور آئینی استثنٰی ختم ہو جائےگا تو ہم ان کےخلاف اس وقت کارروائی کر سکتے ہیں اور اس میں اب وقت ہی کتنا رہ کیا ہے۔اداروں کے درمیان موجودہ تصادم کی کیفیت میں وکلاءبرادری کے کچھ لوگ‘ میڈیا کے کچھ لوگ اور چند سیاسی عناصر حکومت کا فوری خاتمہ چاہتے ہیں اور میڈیا کے کچھ لوگ تو حکومت کے قیام کے پہلے ہی دن سے اسکے فوری خاتمے کے خدشات کا مسلسل اظہار کر رہے ہیں مگر ابھی تک انکی خواہش پوری نہیں ہو سکی لیکن یہ لوگ بھی تھکنے کا نام نہیں لیتے اور روزانہ ہی حکومت کے گرنے کی کئی وجوہات پر مشتمل ایک نیا پروگرام تیار کرکے آجاتے ہیں۔ وکلاءبرادری کے چند لوگ بھی عدلیہ اور حکومت تصادم میں بڑھ چڑھ کر دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور عدلیہ سے تصادم میں قانونی نکات پر بات کرنا ہی ان کا پیشہ ہے اس لئے وکلاءبرادری اور میڈیا کو اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہئے۔
چند سیاستدانوں کو اب کیا جلدی ہے؟ انہیں یہ خبر نہیں کہ عدالتی مداخلت اور متوقع تصادم سے جمہوری نظام لپیٹا جا سکتا ہے اور اس کا سب سے زیادہ نقصان بھی انہی سیاستدانوں کو ہو گا جن کے اقتدار میں آنے کے امکانات ہیں مگر وہ اعلٰی عدلیہ اور حکومت کے تصادم کی صورتحال میں آنکھیں بند کرکے عدلیہ کے شانہ بشانہ پرزور بیانات دے رہے ہیں۔
توہین عدالت کے قانون میں تبدیلی سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت عدلیہ سے تصادم کے راستے پر گامزن ہے اور ساڑھے چار سال حکومت کے مزے لوٹتے والے پیپلزپارٹی کے لیڈر تو اب یہی چاہیں گے کہ ایسا تصادم کیا جائے کہ جمہوریت کو لپیٹ کر طویل عرصے کی نگران حکومت قائم ہو جس کی مدت کے دوران ہی چیف جسٹس اور اعلٰی فوجی قیادت سبکدوش ہو جائے اور اپوزیشن کی جماعتوں کو بھی اقتدار نہ مل سکے اور اسی دوران بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ کو پیپلزپارٹی کی سربراہی پر براجمان کرکے دوبارہ جمہوریت کے آغاز اور اقتدار پر قبضے کی جدوجہد شروع کی جائے۔اس صورتحال میں اقتدار میں آنے کیلئے مسلم لیگ (ن) کےلئے یہی حکمت عملی سب سے مناسب ہے کہ وہ چھ ماہ انتہائی محتاط طریقے سے سیاست کرکے جمہوری نظام کے تحفظ کیلئے محتاط سیاست کرے کیونکہ مسلم لیگ (ن) کےلئے اقتدار میں آنے کا یہی واحد طریقہ ہے کہ وقت پر انتخابات ہوں اور وہ اکثریت حاصل کرکے اقتدار میں آجائیں اور اگر ایسا نہ ہوا اور موجودہ اداروں کے تصادم کی کیفیت میں نظام کی بساط لپیٹ دی گئی تو مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ کیا آئےگا؟ اس لئے مسلم لیگ (ن) کو چاہئے کہ اب چاہے ”فرینڈلی اپوزیشن“ کے جتنے بھی طعنے دیکر انہیں طیش دلانے کی کوشش کی جائے لیکن وہ طیش میں نہ آئیں اور صرف نظام بچانے کیلئے مارکٹائی‘ چیخ و پکار‘ مکہ بازی اور ہلڑ بازی کی سیاست کو 6 ماہ کےلئے مکمل طور پر ترک کرنے کےساتھ ساتھ عدلیہ اور حکومت کے تصادم میں بھی غیر ضروری جانبداری کا مظاہرہ نہ کریں کیونکہ پیپلزپارٹی کی کوشش ہے کہ وہ عدلیہ کے ذریعے سیاسی شہید بن کر مظلومیت کا نعرہ لگائے اور لمبے عرصے کی نگران حکومت قائم ہوجائے تاکہ عوام پیپلزپارٹی کی حکومت کی تمام تلخیاں بھول جائیں اور اس دوران پیپلزپارٹی دوبارہ جمہوریت کی بحالی کی تحریک کی رہنمائی کر سکے۔
بڑی پارٹیوں کا فرض ہے کہ جمہوریت کے تحفظ کے لئے کام کریں اور قربانیاں دیں جس طرح اب تک میاں نواز شریف نے انتہائی صبر وتحمل سے کام لیا ہے جس کی وجہ سے ان پر ”فرینڈلی اپوزیشن“ کا چھاپ بھی لگائی گئی مگر وہ تحمل سے جمہوریت کے تحفظ کیلئے برسرپیکار رہے ہیں اس لئے جمہوریت کے تحفظ کیلئے میاں نوازشریف خراج تحسین کے مستحق ہیں اوراب بھی میاں نوازشریف کو چاہئے کہ وہ جمہوریت کے تحفظ کیلئے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں کیونکہ جمہوریت کا تحفظ سب سے زیادہ سیاستدانوں پر فرض ہے اور اداروں کے درمیان تصادم میں سیاستدانوں کو غیرجانبدار رہنا چاہئے اور ویسے بھی اب انتخابات میں بہت کم وقت رہ گیا ہے۔