غضب خدا کا، یہ انسانی لاشوں پر بھی سیاست کرنے سے باز نہیں آرہے۔ حکومت میں موجود ہیں، منتخب ایوانوں کے اندر بیٹھے ہیں۔ گھروں کے اندر، سڑکوں پر اور گلیوں بازاروں میں انسانوں کو پرندوں کی طرح شکار کیا جا رہا ہے۔ یہ محض بے بسی کا اظہار کرکے اور ایک دوسرے پر ملبہ ڈال کر اپنا دامن چھڑا لیتے ہیں جیسے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کا آئینی فریضہ ان کے فرائض منصبی میں شامل ہی نہ ہو۔ ایسی بے چارگی کبھی دیکھی نہ تھی۔ حکمرانیاں بھی چل رہی ہیں اور خلق خدا کے چل چلاﺅ کا اہتمام بھی ہورہا ہے۔ اب تو راہ چلتے کسی انسان کے گولیوں سے چھلنی ہونے پر ہمدردی کے دو بول بھی انہیں گوارا نہیں۔ اگر یہ تدبر سے کوئی تدبیر کریں تو کیسے ممکن نہیں کہ دستانے پہنے آزادانہ گھومتے پھرتے قاتلوں کی سرکوبی ہو اور معصوم و مظلوم انسانوں کی بھی جان میں جان آجائے مگر صورتحال ایسی بنی ہوئی ہے کہ
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ جو دکھ ہمیں تھے بہت لا دوا نہ تھے
بلوچستان اور کراچی پر کیا آسیب کا سایہ ہے کہ وہاں امن و سکون انسانوں کے مقدر سے الگ ہوگیا ہے؟۔ ایک دن بلوچستان کے کسی علاقے سے کسی لیڈر اور کسی سیٹلر کو راہ چلتے یا کسی پبلک مقام پر بیٹھے نشانہ باندھ کر اڑا دینے کی خبر آتی ہے تو اگلے دن کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے دلدوز واقعات کی خبریں سن کر دل مٹھی میں بھنچ آتا ہے۔ خدا خیر کرے، ہم کسی جنگل کے معاشرے میں رہ رہے ہوں تو وہاں بھی زور آوروں کی بادشاہی سہی، بے بسی کی حکمرانی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ جنگل کا بادشاہ جاگ رہا ہو اور کوئی ”درانداز“ آکر اسکی مخلوق کو ادھیڑ جائے۔ ایسے تو اسکی بادشاہی پر ہی حرف آئیگا اور گیدڑ تک پر اس کی دھاک ختم ہوجائیگی۔
تو کیا ہم جنگل سے بھی گئے گزرے کسی مقہور معاشرے کے باسی ہیں جہاں شرفِ انسانیت تو کجا، انسانیت ہی عنقا ہوچکی ہے، جہاں کسی انسان کے مرنے کا دکھ اب دکھوں میں شمار ہی نہیں ہوتا، جہاں بے بسی بے حسی میں تبدیل ہوچکی ہے، جہاں صرف ایک ہی سوچ غالب ہے کہ میری زندگی تو بسر ہورہی ہے ناں، باقی سب جائیں بھاڑ میں اور جہاں
قوم پر طاری ہوا ہے چھین لینے کا جنوں
اور پاگل پن میں ہے سرکار، الٰہی خیر ہو
کسی ریاست میں شہریوں کے جان و مال کے تحفظ اور ان کی باعزت گزر اوقات کیلئے ان کی چھت، روزگار، صحت اور تعلیم کی سہولتوں کی فراہمی ہی والی ¿ریاست کے اوّلین فرائض بنتے ہیں۔ اگر ان میں سے کسی ایک فریضے کی ادائیگی میں بھی کمی رہ جائے تو والی ¿ریاست کی حکمرانی کا جواز ختم ہوجاتا ہے مگر یہاں تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں جتنے انسانی حقوق غصب ہوتے ہیں، جتنی انسانی جانیں کھڑے کھڑائے اور بیٹھے بٹھائے لاشوں میں تبدیل ہوتی ہیں اور بھوک سے عاجز انسانوں میں خودکشی اور خودسوزی کا راستہ اختیار کرنے کا ”شعور“ جتنا زیادہ اجاگر ہوتا ہے اتنا ہی ہماری حکمرانیاں مستحکم ہوجاتی ہیں۔ اتنا ہی حرصِ جاہ و منصب تیز ہوجاتی ہے۔ یا خدا، ہم انسانوں کے معاشرے میں رہ رہے ہیں یا کسی اور ہی دنیا میں برباد ہیں؟ع
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
گزشتہ روز ایک ٹی وی ٹاک شو میں تمام جماعتوں کے ”عالی دماغ“ بیٹھے قیافے اور گویڑ لگا رہے تھے۔ ایک وزیر مملکت کی تان یہاں آکر ٹوٹی کہ یہ سب افغانستان کے حالات کا شاخسانہ ہے اور یہ حالات امریکی سرد جنگ سے اب تک ہمارے خلاف چل رہے ہیں۔ ان کے اقتداری حلیف کی رائے میں کراچی کی ٹارگٹ کلنگ لینڈ مافیا کی کارستانی ہے یا قبائلی علاقوں میں جہادیوں کی خوشی سے یا مجبوراً معاونت کرنیوالے جو مقامی باشندے معاونت سے ہاتھ کھینچتے بچ بچا کر کسی طریقے سے کراچی اور دوسرے شہروں میں رہائش پذیر ہوگئے ہیں۔ ان کا پیچھا کرکے ٹارگٹ کلنگ کی جا رہی ہے جبکہ تیسرے صاحب دونوں اقتداریوں کی آپس کی کھینچاتانیوں کو ٹارگٹ کلنگ کی وجہ بنا رہے تھے مگر یہ سلسلہ رکنا کیسے ہے اور روکنا کس نے ہے، اس بارے میں کوئی تدبر ہے نہ تدبیر۔ جب وزیر مملکت یہ کہہ کر اپنی بے بسی کا اظہار کررہے ہوں کہ کسی جگہ پر قبضہ متعلقہ علاقے کے تھانیدار کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتا اور یہ تھانیدار ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں تو بخوبی اندازہ لگالیجئے کہ موجودہ حکمرانیوں میں ٹارگٹ کلنگ رک سکتی ہے؟ شرف انسانیت کا بول بالا ہوسکتا ہے؟ فلاحی انسانی ریاست تو کجا، انسانی ریاست کا تصور بھی اجاگر ہوسکتا ہے؟ اور انسانوں کی جان و مال کی حفاظت کے فریضہ میں غفلت اور کوتاہی پر کسی کی جوابدہی کی جاسکتی ہے؟ اقتداریوں کی حکمرانیوں میں انسانیت کی تکریم اور انسانوں کی فلاح کے الفاظ تو مشکوک و متروک قرار پائے ہیں۔ ان کی زندگیوں کی حفاظت کے جان جوکھوں والے فریضے پر بھلا کون توجہ دیگا۔ اس لئے ایسی حکمرانیوں سے خلاصی پاﺅ گے تو ٹارگٹ کلنگ سے بھی بچ پاﺅ گے ورنہ ع
جو بے بسی ہے اسے اوڑھ کر جیو
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ جو دکھ ہمیں تھے بہت لا دوا نہ تھے
بلوچستان اور کراچی پر کیا آسیب کا سایہ ہے کہ وہاں امن و سکون انسانوں کے مقدر سے الگ ہوگیا ہے؟۔ ایک دن بلوچستان کے کسی علاقے سے کسی لیڈر اور کسی سیٹلر کو راہ چلتے یا کسی پبلک مقام پر بیٹھے نشانہ باندھ کر اڑا دینے کی خبر آتی ہے تو اگلے دن کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے دلدوز واقعات کی خبریں سن کر دل مٹھی میں بھنچ آتا ہے۔ خدا خیر کرے، ہم کسی جنگل کے معاشرے میں رہ رہے ہوں تو وہاں بھی زور آوروں کی بادشاہی سہی، بے بسی کی حکمرانی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ جنگل کا بادشاہ جاگ رہا ہو اور کوئی ”درانداز“ آکر اسکی مخلوق کو ادھیڑ جائے۔ ایسے تو اسکی بادشاہی پر ہی حرف آئیگا اور گیدڑ تک پر اس کی دھاک ختم ہوجائیگی۔
تو کیا ہم جنگل سے بھی گئے گزرے کسی مقہور معاشرے کے باسی ہیں جہاں شرفِ انسانیت تو کجا، انسانیت ہی عنقا ہوچکی ہے، جہاں کسی انسان کے مرنے کا دکھ اب دکھوں میں شمار ہی نہیں ہوتا، جہاں بے بسی بے حسی میں تبدیل ہوچکی ہے، جہاں صرف ایک ہی سوچ غالب ہے کہ میری زندگی تو بسر ہورہی ہے ناں، باقی سب جائیں بھاڑ میں اور جہاں
قوم پر طاری ہوا ہے چھین لینے کا جنوں
اور پاگل پن میں ہے سرکار، الٰہی خیر ہو
کسی ریاست میں شہریوں کے جان و مال کے تحفظ اور ان کی باعزت گزر اوقات کیلئے ان کی چھت، روزگار، صحت اور تعلیم کی سہولتوں کی فراہمی ہی والی ¿ریاست کے اوّلین فرائض بنتے ہیں۔ اگر ان میں سے کسی ایک فریضے کی ادائیگی میں بھی کمی رہ جائے تو والی ¿ریاست کی حکمرانی کا جواز ختم ہوجاتا ہے مگر یہاں تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں جتنے انسانی حقوق غصب ہوتے ہیں، جتنی انسانی جانیں کھڑے کھڑائے اور بیٹھے بٹھائے لاشوں میں تبدیل ہوتی ہیں اور بھوک سے عاجز انسانوں میں خودکشی اور خودسوزی کا راستہ اختیار کرنے کا ”شعور“ جتنا زیادہ اجاگر ہوتا ہے اتنا ہی ہماری حکمرانیاں مستحکم ہوجاتی ہیں۔ اتنا ہی حرصِ جاہ و منصب تیز ہوجاتی ہے۔ یا خدا، ہم انسانوں کے معاشرے میں رہ رہے ہیں یا کسی اور ہی دنیا میں برباد ہیں؟ع
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
گزشتہ روز ایک ٹی وی ٹاک شو میں تمام جماعتوں کے ”عالی دماغ“ بیٹھے قیافے اور گویڑ لگا رہے تھے۔ ایک وزیر مملکت کی تان یہاں آکر ٹوٹی کہ یہ سب افغانستان کے حالات کا شاخسانہ ہے اور یہ حالات امریکی سرد جنگ سے اب تک ہمارے خلاف چل رہے ہیں۔ ان کے اقتداری حلیف کی رائے میں کراچی کی ٹارگٹ کلنگ لینڈ مافیا کی کارستانی ہے یا قبائلی علاقوں میں جہادیوں کی خوشی سے یا مجبوراً معاونت کرنیوالے جو مقامی باشندے معاونت سے ہاتھ کھینچتے بچ بچا کر کسی طریقے سے کراچی اور دوسرے شہروں میں رہائش پذیر ہوگئے ہیں۔ ان کا پیچھا کرکے ٹارگٹ کلنگ کی جا رہی ہے جبکہ تیسرے صاحب دونوں اقتداریوں کی آپس کی کھینچاتانیوں کو ٹارگٹ کلنگ کی وجہ بنا رہے تھے مگر یہ سلسلہ رکنا کیسے ہے اور روکنا کس نے ہے، اس بارے میں کوئی تدبر ہے نہ تدبیر۔ جب وزیر مملکت یہ کہہ کر اپنی بے بسی کا اظہار کررہے ہوں کہ کسی جگہ پر قبضہ متعلقہ علاقے کے تھانیدار کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتا اور یہ تھانیدار ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں تو بخوبی اندازہ لگالیجئے کہ موجودہ حکمرانیوں میں ٹارگٹ کلنگ رک سکتی ہے؟ شرف انسانیت کا بول بالا ہوسکتا ہے؟ فلاحی انسانی ریاست تو کجا، انسانی ریاست کا تصور بھی اجاگر ہوسکتا ہے؟ اور انسانوں کی جان و مال کی حفاظت کے فریضہ میں غفلت اور کوتاہی پر کسی کی جوابدہی کی جاسکتی ہے؟ اقتداریوں کی حکمرانیوں میں انسانیت کی تکریم اور انسانوں کی فلاح کے الفاظ تو مشکوک و متروک قرار پائے ہیں۔ ان کی زندگیوں کی حفاظت کے جان جوکھوں والے فریضے پر بھلا کون توجہ دیگا۔ اس لئے ایسی حکمرانیوں سے خلاصی پاﺅ گے تو ٹارگٹ کلنگ سے بھی بچ پاﺅ گے ورنہ ع
جو بے بسی ہے اسے اوڑھ کر جیو