عارفہ صبح خان
امریکہ نے ایک طرف جنرل میک کرسٹل کو برطرف کر کے حیران کر دیا جس سے افغانستان جنگ اور امریکی حکمت عملی میں تبدیلی کے واضح آثار نظر آئے تو دوسری جانب اچانک ہی امریکہ نے 3ایف 16، طیارے پاک فضائیہ کے حوالے کر دیے۔ کسی زمانے میں جب جنرل ضیاالحق مرحوم کے امریکہ سے بڑے مراسم تھے تو مرحوم نے ایف 16 کی خریداری کی۔ اگرچہ یہ آئیڈیا مرحوم ضیاالحق کا ذاتی نہیں تھا۔ اس کی تحریک اور تجسس شوق بھی امریکہ نے خود مرحوم پاکستانی صدر کے دل میں سرایت کیا تھا۔ ضیاالحق نے ایف سولہ طیاروں کی جوش میں قبل از ادائیگی بھی کر دی مگر امریکہ نے ایف 16کا معاملہ لٹکا دیا۔ مرحوم صدر ایف 16طیاروں کے دیدار کے لئے ترس گئے لیکن ادائیگی کے باوجود امریکہ لیت و لعل سے کام لیتا رہا۔ بعد میں ایف 16 قسطوں میں گئے۔ شنید ہے کہ ایف 16طیارے امریکہ کے کام کے نہیں رہے تھے اور انہیں زنگ لگنے لگا تھا تو وہ پاکستان کو دیے گئے۔ اب اچانک امریکہ کی یہ مہربانی سمجھ سے بالاتر ہے۔ تب امریکہ کو روس جیسی سپر پاور کو گرانا تھا لہٰذا افغانستان کی آڑ میں امریکہ نے روس کے ٹکڑے کئے۔ اگرچہ افغانستان کو سارا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ تیسری دنیا کے ممالک کا یہی سنگین مسئلہ ہے کہ یہاں اقتدار کا مزا لوٹنے والوں کا مزا دوبالا ہو جاتا ہے لیکن عوام پس کر رہ جاتی ہے۔ اس وقت بھی افغانستان کے بعض سرکردہ افراد اور پاکستان میں مقتدر شخصیات کو بے پناہ فوائد پہنچے۔ ان ثمرات کے نتائج آج اس کی نسلوں میں دیکھے جا سکتے ہیں جو آج اس قدر امیر ہیں کہ تب سے اب تک بیٹھ کر کھا رہے ہیں اور ان کے اثاثے شمار کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ افغانستان میں بے شمار غریب سپاہی اور مجاہدین مارے گئے۔ عورتیں بیوہ، بچے یتیم ہوئے لیکن کچھ لوگوں کو فائدہ پہنچ گیا۔ امریکہ نے ایسے ہی حالات اور بدگمانیاں 1990ء میں خلیج جنگ کے موقع پر پیدا کیں۔ عراق کے صدر صدام حسین کو اپنے اقدامات سے ہیرو بنایا۔ عراق کویت جنگ کا مسئلہ چھیڑ کر امریکی فوج سعودی عرب جا بیٹھی اور 1990ء سے 2010ء تک بیس سالوں ان تینوں ملکوں سے تیل ایسے نچوڑا ہے جیسے لیموں سے رس نچوڑا جاتا ہے۔ بعد ازاں نائن الیون کے نام پر وہی ہیرو صدام حسین ولن بنا دیا گیا۔ دنیا جانتی ہے کہ جن کیمیائی ہتھیاروں کے نام پر عراق کو خون کے کنوﺅں میں تبدیل کیا گیا۔ آج تک وہ کیمیائی ہتھیار عراق سے نکال کر پیش نہیں کئے گئے بلکہ ان کا کوئی معمولی سا ثبوت بھی نہیں دیا گیا۔ صدام حسین کو جس طرح ٹھڈے مار کر پھانسی چڑھائی گئی.... اگر مسلم دنیا میں رتی برابر بھی حمیت و غیرت ہوتی تو مسلم دنیا امریکہ کو اس کا منہ توڑ جواب دیتی لیکن مسلمانوں کی تنظیم او آئی سی، آر سی ڈی سبھی کو سانپ سونگھ گیا۔ ضیاالحق کا جہاز کریش حادثاتی نہ تھا۔ اسی طرح یاسر عرفات کی موت بھی غیرت کے ہزار پہلو لئے ہوئے ہیں۔ یاسر عرفات کو آخری وقت میں ان کی یہودی بیوی کے ذریعے ایسی ادویات دی گئیں جس سے وہ ذہنی و جسمانی طور بالکل مفلوج ہو گئے اور آخر میں زہر خورانی کے ذریعے آخرکار یاسر عرفات کو ملک عدم روانہ کر دیا گیا لیکن اسلامی دنیا حرکت میں نہیں آئی۔ یہی وہ پوائنٹ ہے جس کی وجہ سے امریکہ کبھی شام پر آنکھیں نکالتا ہے تو کبھی ایران کو دھمکیاں دیتا ہے اور کبھی پاکستان کے حکمرانوں کو ڈکٹیشن دیتا ہے۔ امریکہ کی نیت نیک ہوتی تو وہ کبھی بھارت کو شہ نہ دیتا۔ امریکہ خطے میں فی الحال بھارت کی برتری چاہتا ہے کیونکہ وہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت و مقبولیت سے بری طرح خائف اور وہ جانتا ہے کہ چین کی طاقت کو ختم نہ کیا گیا تو 2012ء میں چین جنوبی ایشیاء کو چیمپئن اور 2015ء میں دنیا کی بڑی سپرپاور بن جائے گا۔ شاید اسی لئے گذشتہ دنوں چین کی طرف سے پاکستان کی عسکری امداد اور ایٹمی ٹیکنالوجی میں معاونت پر امریکہ کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے۔ امریکہ کے اشارے پر بھارت نے بھی چین سے جواب طلبی شروع کر دی۔ بھارت کے وزیراعظم من موہن سنگھ نے چین سے مفاہمت طلب
کی تو ہنسی آئی کہ کیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔ عالمی سطح پر اسے بھارت کا انتہائی مضحکہ خیز لطیفہ سمجھا گیا۔ بھارت اپنے قدموں پر ضرور کھڑا ہے لیکن ابھی چین کا ہمسر نہیں ہوا کہ آنکھیں دکھائے۔ بھارت اور امریکہ کا عجیب و غریب رویہ ہے۔ جب بھارت کی کوئی مقتدر شخصیت پاکستان سے خیرسگالی کا بیان جاری کرتی ہے تو کشمیر یا سرحدی علاقوں میں کشت و خون کا بازار گرم کر دیتی ہے۔ بھارتی وزیرداخلہ چدم برم نے پاکستان آ کر تعاون پر بات کی اور اسی روز کشمیر میں پھر سر سبز زمین کو سرخ کر دیا گیا۔ اسی طرح امریکہ نے بڑے تزک و احتشام سے 3ایف 16طیارے پاکستان کو دیے گئے اور امریکی سفیر نے اس موقع پر کہا کہ ہم پاکستان کے جنگی جہازوں کی اپ گریڈیشن کریں گے اور امریکہ ہر مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ امریکی ائر چیف نارٹن نے کہا کہ امریکہ مزید طیارے پاک فضائیہ کو دے گا۔ ایک طرف یہ تقریب برپا تھی تو دوسری طرف شمالی وزیرستان میں ڈرون حملوں میں سات افراد کر دیے گئے جبکہ جھڑپوں میں 18 عسکریت پسند مار دیے گئے۔ ڈرون حملے مسلسل پاکستانی حدود میں ہو رہے ہیں اور بے گناہ، معصوم، نہتے پاکستانی بلاوجہ موت کے گھاٹ اتارے جا رہے ہیں۔ امریکہ ایک نفسیاتی مرض میں مبتلا ہے کہ مسلم دنیا کو مٹاتا ہے اور برتری کا جنون بڑھانا ہے۔ امریکہ طاقت برتری کے زعم میں ان ممالک سے برسرپیکار ہے جو بچارے پہلے ہی اپنے دفاعی معاشی معاشرتی مسائل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر عراق ایران افغانستان پاکستان شام لبنان، لیبیا، فلسطین وغیرہ وہ اسلامی ممالک ہیں جو خود مسائل و مصائب کا شکار ہیں۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ مرتے کو مارے شاہ مدار، اگر امریکہ کو اپنی طاقت اور سپرپاور ہونے پر ناز ہے تو پھر اسے چاہئے کہ کسی اپنے جیسے ملک سے ٹکر لے۔ مثلاً جرمنی، جاپان، فرانس، اٹلی، بھارت وغیرہ۔ کسی بے بس نہتے بے یارومددگار ملک پر حملہ کرنے یا انہیں تنگ کرنے کا کیا فائدہ۔ پاکستان سے لڑنا تو ویسے بھی بہت بڑی حماقت ہے جس ملک میں اندرونی شورشیں ہوں۔ جہاں غربت بے روزگاری اور مہنگائی سے لوگ نبرد آزما ہوں وہ نہ جنگ کرنے کے قابل ہوتے نہ کسی سے لڑنے کے۔ مگر امریکہ معلوم نہیں ان مظلوم ممالک سے کیا چاہتا ہے۔ اوباما کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کا عراق افغانستان پاکستان اور فلسطین میں خون بہا کر جارج ڈبلیو بش کو کیا ملا۔ سوائے ذلت و رسوائی کے۔
امریکہ نے ایک طرف جنرل میک کرسٹل کو برطرف کر کے حیران کر دیا جس سے افغانستان جنگ اور امریکی حکمت عملی میں تبدیلی کے واضح آثار نظر آئے تو دوسری جانب اچانک ہی امریکہ نے 3ایف 16، طیارے پاک فضائیہ کے حوالے کر دیے۔ کسی زمانے میں جب جنرل ضیاالحق مرحوم کے امریکہ سے بڑے مراسم تھے تو مرحوم نے ایف 16 کی خریداری کی۔ اگرچہ یہ آئیڈیا مرحوم ضیاالحق کا ذاتی نہیں تھا۔ اس کی تحریک اور تجسس شوق بھی امریکہ نے خود مرحوم پاکستانی صدر کے دل میں سرایت کیا تھا۔ ضیاالحق نے ایف سولہ طیاروں کی جوش میں قبل از ادائیگی بھی کر دی مگر امریکہ نے ایف 16کا معاملہ لٹکا دیا۔ مرحوم صدر ایف 16طیاروں کے دیدار کے لئے ترس گئے لیکن ادائیگی کے باوجود امریکہ لیت و لعل سے کام لیتا رہا۔ بعد میں ایف 16 قسطوں میں گئے۔ شنید ہے کہ ایف 16طیارے امریکہ کے کام کے نہیں رہے تھے اور انہیں زنگ لگنے لگا تھا تو وہ پاکستان کو دیے گئے۔ اب اچانک امریکہ کی یہ مہربانی سمجھ سے بالاتر ہے۔ تب امریکہ کو روس جیسی سپر پاور کو گرانا تھا لہٰذا افغانستان کی آڑ میں امریکہ نے روس کے ٹکڑے کئے۔ اگرچہ افغانستان کو سارا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ تیسری دنیا کے ممالک کا یہی سنگین مسئلہ ہے کہ یہاں اقتدار کا مزا لوٹنے والوں کا مزا دوبالا ہو جاتا ہے لیکن عوام پس کر رہ جاتی ہے۔ اس وقت بھی افغانستان کے بعض سرکردہ افراد اور پاکستان میں مقتدر شخصیات کو بے پناہ فوائد پہنچے۔ ان ثمرات کے نتائج آج اس کی نسلوں میں دیکھے جا سکتے ہیں جو آج اس قدر امیر ہیں کہ تب سے اب تک بیٹھ کر کھا رہے ہیں اور ان کے اثاثے شمار کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ افغانستان میں بے شمار غریب سپاہی اور مجاہدین مارے گئے۔ عورتیں بیوہ، بچے یتیم ہوئے لیکن کچھ لوگوں کو فائدہ پہنچ گیا۔ امریکہ نے ایسے ہی حالات اور بدگمانیاں 1990ء میں خلیج جنگ کے موقع پر پیدا کیں۔ عراق کے صدر صدام حسین کو اپنے اقدامات سے ہیرو بنایا۔ عراق کویت جنگ کا مسئلہ چھیڑ کر امریکی فوج سعودی عرب جا بیٹھی اور 1990ء سے 2010ء تک بیس سالوں ان تینوں ملکوں سے تیل ایسے نچوڑا ہے جیسے لیموں سے رس نچوڑا جاتا ہے۔ بعد ازاں نائن الیون کے نام پر وہی ہیرو صدام حسین ولن بنا دیا گیا۔ دنیا جانتی ہے کہ جن کیمیائی ہتھیاروں کے نام پر عراق کو خون کے کنوﺅں میں تبدیل کیا گیا۔ آج تک وہ کیمیائی ہتھیار عراق سے نکال کر پیش نہیں کئے گئے بلکہ ان کا کوئی معمولی سا ثبوت بھی نہیں دیا گیا۔ صدام حسین کو جس طرح ٹھڈے مار کر پھانسی چڑھائی گئی.... اگر مسلم دنیا میں رتی برابر بھی حمیت و غیرت ہوتی تو مسلم دنیا امریکہ کو اس کا منہ توڑ جواب دیتی لیکن مسلمانوں کی تنظیم او آئی سی، آر سی ڈی سبھی کو سانپ سونگھ گیا۔ ضیاالحق کا جہاز کریش حادثاتی نہ تھا۔ اسی طرح یاسر عرفات کی موت بھی غیرت کے ہزار پہلو لئے ہوئے ہیں۔ یاسر عرفات کو آخری وقت میں ان کی یہودی بیوی کے ذریعے ایسی ادویات دی گئیں جس سے وہ ذہنی و جسمانی طور بالکل مفلوج ہو گئے اور آخر میں زہر خورانی کے ذریعے آخرکار یاسر عرفات کو ملک عدم روانہ کر دیا گیا لیکن اسلامی دنیا حرکت میں نہیں آئی۔ یہی وہ پوائنٹ ہے جس کی وجہ سے امریکہ کبھی شام پر آنکھیں نکالتا ہے تو کبھی ایران کو دھمکیاں دیتا ہے اور کبھی پاکستان کے حکمرانوں کو ڈکٹیشن دیتا ہے۔ امریکہ کی نیت نیک ہوتی تو وہ کبھی بھارت کو شہ نہ دیتا۔ امریکہ خطے میں فی الحال بھارت کی برتری چاہتا ہے کیونکہ وہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت و مقبولیت سے بری طرح خائف اور وہ جانتا ہے کہ چین کی طاقت کو ختم نہ کیا گیا تو 2012ء میں چین جنوبی ایشیاء کو چیمپئن اور 2015ء میں دنیا کی بڑی سپرپاور بن جائے گا۔ شاید اسی لئے گذشتہ دنوں چین کی طرف سے پاکستان کی عسکری امداد اور ایٹمی ٹیکنالوجی میں معاونت پر امریکہ کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے۔ امریکہ کے اشارے پر بھارت نے بھی چین سے جواب طلبی شروع کر دی۔ بھارت کے وزیراعظم من موہن سنگھ نے چین سے مفاہمت طلب
کی تو ہنسی آئی کہ کیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔ عالمی سطح پر اسے بھارت کا انتہائی مضحکہ خیز لطیفہ سمجھا گیا۔ بھارت اپنے قدموں پر ضرور کھڑا ہے لیکن ابھی چین کا ہمسر نہیں ہوا کہ آنکھیں دکھائے۔ بھارت اور امریکہ کا عجیب و غریب رویہ ہے۔ جب بھارت کی کوئی مقتدر شخصیت پاکستان سے خیرسگالی کا بیان جاری کرتی ہے تو کشمیر یا سرحدی علاقوں میں کشت و خون کا بازار گرم کر دیتی ہے۔ بھارتی وزیرداخلہ چدم برم نے پاکستان آ کر تعاون پر بات کی اور اسی روز کشمیر میں پھر سر سبز زمین کو سرخ کر دیا گیا۔ اسی طرح امریکہ نے بڑے تزک و احتشام سے 3ایف 16طیارے پاکستان کو دیے گئے اور امریکی سفیر نے اس موقع پر کہا کہ ہم پاکستان کے جنگی جہازوں کی اپ گریڈیشن کریں گے اور امریکہ ہر مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ امریکی ائر چیف نارٹن نے کہا کہ امریکہ مزید طیارے پاک فضائیہ کو دے گا۔ ایک طرف یہ تقریب برپا تھی تو دوسری طرف شمالی وزیرستان میں ڈرون حملوں میں سات افراد کر دیے گئے جبکہ جھڑپوں میں 18 عسکریت پسند مار دیے گئے۔ ڈرون حملے مسلسل پاکستانی حدود میں ہو رہے ہیں اور بے گناہ، معصوم، نہتے پاکستانی بلاوجہ موت کے گھاٹ اتارے جا رہے ہیں۔ امریکہ ایک نفسیاتی مرض میں مبتلا ہے کہ مسلم دنیا کو مٹاتا ہے اور برتری کا جنون بڑھانا ہے۔ امریکہ طاقت برتری کے زعم میں ان ممالک سے برسرپیکار ہے جو بچارے پہلے ہی اپنے دفاعی معاشی معاشرتی مسائل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر عراق ایران افغانستان پاکستان شام لبنان، لیبیا، فلسطین وغیرہ وہ اسلامی ممالک ہیں جو خود مسائل و مصائب کا شکار ہیں۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ مرتے کو مارے شاہ مدار، اگر امریکہ کو اپنی طاقت اور سپرپاور ہونے پر ناز ہے تو پھر اسے چاہئے کہ کسی اپنے جیسے ملک سے ٹکر لے۔ مثلاً جرمنی، جاپان، فرانس، اٹلی، بھارت وغیرہ۔ کسی بے بس نہتے بے یارومددگار ملک پر حملہ کرنے یا انہیں تنگ کرنے کا کیا فائدہ۔ پاکستان سے لڑنا تو ویسے بھی بہت بڑی حماقت ہے جس ملک میں اندرونی شورشیں ہوں۔ جہاں غربت بے روزگاری اور مہنگائی سے لوگ نبرد آزما ہوں وہ نہ جنگ کرنے کے قابل ہوتے نہ کسی سے لڑنے کے۔ مگر امریکہ معلوم نہیں ان مظلوم ممالک سے کیا چاہتا ہے۔ اوباما کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کا عراق افغانستان پاکستان اور فلسطین میں خون بہا کر جارج ڈبلیو بش کو کیا ملا۔ سوائے ذلت و رسوائی کے۔