نذیر احمد غازی
مذہب ایک فطری ضرورت ہے مذہب کے منکر بھی ایک منظم اور مرتب رائے رکھتے ہیں، قبول یا عدم قبول کا سبب محض زاویہ نظر کا مختلف ہونا ہے وہ مذاہب جو انسان کو زندہ رہنا سکھاتے ہیں باعث کشش ہوتے ہیں اور لائق اتباع بھی ہوتے ہیں وہ مذاہب جو انسان کو زندہ درگور کرنے کا لائحہ عمل رکھتے ہیں وہ لائق نفرت ہوتے ہیں بعض لوگ زندگی میں منافقت کے رویے کو بھی ایک مستقل مذہب سمجھتے ہیں۔ یہ منافقت کیا ہے؟ کس کا شیوہ ہے؟ اور کون اسے پروان چڑھانے میں مدد دیتا ہے؟ یہ ہماری گفتگو کے مرکزی نکات ہیں۔ منافقت دراصل بزدلی اور ظلم کے یکجا ہونے کا دوسرا نام ہے۔ ظالم جب اپنی کھال بچا کر ظلم کرنا چاہتا ہے تو وہ بزدلی کی بیماری کا شکار ہوتا ہے اس کا بغض ابلیسی بغض کا پر تو ہوا کرتا ہے اقوام کے رویوں اور مذاہب کے اطوار میں جب منافقت سرایت کرتی ہے تو پھر ظلم، بزدلی مل کر معاشروں میں عدم استحکام پیدا کرتے ہیں یہ ایک سادہ سا اصول زندگی ہے، یہ منافقت ان لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے کہ جن کے پاس علم، عقل اور حقیقت کی دلیل نہیں ہوتی اور ان کی اخلاقی جرأت بھی صفر کے برابر ہوتی ہے ان کے اندر کا بغض ان کو ظلم پر آمادہ کرتا ہے۔ یوں تو یہ مرض معاشرے اور اقوام عالم کی تاریخ میں بہت ہی کثرت سے پایا جاتا ہے لیکن …؎
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی سے معاف
آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے
مجھے پاکستان اور آج کے پاکستان کے حالات پر جب رونا آتا ہے تو میرے فکر کی تختی پر یہودیوں اور ہندوؤں کی انسانیت کش تاریخ ابھرنے لگتی ہے۔ دنیا کے ان دو خطرناک اور انسانیت کش مذاہب میں انسانی تذلیل کا جو منظم و مرتب لائحہ عمل موجود ہے وہ دل ہلا دینے کا باعث ہے۔ یہودیوں کی نسل پرستی اور اپنی نسلی برتری کا جو مذہبی تصور ان کا امتیازی نشان ہے وہ انہیں انسان دشمنی پر مجبور کرتا ہے۔ یہودی خودساختہ مذہبی تعلیمات اور انکے خود اختراعی اخلاقی رویے ساری دنیا کے انسانوں کو اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں۔ مذہب تو امن کا گہوارہ ہوتا ہے اس لئے پوری انسانیت کا اجتماعی حق مذہب پر ہوتا ہے لیکن یہودیوں کے ہاں محض نسلی نسبت ہی مذہب برداری کی ضمانت ہوتی ہے اور دنیا بھر کی باقی نسلیں انکے نزدیک گمراہ اور کمتر خلائق ہیں اسی سبب سے انہوں نے انسانیت کے علمبردار اور کمزور انسانوں کے ہمدردوں کو ہمیشہ تہ تیغ کیا ہے چاہے اسکی زد میں پیغمبرانِ وقت ہی کیوں نہ آ جائیں اپنے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کویا تو غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہے یا پھر موت کے گھاٹ اتارا ہے‘ آج کے بین الاقوامی سیاسی منظر نامے میں یہودی پوری دنیا کی امامت و سیاست کا تاج سجانے کیلئے ایک منظم جدوجہد کر رہا ہے اس کوشش کو منزل نجات تک پہنچانے کیلئے وہ اپنی روایتی تاریخی انداز کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہر مذہب کی مقدس زیارت گاہوں کی بے حرمتی اور ان پر غاصبانہ قبضہ اس کا امتیاز ہے دہائیوں پر مشتمل فلسطین کے عوام پر زندگی تنگ کرنے کا وطیرہ اب اپنے انتہا کو پہنچ چکا ہے اب بدقسمتی یہ ہے کہ یہودیوں نے انسانیت کے نجات دہندہ سب سے بڑے مذہب یعنی دین کامل اسلام کے ذہنی، فکری، عملی، تاریخی، سیاسی اور ریاستی مناظر کو دنیا سے مٹانے کی عملی جدوجہد طاقتور ممالک کی مدد سے شروع کر دی ہے بہانہ ایشیاء اور یورپ کے تہذیبی اختلاف کی خلیج کو پر کرنے کا بنایا گیا ہے لیکن حقیقت میں طاقتور اسلامی ممالک کو شکنجے میں جکڑنے کا پروگرام ہے۔ یہودیت کے مرکز اسرائیل کی سب سے زیادہ مخالفت پاکستان اور ایران کی طرف سے ہوا کرتی ہے۔ افغانستان کا غیور پٹھان ہر عملی اقدام میں ملت کی بقاء کیلئے جانثاری پر تیار رہتا ہے۔ برسوں کی طویل خاموش تحقیق کے بعد ایشیا کی ریڑھ کی ہڈی یہ خطہ پاک و ایران و افغان اس لئے منتخب کیا گیا ہے کہ یہاں کا مسلمان اپنی مذہبی نسبت و وابستگی میں اتنا گہرا ہے کہ وہ اپنے ایمان کی جان سرور عالم حضورﷺ کی شان پر جان قربان کرنے پر تُلا رہتا ہے یہاں کی مٹی سے اسلام کی محبت کی مہک اٹھتی ہے۔ یہاں کے نوجوان کا خون محبت مصطفیؐ سے گرم رہتا ہے اس گرمی ایمان کی تمازت سے عالم کفرو یہود کو اپنا جینا دوزخی کا جینا نظر آتا ہے اس لئے کہ شرافت انسانی پر اپنا استبدادی نتیجہ برقرار نہیں رکھ سکتا ایشیاء کے اس خطے کے لوگوں کی مذہبی جذباتی وابستگی منافقت کو برداشت نہیں کر سکتی اس لئے ضروری ہے کہ مذہب کی جاذبیت کو ختم کر دیا جائے مذہب کے روشن چہرے پر فساد، جہالت اور دہشت گردی کا داغ لگا دیا جائے‘ مذہب کے چہرے کی ناک کو آنکھ سے اور کان کو زبان سے لڑا دیا جائے تاکہ مذہب کا چہرہ اتنا بھیانک ہو جائے کہ لوگ مذہب کو گالی دیں اور اسلام کو ناکام کہیں۔
صاحبو! ہماری گفتگو کا تیسرا نکتہ یہ ہے کہ منافقت کے اس پروگرام کو پروان کون چڑھا رہا ہے، وہی لوگ پروان چڑھا رہے ہیں جو بزدل ہیں اور ظالم ہیں مکار بزدل ہوتا ہے اگر سامنے آنے کی طاقت ہو تو سازش کیلئے وقت کا انتظار کیوں کرے ہم اپنی صفوں میں جھانکیں اور اپنے بڑے ادارے کے ڈھانچے کی چولوں کو ذرا تو نگر قوت سے ہلا کرپڑتال کریں تو معلوم ہو جائیگا کہ ہمارے ہر ادارے میں سازش کی دیمک نے ہر ستون، ادارہ کو کھوکھلا کر دیا ہے اس لئے اوپر سے نیچے تک اور نیچے سے اوپر تک بزدلی اتنی سرایت کر گئی ہے کہ اپنی بقاء کیلئے ظلم کا سہارا لینا پڑ رہا ہے اور بقاء کی اس لاشعوری کوشش میں منافقت کا لبادہ اوڑھنا ضروری ہو گیا ہے ورنہ کسی جابر مخالف کی تلوار براہ راست قلع قمع کر دیگی۔ یہودیوں نے انسانی کمزوری کو مزید بے بسی میں بدلنے کیلئے ایسے خوش کن اور خوبصورت جال بنا دیئے ہیں کہ ہمارا سیاستدان خوش ہے اپنی پارلیمان بھی نہال ہے ہمارا قلمکار بھی ہر نو وارد کو نسیم صبح کا جھونکا سمجھ رہا ہے۔ ہماری آخری فریاد گاہ بھی خوشنودیٔ امریکہ کیلئے آگے بڑھی جاتی ہے مذہب پرستوں کو علیحدہ علیحدہ پسندیدہ اکھاڑے الاٹ کر دیئے ہیں کہ یہاں پر مشاقی کرو پھر جلد ہی نفرت کی قبائیں پہن لینا ہے اور تصادم کے حجاب اوڑھ کر ایک دوسرے پر پل پڑنا ہے اور بہت زیادہ نقاہت وارد ہو تو ہمیں پکارنا ہم تمہیں قوت دینگے پھر دوسرا کمزور ہو گا ہم اسے قوت دینگے اور یوں قوت گھٹاتے بڑھاتے رہیں گے پھر ترازو سے روٹی اٹھا کر کھا جائینگے۔
بھئی مذہب والو! منبرو محراب کے وارثو، خانقاہوں کے صاحبان سجادہ ومسند ارشاد کے صاحبو! تمہاری کسی کتاب میں‘ فکر کے خانے میں تربیت کے نصاب میں مل بیٹھنے کا کوئی درس ہے یا محض مسلک پروری اور ذات کی برتری کا ترانہ ہی تمہارے دلوں میں بجتا ہے اور تمہارا دل اچھل اچھل کر تمہیں رفیع المرتبت بناتا رہتا ہے۔ یاد رکھو تم جس پاک سرزمین میں رہتے ہو اس کی اساس میں کلمہ طیبہ کی خوشبو ہے اور شہدائے مخلصین فی الدین کے لہو کی مہک ہے عفت مآب اسلام زادیوں کی عصمت کی ضمانت ہے جو قومی مچلکے پر ادا کی گئی تھی۔ اب اگر روٹی بندر اٹھا کر لے گیا تو یہ بندر قَرَدَۃ خاسین (پھٹکارے ہوئے بندر) نسل کے بندر ہیں یہ ترازو کی ڈنڈی سے تمہاری پٹائی بھی کرینگے اور تمہارا آشیانہ بھی چھین لیں گے۔ مذہب پرستی پاکستان کی بقاء اور نظریے کے بقاء کی ضمانت ہے‘ اس لئے یہودی ہر طاقتور مسلمان ملک کو فلسطین کی سرزمین سمجھے ہوئے ہے اس نے مذہبی برتری کو مذہبی ابتری میں بدلنے کا عہد کیا ہوا ہے۔ برصغیر کی سرزمین میں اولیاء کا فیضان ہمہ وقت جاری و ساری رہتا ہے فیضان کی اس فضاء کو مکدر اور بے خوشبو کرنے کیلئے انہوں نے اولیاء دشمنی کا اہتمام بھی نئے انداز سے کیا ہے پہلے ملا کو بدنام کرنے کیلئے نفاذ اسلام کی تحریکیں چلوائیں اور اب صوفیاء کو بدنام کرنے کیلئے ایوان صدر سے لے کر تعلیمی اداروں تک میں تصوف سیمینارز منعقد کروائے جا رہے ہیں جہاں ہر صوفی نما کھوکھلے کردار کو دوہزار روپے دے کر اخبار کی زینت بنایا جاتا ہے پھر اس کے مفلوک الحال کردار کا ڈھنڈورہ پٹوایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اگر امن درکار ہے تو مسجد و خانقاہ کو چھوڑو کہ وہاں ہر وقت نماز گولیاں چلتی ہیں، بم پھٹتے ہیں اور وقت دعا خودکش حملے ہوتے ہیں تمہارے مقدس دن جمعرات اور جمعہ یوم دہشت ہیں ہاں البتہ عیسائیوں کے دعائیہ شفائیہ اجتماع میں کبھی آج تک بم دھماکہ نہیں ہوا۔ بتاؤ ۔ مذہب تمہارا امن و سلامتی والا ہے یا ہمارا۔ خطیب شہر گنگ کیا جواب دے؟
اس نے تو مسلک سیکھا، مسلک سکھایا اور مسلک ہی بنایا اور مسلک ہی بچایا بچو اور لوٹو اپنے رب کی طرف اسکی خوشنودی کی طرف اسکی نگاہ کرم کی بھیک مانگو اس سے اپنا دین اسلام مانگو اور اپنا امتیاز ایمان مانگو ورنہ تم منافق ہو جاؤ گے اور دنیا کے بڑے منافق تم چھوٹے منافقوں کو اپنا چھوٹا بنا لیں گے وہ تمہاری ظاہری مذہبی شناخت ختم کر دینگے اور مذہب منافقت کا قشقہ تمہاری سادہ جبینوںپر کھینچ دیں گے اور تمہارے خوابوں سے بھی آزادی چھین لیں گے تمہارا قلم توڑ دیں گے اور تمہاری زبان کھینچ لیں گے۔ میرا قلم رک جائے، میری زبان گونگی ہو جائے اور میرے منہ میں خاک، کاش ایسا نہ ہو کاش ایسا نہ ہو۔
مذہب ایک فطری ضرورت ہے مذہب کے منکر بھی ایک منظم اور مرتب رائے رکھتے ہیں، قبول یا عدم قبول کا سبب محض زاویہ نظر کا مختلف ہونا ہے وہ مذاہب جو انسان کو زندہ رہنا سکھاتے ہیں باعث کشش ہوتے ہیں اور لائق اتباع بھی ہوتے ہیں وہ مذاہب جو انسان کو زندہ درگور کرنے کا لائحہ عمل رکھتے ہیں وہ لائق نفرت ہوتے ہیں بعض لوگ زندگی میں منافقت کے رویے کو بھی ایک مستقل مذہب سمجھتے ہیں۔ یہ منافقت کیا ہے؟ کس کا شیوہ ہے؟ اور کون اسے پروان چڑھانے میں مدد دیتا ہے؟ یہ ہماری گفتگو کے مرکزی نکات ہیں۔ منافقت دراصل بزدلی اور ظلم کے یکجا ہونے کا دوسرا نام ہے۔ ظالم جب اپنی کھال بچا کر ظلم کرنا چاہتا ہے تو وہ بزدلی کی بیماری کا شکار ہوتا ہے اس کا بغض ابلیسی بغض کا پر تو ہوا کرتا ہے اقوام کے رویوں اور مذاہب کے اطوار میں جب منافقت سرایت کرتی ہے تو پھر ظلم، بزدلی مل کر معاشروں میں عدم استحکام پیدا کرتے ہیں یہ ایک سادہ سا اصول زندگی ہے، یہ منافقت ان لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے کہ جن کے پاس علم، عقل اور حقیقت کی دلیل نہیں ہوتی اور ان کی اخلاقی جرأت بھی صفر کے برابر ہوتی ہے ان کے اندر کا بغض ان کو ظلم پر آمادہ کرتا ہے۔ یوں تو یہ مرض معاشرے اور اقوام عالم کی تاریخ میں بہت ہی کثرت سے پایا جاتا ہے لیکن …؎
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی سے معاف
آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے
مجھے پاکستان اور آج کے پاکستان کے حالات پر جب رونا آتا ہے تو میرے فکر کی تختی پر یہودیوں اور ہندوؤں کی انسانیت کش تاریخ ابھرنے لگتی ہے۔ دنیا کے ان دو خطرناک اور انسانیت کش مذاہب میں انسانی تذلیل کا جو منظم و مرتب لائحہ عمل موجود ہے وہ دل ہلا دینے کا باعث ہے۔ یہودیوں کی نسل پرستی اور اپنی نسلی برتری کا جو مذہبی تصور ان کا امتیازی نشان ہے وہ انہیں انسان دشمنی پر مجبور کرتا ہے۔ یہودی خودساختہ مذہبی تعلیمات اور انکے خود اختراعی اخلاقی رویے ساری دنیا کے انسانوں کو اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں۔ مذہب تو امن کا گہوارہ ہوتا ہے اس لئے پوری انسانیت کا اجتماعی حق مذہب پر ہوتا ہے لیکن یہودیوں کے ہاں محض نسلی نسبت ہی مذہب برداری کی ضمانت ہوتی ہے اور دنیا بھر کی باقی نسلیں انکے نزدیک گمراہ اور کمتر خلائق ہیں اسی سبب سے انہوں نے انسانیت کے علمبردار اور کمزور انسانوں کے ہمدردوں کو ہمیشہ تہ تیغ کیا ہے چاہے اسکی زد میں پیغمبرانِ وقت ہی کیوں نہ آ جائیں اپنے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کویا تو غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہے یا پھر موت کے گھاٹ اتارا ہے‘ آج کے بین الاقوامی سیاسی منظر نامے میں یہودی پوری دنیا کی امامت و سیاست کا تاج سجانے کیلئے ایک منظم جدوجہد کر رہا ہے اس کوشش کو منزل نجات تک پہنچانے کیلئے وہ اپنی روایتی تاریخی انداز کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہر مذہب کی مقدس زیارت گاہوں کی بے حرمتی اور ان پر غاصبانہ قبضہ اس کا امتیاز ہے دہائیوں پر مشتمل فلسطین کے عوام پر زندگی تنگ کرنے کا وطیرہ اب اپنے انتہا کو پہنچ چکا ہے اب بدقسمتی یہ ہے کہ یہودیوں نے انسانیت کے نجات دہندہ سب سے بڑے مذہب یعنی دین کامل اسلام کے ذہنی، فکری، عملی، تاریخی، سیاسی اور ریاستی مناظر کو دنیا سے مٹانے کی عملی جدوجہد طاقتور ممالک کی مدد سے شروع کر دی ہے بہانہ ایشیاء اور یورپ کے تہذیبی اختلاف کی خلیج کو پر کرنے کا بنایا گیا ہے لیکن حقیقت میں طاقتور اسلامی ممالک کو شکنجے میں جکڑنے کا پروگرام ہے۔ یہودیت کے مرکز اسرائیل کی سب سے زیادہ مخالفت پاکستان اور ایران کی طرف سے ہوا کرتی ہے۔ افغانستان کا غیور پٹھان ہر عملی اقدام میں ملت کی بقاء کیلئے جانثاری پر تیار رہتا ہے۔ برسوں کی طویل خاموش تحقیق کے بعد ایشیا کی ریڑھ کی ہڈی یہ خطہ پاک و ایران و افغان اس لئے منتخب کیا گیا ہے کہ یہاں کا مسلمان اپنی مذہبی نسبت و وابستگی میں اتنا گہرا ہے کہ وہ اپنے ایمان کی جان سرور عالم حضورﷺ کی شان پر جان قربان کرنے پر تُلا رہتا ہے یہاں کی مٹی سے اسلام کی محبت کی مہک اٹھتی ہے۔ یہاں کے نوجوان کا خون محبت مصطفیؐ سے گرم رہتا ہے اس گرمی ایمان کی تمازت سے عالم کفرو یہود کو اپنا جینا دوزخی کا جینا نظر آتا ہے اس لئے کہ شرافت انسانی پر اپنا استبدادی نتیجہ برقرار نہیں رکھ سکتا ایشیاء کے اس خطے کے لوگوں کی مذہبی جذباتی وابستگی منافقت کو برداشت نہیں کر سکتی اس لئے ضروری ہے کہ مذہب کی جاذبیت کو ختم کر دیا جائے مذہب کے روشن چہرے پر فساد، جہالت اور دہشت گردی کا داغ لگا دیا جائے‘ مذہب کے چہرے کی ناک کو آنکھ سے اور کان کو زبان سے لڑا دیا جائے تاکہ مذہب کا چہرہ اتنا بھیانک ہو جائے کہ لوگ مذہب کو گالی دیں اور اسلام کو ناکام کہیں۔
صاحبو! ہماری گفتگو کا تیسرا نکتہ یہ ہے کہ منافقت کے اس پروگرام کو پروان کون چڑھا رہا ہے، وہی لوگ پروان چڑھا رہے ہیں جو بزدل ہیں اور ظالم ہیں مکار بزدل ہوتا ہے اگر سامنے آنے کی طاقت ہو تو سازش کیلئے وقت کا انتظار کیوں کرے ہم اپنی صفوں میں جھانکیں اور اپنے بڑے ادارے کے ڈھانچے کی چولوں کو ذرا تو نگر قوت سے ہلا کرپڑتال کریں تو معلوم ہو جائیگا کہ ہمارے ہر ادارے میں سازش کی دیمک نے ہر ستون، ادارہ کو کھوکھلا کر دیا ہے اس لئے اوپر سے نیچے تک اور نیچے سے اوپر تک بزدلی اتنی سرایت کر گئی ہے کہ اپنی بقاء کیلئے ظلم کا سہارا لینا پڑ رہا ہے اور بقاء کی اس لاشعوری کوشش میں منافقت کا لبادہ اوڑھنا ضروری ہو گیا ہے ورنہ کسی جابر مخالف کی تلوار براہ راست قلع قمع کر دیگی۔ یہودیوں نے انسانی کمزوری کو مزید بے بسی میں بدلنے کیلئے ایسے خوش کن اور خوبصورت جال بنا دیئے ہیں کہ ہمارا سیاستدان خوش ہے اپنی پارلیمان بھی نہال ہے ہمارا قلمکار بھی ہر نو وارد کو نسیم صبح کا جھونکا سمجھ رہا ہے۔ ہماری آخری فریاد گاہ بھی خوشنودیٔ امریکہ کیلئے آگے بڑھی جاتی ہے مذہب پرستوں کو علیحدہ علیحدہ پسندیدہ اکھاڑے الاٹ کر دیئے ہیں کہ یہاں پر مشاقی کرو پھر جلد ہی نفرت کی قبائیں پہن لینا ہے اور تصادم کے حجاب اوڑھ کر ایک دوسرے پر پل پڑنا ہے اور بہت زیادہ نقاہت وارد ہو تو ہمیں پکارنا ہم تمہیں قوت دینگے پھر دوسرا کمزور ہو گا ہم اسے قوت دینگے اور یوں قوت گھٹاتے بڑھاتے رہیں گے پھر ترازو سے روٹی اٹھا کر کھا جائینگے۔
بھئی مذہب والو! منبرو محراب کے وارثو، خانقاہوں کے صاحبان سجادہ ومسند ارشاد کے صاحبو! تمہاری کسی کتاب میں‘ فکر کے خانے میں تربیت کے نصاب میں مل بیٹھنے کا کوئی درس ہے یا محض مسلک پروری اور ذات کی برتری کا ترانہ ہی تمہارے دلوں میں بجتا ہے اور تمہارا دل اچھل اچھل کر تمہیں رفیع المرتبت بناتا رہتا ہے۔ یاد رکھو تم جس پاک سرزمین میں رہتے ہو اس کی اساس میں کلمہ طیبہ کی خوشبو ہے اور شہدائے مخلصین فی الدین کے لہو کی مہک ہے عفت مآب اسلام زادیوں کی عصمت کی ضمانت ہے جو قومی مچلکے پر ادا کی گئی تھی۔ اب اگر روٹی بندر اٹھا کر لے گیا تو یہ بندر قَرَدَۃ خاسین (پھٹکارے ہوئے بندر) نسل کے بندر ہیں یہ ترازو کی ڈنڈی سے تمہاری پٹائی بھی کرینگے اور تمہارا آشیانہ بھی چھین لیں گے۔ مذہب پرستی پاکستان کی بقاء اور نظریے کے بقاء کی ضمانت ہے‘ اس لئے یہودی ہر طاقتور مسلمان ملک کو فلسطین کی سرزمین سمجھے ہوئے ہے اس نے مذہبی برتری کو مذہبی ابتری میں بدلنے کا عہد کیا ہوا ہے۔ برصغیر کی سرزمین میں اولیاء کا فیضان ہمہ وقت جاری و ساری رہتا ہے فیضان کی اس فضاء کو مکدر اور بے خوشبو کرنے کیلئے انہوں نے اولیاء دشمنی کا اہتمام بھی نئے انداز سے کیا ہے پہلے ملا کو بدنام کرنے کیلئے نفاذ اسلام کی تحریکیں چلوائیں اور اب صوفیاء کو بدنام کرنے کیلئے ایوان صدر سے لے کر تعلیمی اداروں تک میں تصوف سیمینارز منعقد کروائے جا رہے ہیں جہاں ہر صوفی نما کھوکھلے کردار کو دوہزار روپے دے کر اخبار کی زینت بنایا جاتا ہے پھر اس کے مفلوک الحال کردار کا ڈھنڈورہ پٹوایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اگر امن درکار ہے تو مسجد و خانقاہ کو چھوڑو کہ وہاں ہر وقت نماز گولیاں چلتی ہیں، بم پھٹتے ہیں اور وقت دعا خودکش حملے ہوتے ہیں تمہارے مقدس دن جمعرات اور جمعہ یوم دہشت ہیں ہاں البتہ عیسائیوں کے دعائیہ شفائیہ اجتماع میں کبھی آج تک بم دھماکہ نہیں ہوا۔ بتاؤ ۔ مذہب تمہارا امن و سلامتی والا ہے یا ہمارا۔ خطیب شہر گنگ کیا جواب دے؟
اس نے تو مسلک سیکھا، مسلک سکھایا اور مسلک ہی بنایا اور مسلک ہی بچایا بچو اور لوٹو اپنے رب کی طرف اسکی خوشنودی کی طرف اسکی نگاہ کرم کی بھیک مانگو اس سے اپنا دین اسلام مانگو اور اپنا امتیاز ایمان مانگو ورنہ تم منافق ہو جاؤ گے اور دنیا کے بڑے منافق تم چھوٹے منافقوں کو اپنا چھوٹا بنا لیں گے وہ تمہاری ظاہری مذہبی شناخت ختم کر دینگے اور مذہب منافقت کا قشقہ تمہاری سادہ جبینوںپر کھینچ دیں گے اور تمہارے خوابوں سے بھی آزادی چھین لیں گے تمہارا قلم توڑ دیں گے اور تمہاری زبان کھینچ لیں گے۔ میرا قلم رک جائے، میری زبان گونگی ہو جائے اور میرے منہ میں خاک، کاش ایسا نہ ہو کاش ایسا نہ ہو۔